تحریر : رانا اعجا ز حسین
زکوٰة کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں ،زکوٰة کی ادائیگی مال کو پاک کرتی ہے۔ توحید ورسالت کے اقرار اور اقامت صلوٰة کے بعد زکوٰة اسلام کا تیسرا رکن ہے، قرآن مجید فرقان حمید میں ستر سے زیادہ مقامات پر اقامت صلوٰة اور ادائے زکوٰة کا ذکر اس طرح ساتھ ساتھ کیاگیا ہے کہ دین میں ان دونوں کا مقام اور درجہ قریب ایک ہی ہے، اسی لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرماجانے کے بعد بعض علاقوں کے ایسے لوگوں نے جو بظاہر اسلام قبول کرچکے تھے اور توحید ورسالت کا اقرار کرتے اور نمازیں پڑھتے تھے، ادائیگی زکوٰةسے انکار کیا، تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کا اسی بنیاد پر فیصلہ کیا تھا کہ یہ نماز اور زکوٰ ة کے حکم میں تفریق کرتے ہیں جو اللہ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دین سے انحراف اور اتداد ہے، صحیح بخاری اور مسلم کی مشہور روایت ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جواب دیتے ہوئے فرمایا تھا ” خدا کی قسم نماز اور زکوٰة کے درمیان جو لوگ تفریق کریں گے میں ضرور ان کے خلاف جہاد کروں گا” پھر تمام صحابہ کرام نے ان کے اس نقطہ نظر کو قبول فرمایا اور اس پر سب کا اجماع ہوگیا۔
زکوٰة میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ مومن بندہ جس طرح نماز کے قیام اور رکوع وسجود کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں اپنی بندگی اور تذلل ونیازمندی کا مظاہرہ جسم وجان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی رضا ورحمت اور اس کا قرب اس کو حاصل ہو، اسی طرح زکوٰة ادا کرکے وہ اس کی بارگاہ میں اپنی مالی نذر اسی غرض سے پیش کرتا ہے اور اس بات کا عملی ثبوت دیتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسے اپنا نہیںبلکہ اللہ تعالیٰ کاہی سمجھتا اور یقین کرتا ہے، اور اس کی رضا و قرب حاصل کرنے کے لیے اس کو قربان کرتا اور نذرانہ پیش کرتا ہے، زکوٰة کا شمار ”عبادات” میں اسی پہلو سے ہے، دین وشریعت کی خاص اصطلاح میں ”عبادات” بندے کے ان اعمال کو کہا جاتا ہے جن کا خاص مقصد وموضوع اللہ تعالیٰ کے حضور میں اپنی عبدیت اور بندگی کے تعلق کو ظاہر کرنا اور اس کے ذریعہ اس کا رحم وکرم اور اس کا قرب ڈھونڈھنا ہو۔ دوسرا پہلو زکوٰة میں یہ ہے کہ اس کے ذریعہ اللہ کے ضرورت مند اور پریشان حال بندوں کی خدمت واعانت ہوتی ہے، اس پہلو سے زکوٰة اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے۔ تیسرا پہلو اس میں افادیت کا یہ ہے کہ حبّ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور نہایت مہلک روحانی بیماری ہے، زکوٰة اس کا علاج اور اس کے گندے اور زہریلے اثرات سے نفس کی تطہیر اور تزکیہ کا ذریعہ ہے،
