تحریر: علی عمران شاہین
جنرل ضیاء الحق، پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا کردار کہ جس نے اس ملک خدداد ہی نہیں ،اسلام اور دنیا بھرکے مسلمانوں کے لئے دن رات ایک کرکے اپنی ساری صلاحیتیں صرف کر دیں لیکن ۔۔۔۔وہی انسان آج دنیا کے ان مظلوموں میں شامل ہے کہ جن پر سب سے زیادہ نشتر برسائے جاتے ہیں۔جنرل ضیاء الحق کہ جس نے قوت ایمانی سے دنیا کی دوسری سپر پاور سوویت یونین کو تنکوں کی طرح بکھر دیا ۔جس نے بھارت جیسے مکار دشمن کی ہر چال کا منہ توڑ جواب دے کر قومی سا لمیت کی حفاظت کی ۔جس نے شراب وفحش لٹریچر کا خاتمہ کیا ۔جس نے زکوةوعشر اور نماز کا نظام قائم کیا ۔جس نے خانہ کعبہ میں امامت کروائی۔
جس نے ملک میں سوشلزم کا جنازہ نکال کر اسلامی نظام کے قیام کے لیے عملی اقدامات کیے۔ضیا ء الحق کی شہادت پوری مسلم امّہ میں انتہائی دکھ اور افسوس سے سنی گئی … دنیا بھر کے مسلم رہنماؤں ،اسلامی اداروں اور تنظیموں کے ذمّہ داروں اور اسلامی ملکوں کے سربراہوں نے ان کے جنازہ مین شرکت کی۔ اس جنازہ میں لاکھوںلوگوں نے شرکت کی۔پورے ملک مے صف ا ماتم بچ گئی اور لوگ زار و قطار روتے رہے.. پاکستان کا واحد حکمران جس نے گیارہ برس تک حکمرانی کی اور اپنے کسی اولاد کو سیاست میں نہیں لایا۔ خاندانی سیاست نہیں کی اورگیارہ برس تک ملک کا سفید و سیاہ مالک ہونے کے باوجود ایک پیسہ کی کرپشن نہیں کی۔ ضیاء کے بعد آنے والی بے نظیر کی حکومت نے ساری حکومتی مشنری کے استعمال کے باجود ضیاء الحق اور ان کے خاندان پرکرپشن کا کوئی الزام تک نہیں لگا سکی۔
یہ ایک سال پہلے کی بات ہے کہ بے شمار پہلوئوں سے عالمی شہرت رکھنے والی امریکی شخصیت بروس ریڈل کی ایک کتاب منظر عام پر آئی ۔ کتاب ”وٹ وی وون” ہم نے کیا جیتا؟ “What we won” کا موضوع روس کے خلاف افغان جہاد ہے، جس کے بارے میں آج بھی ہمارے ہاں بیشتر اسلام اور جہاد بیزار لوگ یہ کہتے پھرتے ہیں کہ یہ امریکہ کی جنگ تھی، جس میں پاکستان کو بہت نقصان ہوا ۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن بروس ریڈل نے اپنی اسی کتاب میں ایسے تمام نظریات ایسا رد کیا ہے کہ ان کے خیالات کا اب کسی کو جواب دینے کی ہمت نہیں ہو رہی۔ بروس ریڈل لکھتے ہیں کہ سابق سویت یونین کے خلاف افغان جنگ سی آئی اے نہیں بلکہ ضیاء الحق کی جنگ تھی جس کیلئے آئی ایس آئی نے مجاہدین کو جنگی حکمت عملی اور قیادت فراہم کی۔
امریکہ سے شائع ہونے والے فارن پالیسی میگزین میں اپنی کتاب کے حوالے سے لکھے گئے حالیہ آرٹیکل میں بروس ریڈل لکھتے ہیں، مجھے معلوم ہے کہ سب یہی سمجھتے ہیں کہ یہ ”چارلی ولسن کی جنگ” تھی لیکن ایسا نہیں ہے، یہ ضیاء الحق کی جنگ تھی۔ سی آئی اے کبھی افغانستان میں نہیں گئی اور مجاہدین کو بھی تربیت نہیں دی۔ اسی لئے ہمارا کوئی جانی نقصان بھی نہیں ہوا کیونکہ ہم نے کوئی خطرہ مول لینا ہی نہیں تھا۔ جتنی بھی قربانیاں اور اصولی خطرات لیے وہ سب افغانستان اور پاکستان کے لوگوں نے مول لیے۔ اسی لئے یہ چارلی ولسن نہیں بلکہ ضیاء الحق کی جنگ تھی جو ایک جوشیلے اور پکے مسلمان تھے۔ ضیاء الحق نے مجاہدین کو اس لیے تربیت فراہم کی کیونکہ ان کی سوچ تھی کہ لادین، کمیونسٹ اور ملحدین کے خلاف لڑنا اور انہیں افغانستان سے بھگانا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ پاکستان کے ساتھ اس لڑائی میں اسلام سے گہرا تعلق رکھنے والا ملک سعودی عرب بھی شامل تھا۔
سعودی عرب نے افغان مجاہدین کیلئے بہت زیادہ فنڈز اکٹھا کیے جو اپنے عروج تک پہنچ کر ایک مرتبہ 20 ملین ڈالر فی مہینہ تک جا پہنچے۔ افغانستان میں سویت یونین کے خلاف لڑائی نے ایک ایسا دانشورانہ ماحول پیدا کیا جس کی وجہ سے عالمی جہاد ابھر کر سامنے آیا۔ القاعدہ کو امریکا نے تربیت یا پھر مالی معاونت فراہم نہیں کی۔ اپنی ۔ریڈل لکھتے ہیں کہ ایک امیر سعودی باشندے اسامہ بن لادن نے براہِ راست 1980 تک مجاہدین کی حمایت کی۔ آئی ایس آئی کی مدد سے اسامہ نے افغانستان میں مجاہدین کیلئے ایک شاندار اڈہ تعمیر کرایا جس میں ایک اسپتال اور میلوں تک پھیلی ہوئی زیر زمین سرنگیں تھیں جن میں اسلحہ بھرا ہوا تھا۔ یقینی طور پر جب سوویت فوج کو افغانستان سے بھگا دیا گیا تو بن لادن اور عزام نے جہاد کو جاری رکھنے کیلئے نظم قائم کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ امریکا آتے ہوئے گلوبل جہاد کو دیکھ نہیں پایا، یہ ایک ناکامی ہے۔ 1980 میں ہم خوش قسمت تھے، پکے مسلمانوں کیلئے امریکا کے مقابلے میں لڑنے کیلئے ایک بڑا شیطان موجود تھا۔
جنرل ضیاء الحق نے بلوچستان میں علیحدگی اور سندھ میں جئے سندھ کی شورش پر قابو پانے کے لئے ایسی حکمت عملی اختیار کی کہ دنیا حیران رہ گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دوراقتدار میں بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک آج سے کہیں زیادہ زوروں پر تھی۔ اس دور کی حکومت نے تمام مخالفین کو ”پکڑو اور مارو” کی پالیسی کے تحت اول دن سے زیرعتاب رکھا تھا۔ یہی کچھ بلوچستان میں بھی کیا گیا تو بلوچ سردار باغی ہو گئے تو فوجی آپریشن شروع کروا دیا گیا۔ ساتھ ہی حیدرآباد ٹریبونل قائم کر کے بلوچ سرداروں پر بغاوت اور غداری کے مقدمات شروع کر دیئے گئے۔ یوں ملک بھر میں افراتفری اور انارکی کا دور دورہ تھا۔ ساتھ ہی حکومت نے مخالفین کے خلاف طاقت کا مسلسل بے دریغ استعمال کیا۔ اسی دوران بھٹو نے اپنی زیرنگرانی انتخابات میں اپنی مرضی کے نتائج نکلوائے توپورا ملک فتنہ و فساد میں جلنے لگا۔