اسی بناء پر قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے”اے نبیۖ! آپ مسلمانوں کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰة) وصول کیجئے جس کے ذریعہ ان کے قلوب کی تطہیر اور ان کے نفوس کا تزکیہ ہو” (سورة توبہ) دوسری جگہ فرمایا گیا ہے”اور اس آتش دوزخ سے وہ نہایت متقی بندہ دور رکھا جائے گا جو اپنا مال راہ خدا میں اس لیے دیتا ہو کہ اس کی روح اور اس کے دل کو پاکیزگی حاصل ہو” (سورةاللیل) زکوٰة کی اس غیر معمولی اہمیت اور افادیت کی وجہ سے اس کا حکم اگلے پیغمبروں کی شریعتوں میں بھی نماز کے ساتھ ہی ساتھ برابر رہا ہے، سورةانبیاء میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے صاحبزادے حضرت اسحق اور پھر ان کے صاحبزادے حضرت یعقوب علیہم السلام کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے ”اور ہم نے ان کو حکم بھیجا نیکیوں کے کرنے کا (خاص کر) نماز قائم کرنے اور زکوٰة دینے کا اور وہ ہمارے عبادت گزار بندے تھے” اور سورة مریم میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں فرمایا گیا ہے ” اور وہ اپنے گھروالوں کو نماز اور زکوة کا حکم دیتے تھے” اور اسرائیلی سلسلے کے آخری پیغمبر حضرت عیسیٰ ابن مریم کے متعلق ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے فرمایا ”میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی اور نبی بنایا ہے اور جہاں کہیں میں ہوں مجھے اس نے بابرکت بنایا ہے اور جب تک میں زندہ رہوں مجھے نماز اور زکوٰة کی وصیت فرمائی ہے” (سورة مریم)۔ سورة بقرہ میں جہاں بنی اسرائیل کے ایمانی میثاق اور ان بنیادی احکام کا ذکر کیا گیا ہے جن کی ادائیگی کا ان سے عہد لیا گیا تھا ان میں ایک حکم یہ بھی بیان کیا گیا ہے ”اور نماز قائم کرتے رہنا اور زکوٰة ادا کیا کرنا” (سورة بقرہ) اسی طرح جہاں سورہ مائدہ میں بنی اسرائیل کے اس عہد ومیثاق کا ذکر کیا گیا ہے، وہاں بھی فرمایا گیا ہے ”اوراللہ نے فرمایا میں (اپنی مدد کے ساتھ) تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نماز قائم کرتے رہے اور زکوٰة دیتے رہے اور میرے رسولوں پر ایمان لاتے رہے” (سورہ مائدہ٣) قرآن مجید کی ان آیات سے ظاہر ہے کہ نماز اور زکوٰة ہمیشہ سے آسمانی شریعتوں کے خاص ارکان اور شعائر رہے ہیں۔
زکوٰة ادا نہ کرنے کے متعلق احادیث میں بڑی سخت وعیدیں آئی ہیں ۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”جس آدمی کو اللہ تعالیٰ نے دولت عطا فرمائی پھر اس نے اس کی زکوٰة نہیں ادا کی تو وہ دولت قیامت کے دن اس آدمی کے سامنے ایسے زہریلے ناگ کی شکل میں آئے گی جس کے انتہائی زہریلے پن سے اس کے سر کے بال جھڑگئے ہوں گے اور اس کی آنکھوں کے اوپر دوسفید نقطے ہوں گے(جس سانپ میں یہ دو باتیں پائی جائیں وہ انتہائی زہریلا سمجھاجاتا ہے) پھر وہ سانپ اس (زکوٰةادا نہ کرنے والے بخیل) کے گلے کا طوق بنادیا جائے گا (یعنی اس کے گلے میں لپٹ جائے گا) پھر اس کی دونوں باچھیں پکڑے گا (اور کاٹے گا) اور کہے گا کہ میں تیری دولت ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں، یہ فرمانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ ہے ”اور نہ گمان کریں وہ لوگ جو بخل کرتے ہیں اس مال ودولت میں جو اللہ نے اپنے فضل وکرم سے ان