تھک ہار کر فوج کے سربراہ جنرل ضیاء الحق نے ملک کو سنبھالنے کا فیصلہ کیا جس کے چند ہی ماہ بعد ہر طرف مکمل امن و سکون ہو گیا۔ جنرل ضیاء الحق کیونکہ فوجی سربراہ تھے اور بلوچستان آپریشن کی حقیقت سے بخوبی واقف تھے، سو وہ سیدھے بلوچ سرداروں کے پاس جیل میں ان سے ملنے جا پہنچے، ان کے پاس بیٹھ کر دن کا کھانا کھایا اور عطاء اللہ مینگل، سردار مری، ولی خان وغیرہ کو نہ صرف رہا کر کے انہیں محب وطن کہہ کر پکارا بلکہ حیدرآباد ٹریبونل سرے سے ہی ختم کر دیا۔ ساتھ ہی انہوں نے ساری فوج بلوچستان سے واپس بلا لی۔ وہ دن اور پھر 25 سال، بلوچستان میں مکمل امن و سکون رہا۔ صوبے سے علیحدگی اور بغاوت کا سرے سے نام ہی ختم ہوکر رہ گیا تبھی تو ولی خان اپنی بیگم کے ہمراہ مٹھائیوں کے ٹوکرے لے کر اسلام آباد ایوان صدر پہنچے تھے۔
یہی جنرل ضیاء الحق تھے کہ جنہوں نے اس جئے سندھ تحریک کے بانی سربراہ جی ایم سید سے ان کے آبائی علاقے’ سن’ سندھ میں اس کے گھر جا کر ملاقات کی۔ سینے سے لگایا اور وہاں ایسی گفتگو کی کہ وہ دن اور پھر 25 سال، سندھ میں ”جئے سندھ تحریک” کا صرف نام رہ گیا اور کبھی کہیں کوئی علیحدگی کی بات تک نہ ہوئی۔ یہ جنرل ضیاء ہی تھے جنہوں نے خاموشی سے پاکستان کو ہر قسم کے اسلحے سے مالا مال کر دیا، افغان جہاد کی پشت پناہی کر کے دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے دل جیت لئے۔ اقوام متحدہ میں قرآن پاک کی پہلی بار تلاوت کروانے کا شرف حاصل کیا اورساری اسلامی دنیا کی نمائندگی کی۔ اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ مضبوط و مستحکم حکومتوں کے پیچھے دراصل تحمل و درگزر کی پالیسی سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی جاری کردہ تھی کہ
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
نظر یہی آتا ہے کہ ضیاء الحق شہید نے بھی عنان حکومت سنبھالنے کے بعد مخالفین پر پیار محبت کے ذریعے قابو پانے کے لئے یہ بے مثل فہم وفراست حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے لی تھی کہ یوں امن و آشتی کا ماحول قائم رہا۔ وگرنہ جس طرح اپنے آخری ایام حکومت نے اپنے جیالے کارکنوں میں بے تحاشہ اسلحہ کی تقسیم شروع کر دی تھی کہ ایجنسیاں اور فورسز ناکام ہو گئی تھیں تو پھر ملک بھر میں خانہ جنگی اور خونریزی کا وہ بازار گرم ہوتا کہ دنیا تاریخ ہی بھول جاتی۔ اس دور کے جریدے ”زندگی” کے شمارے آج بھی اٹھا کر دیکھ لیں کہ کس طرح اسلامی تحریکوں کے کارکنوں کو الف ننگا کر کے سرعام سڑکوں پر مارا جاتا تھا۔
ایک بڑے دینی قائد کے ساتھ جیل میں ایسا سلوک ہوا کہ انہیں جج کے سامنے یہ کہنا پڑا کہ میرے ساتھ جو بیتی ہے وہ میں عدالت میں بیان نہیں کر سکتا۔ جج صاحب! آپ کے ساتھ صرف تنہائی میں بیان کر سکتا ہوں۔دل تویہی پکارتا ہے کہ ملک کو آج پھر ضیاء الحق ہی کی ضرورت ہے کہ جوپرامن طریقے سے سب کچھ ٹھیک کر دے۔افسوس کہ وہی جنرل ضیاء الحق آج سے مظلوم شخصیت اور ظالم ترین لوگ سب سے مظلوم اور نیک پروین قرار پا چکے ہیں۔
تحریر: علی عمران شاہین