کو دیا ہے (اور اس کی زکوٰة نہیں نکالتے) کہ وہ مال ودولت ان کے حق میں بہتر ہے، بلکہ انجام کے لحاظ سے وہ ان کے لیے بدتر اور شر ہے، قیامت کے دن ان کے گلوں میں طوق بناکے ڈالی جائے گی وہ دولت جس میں انہوں نے بخل کیا ”(بخاری)۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”ہرصبح دوفرشتے آسمان سے اترتے ہیں ایک کہتا ہے اے اللہ! خرچ کرنے والے کو بدل عطا فرما (اس پردوسرا فرشتہ آمین کہتا ہے) اور دوسرا کہتا ہے،
اے اللہ! خرچ نہ کرنے والے کا مال تلف فرما” (پہلا فرشتہ اس پر آمین کہتا ہے۔ (مشکوٰة) معلوم ہوا کہ جو راہِ خدا میں خرچ کرتا ہے اس کو دنیا میں بھی اس کا عوض ملتا ہے اور جو جمع رکھتا ہے اس کا مال دیرسویر تلف ہوجاتا ہے، دوسری حدیث میں ہے کہ ”جوشخص بھی سونا یا چاندی (یانقد) رکھتا ہے، اگر وہ اس کا حق (زکوٰة) ادا نہیں کرتا تو جب قیامت کا دن آئے گا اس کے لیے اس سونے چاندی سے آگ کی تختیاں بنائی جائیں گی پھر ان سے اس کے پہلو، پیشانی اور پیٹھ کو داغا جائے گا جب بھی وہ ٹھنڈی پڑیں گی دوبارہ تپائی جائیں گی، یہی عذاب اس کو قیامت کے پورے دن میں ہوتا رہے گا جو پچاس ہزار سال کے برابر ہے، یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے گا پھر وہ جنت کی طرف یا جہنم کی طرف جائے گا۔ (مشکوٰة) اس سزا کا تذکرہ سورہ توبہ میں بھی آیا ہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے چاندی کی زکوٰة ادا نہ کرنے کا وبال بیان فرمایا تو دریافت کیا گیا کہ اگر کسی کے پاس اونٹ، گائیں، بھینسیں اور بھیڑ بکریاں ہوں اور ان کی زکوٰة ادا نہ کی گئی ہو تو کیا سزا ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی سزا بھی ویسی ہی بیان فرمائی جیسی سونے چاندی کی بیان فرمائی تھی، مثلاً مویشی کے مالک کو ہموار میدان میں منہ کے بل لٹایا جائے گا اور اونٹ حاضر کئے جائیں گے جو گنتی میں پورے ہوں گے، موٹاپے میں بھی کوئی کمی نہ ہوگی اور ان میں سے بچہ تک غائب نہ ہوگا، وہ اپنے مالک پر چلیں گے اور اس کو کاٹیں گے، اسی طرح بھیڑ بکری، بھینس وغیرہ۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ” انتہائی درجہ کی بخیلی سے بچو، غایت حرص ہی نے تم سے پہلے والوں کو تباہ کیا ہے، اس نے ان کو ابھارا اور انہوں نے اپنوں ہی کا خون بہایا اور ناجائز چیزوں کو حلال کرلیا۔” (مشکوٰة) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا خیرات خطا کو بجھاتی ہے جس طرح پانی آگ کو بجھاتا ہے، یعنی خیرات کرنے والا دنیا و آخرت میں خطا کے ضرر سے محفوظ رہتا ہے۔” (مشکوٰة )ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے” سخی اللہ سے نزدیک،جنت سے نزدیک، لوگوں سے نزدیک، جہنم سے دور ہے، اور بخیل اللہ سے دور، جنت سے دور، لوگوں سے دور، جہنم سے نزدیک ہے،
جاہل سخی یقیناً اللہ تعالیٰ کو زیادہ پیارا ہے عابد بخیل سے” (مشکوٰة)۔ ایک اور حدیث مبارکہ ہے کہ ” مکار، بخیل اور احسان جتلانے والے جنت میں نہیں جائیں گے”(مشکوٰة)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایاکہ ” خود غرضی اور ایمان کسی بندے کے دل میں کبھی اکھٹا نہیں ہوتے۔ (نسائی) کیونکہ یہ دونوں متضاد کیفیات ہیں اور ضدین کا اجتماع ناممکن ہے۔ فرمان نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہے کہ ” خیرات پروردگار کے غصہ کو ٹھنڈا کرتی ہے اور بری موت کو ہٹاتی ہے، یعنی دنیا میں اللہ تعالیٰ عافیت سے رکھتے ہیں اور خاتمہ بالخیر ہوتا ہے۔ (مشکوٰة)یہ جان لینا چاہیے کہ مالداروں کے مال میں اللہ تعالیٰ نے غریبوں محتاجوں اور سائلین کے لیے ایک معین حق رکھا ہے جو مالدار کے ذمہ دینا ضروری ہے، اور یہ اس کے مال میں فقراء ومساکین کا حق ہے ، مالدار کا کوئی احسان نہیں ہے کہ وہ ان کو دے رہا ہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ ان کی صوابدید کے اوپر چھوڑدیا گیا ہے کہ جتنا سمجھ میں آئے دیدیا جائے اور جب جس کا جی چاہے اس میں کمی بیشی کردے، اللہ تعالیٰ نے اس معین حق کی مقدار بھی بتلانے کا کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد فرمایا اور آپۖ نے اس کا اس قدر اہتمام فرمایا کہ صحابہ کرام کو صرف زبانی بتلادینے پر اکتفاء نہیں فرمایا بلکہ اس کے متعلق مفصل فرمان لکھواکر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اور عمروبن حزم کو سپرد فرمائے، جس سے واضح طور پر ثابت ہوگیا کہ زکوٰة کے نصاب اور اور ہر نصاب میں سے مقدارِ زکوٰة ہمیشہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے واسطہ سے متعین کرکے بتلادئیے ہیں،
اس میں کسی زمانہ اور کسی ملک میں کسی کو بھی کمی بیشی یا تغیر وتبدل کا کوئی حق حاصل نہیں ہے، اس لیے جان لینا چاہیے کہ جو صاحب نصاب ہے وہ مال کی پوری زکوٰة حساب لگا کر ادا کرے اور اس میں کسی طرح کی کوئی کمی بیشی نہ کرے ورنہ تو دنیا وآخرت کے عذاب کے لیے تیار رہے۔ اور ایک مومن کبھی بھی گوارہ نہیں کرسکتا کہ وہ اللہ کے عذاب سے مقابلہ کرنے کی سوچے اور ایسے کام کرے جس سے اس کے اوپر اللہ کا عذاب نازل ہو۔ بلاشبہ زکوٰة ، معاشرے کے محروم طبقات، غریب افراد کو سماجی ،اقتصادی تعاون اور ان کو اپنے پیروں پر کھڑے کرنے کی راہ کے حصول میں نہایت مستند معاونت کا کردار ادا کرتی ہے۔ادائیگی زکوٰة ایک مضبوط و خوشحال معاشرہ کی تشکیل ، غربت کے خاتمے اور انسانی فلاح و بہبود کے کاایک اہم ترین ذریعہ ہے۔اسلام میں زکوٰة کا حکم سماجی انصاف اور روحانی اور اخلاقی قدروں کومستحکم کرنے کے لئے دیا گیا ہے۔جب ایک مسلمان کی بچت نصاب کی مقدار کو پہنچ جائے تو ایک متعین مقدار(ڈھائی فیصد) زکوٰة غریبوں اور ضرورتمندوں کے زندگیوں میں تبدیلی لانے کے لئے ایسے طریقے سے ادا کرے کہ کہ دائیں ہاتھ سے دیتے و قت بائیں ہاتھ کو علم نہ ہوتا،کہ اس فرض کی ادائیگی میں دکھلاوہ یا ریا کاری شامل نہ ہوپائے۔ اللہ پاک ہم سب کو اپنے احکامات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقے پر عمل کرنے والا بنائے، تاکہ ہمیں فلاح و کامیابی نصیب ہو ۔آمین
تحریر : رانا اعجا ز حسین
ای میل : ra03009230033@gmail.com
رابطہ نمبر:03009230033