لاہور(ویب ڈیسک)ہر سیاسی پارٹی الیکشن مہم کے دوران سہانے خواب دکھاتی ہے۔ ملک میں شہد اور دودھ کی نہریں بہانے کے وعدے کرتی ہے، شہباز میاں تو کہا کرتے تھے کہ چھ ماہ میںلوڈ شیڈنگ ختم نہ کی تو نام بدل دیں، یہ انتخابی وعدے اقتدار میں آنے کی صورت میں پانی کا بلبلہ ثابت ہوتے ہیں۔
نامور کالم نگار اسد اللہ غالب اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھی بڑے بڑے اعلانات کئے تھے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بڑھکوں کی انتہا کر دی تھی،مگر ہم دیکھتے ہیں کہ انتخابی وعدے ووٹنگ کے بعد قصہ ماضی بن جاتے ہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ عمران خان نے پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا جو وعدہ کیا تھا، وہ ا سے بھول بھال گئے ہوں گے، الیکشن مہم میں سچ جھوٹ سب کچھ جائز سمجھا جاتا ہے۔ مگر عمران خان ثابت کر رہے ہیں کہ وہ اپنے سب سے بڑے وعدوں کو بھولے نہیں۔انہوں نے پچا س لاکھ گھروں کی تعمیر کے منصوبے کے خدو خال واضح کر دیئے ہیں۔ لیکن اگر وہ اس منصوبے پر بات نہ کرتے تو ان پر کوئی آئینی پابندی عائد نہیں ہوتی تھی، وہ کہہ سکتے تھے کہ ملک کی معیشت آئی سی یو میں ہے۔ روزمرہ کے اخراجات،پچھلے قرضوں کی ادائیگی اور چند ماہ کی در آمدات کے اخراجات پورے کرنے کے لئے قرضہ لینا ایک مجبوری بن گئی ہے۔اس لئے گھر کا وعدہ پورا کرنا ممکن نہیں، بھٹو نے بھی روٹی کپڑا ور مکان کا دلکش اور خوشنما نعرہ لگایا ۔ جب ان کی حکومت ختم ہوئی تو نہ کسی کو روٹی مل رہی تھی، تن سے کپڑے بھی نوچ لئے گئے تھے اور کسی ایک کے سر کو چھت مہیا نہ کی جا سکی تھی۔ خودانہیں اپنی جان کے لالے پڑ گئے تھے۔ عمران خان نے نیا پاکستان ہاﺅسنگ اتھارٹی کے قیام کا اعلان کیا ہے جس کی کاغذی تیاری اگلے چھ ماہ میں مکمل ہو جائے گی ۔ اس منصوبے کی تکمیل کے لئے کئی دیگر ادارے بھی تشکیل دیئے گئے ہیں تاکہ مالیاتی اور قانونی دشواریوں کو دور کیا جا سکے۔ ابتدا میں ملک کے سات اضلاع میں ایک پائلٹ پراجیکٹ شروع کیا جا رہا ہے اور لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی ضرورت سامنے لائیں۔ا س کے لئے نادرا کی مدد سے ایک سرور پر فارم ڈاﺅن لوڈ کیا جائے گا، پہلے ہی دن اس منصوبے میںا سقدر دلچسپی دکھائی گئی کی فارم ڈاﺅن لوڈ کرتے کرتے سرور ڈاﺅن ہو گیا۔ میری رائے ہے کہ ا س فارم کو آن لائن ہی بھرا جائے تاکہ از خود سارا ریکارڈ کمپیوٹر میں محفوظ ہوتا رہے۔ نادرا کے لئے تیز رفتار سرور نصب کرنا کوئی مشکل کام نہیں ۔حکومت فی الحال اندازہ لگانا چاہتی ہے کہ کتنے لوگ ا س مقصد کے لئے درخواست دینے کے خواہش مند ہیں یعنی ڈیمانڈ دیکھنے کے لئے یہ تجربہ کیا گیا ہے ۔
ان کی دلچسپی کے پیش نظر ہی حتمی منصوبہ بندی کی جاسکے گی۔ میں اپنے کالم کو اعدا ووشمار سے بوجھل نہیں بنانا چاہتا ۔ وزیر اعظم بتا چکے ہیں کہ دنیا میں کس ملک میں قرضہ لے کر گھر تعمیر کرنے والوں کی شرح کیا ہے امریکہ میںنوے فیصد لوگ قرض سے گھر تعمیر کرتے ہیں اور پاکستان میں اعشاریہ آٹھ فیصد۔ مگر ثابت یہ کرنا مقصود ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر لوگ ذاتی وسائل سے گھر بناتے ہیں اور قرضہ لینے والے آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ پاکستان میں قرضے سے گریز کی کئی وجوہات ہیں جن میں بڑی وجہ یہ ہے کہ مالیاتی ادارے کم وسائل والوں کو قرض دیتے ہی نہیں۔ ۔قرضہ بھی پیسے والوں کو ملتا ہے۔ آپ کے پاس کروڑوں کی جائیداد ہے تو اس پر اربوں کے قرضے مل سکتے ہیں ،باقیوں کو ٹکا ساجواب ملتا ہے۔ کوئی سفید پوش قرضہ لینے میں کامیاب ہو جائے تو ا س کی ادائیگی نہیں ہو پاتی۔ میں خودا س جنجال سے گزرا ہوں اور بنکنگ کورٹ سے بچنے کے لئے عدالت سے باہر اپنے بنک سے یہ طے کرنا پڑا کہ گھر بیچ کر قرض ادا کر دیتا ہوں ، اگر یہی گھر بنک
فروخت کرتا تو اونے پونے دام ملتے اور میرے پاس پھوٹی کوڑی تک نہ ہوتی، یعنی جو پلاٹ نقد لیا گیا، وہ پیسے بھی واپس نہ آ سکتے۔ قرضے میں قباحت یہ ہے کہ یہ سود در سود پر نظام چلتا ہے۔ ایسے ہی تو اسلام نے سودی کارووبار کو حرام نہیں کیا۔ مجھے یک گونہ اطمینان یہ ہے کہ وزیر اعظم نے اپنی گفتگو میں اخوت کا ذکر کیا ہے ، اگرا س تنظیم کے ماڈل پر عمل کیا جائے یا اخوت کو اس کی نگرانی سونپ دی جائے تو مجھے یقین ہے کہ پچاس لاکھ گھر لینے والوں کاوہ حشر نہیں ہو گا جو میر اہوا یا ہر مقروض کا ہوتا ہے۔ اخوت نے ریاست مدینہ کے ماڈل کی سو فیصد پیروی کی ہے اور بلا سود قرضے دے کر لاکھوں نوجوانوں، بیواﺅں، یتیموں کی دعائیں لی ہیں کیونکہ اس کے دیئے گئے قرضوں سے ان کی زندگیاں بدل گئی ہیں اور ان میں سے زیادہ تر اب اخوت کے ڈونر بھی بن گئے ہیں۔ مثال ہے کہ دیئے سے دیا جلتا ہے۔اخوت نے ا س مثال کو درست ثابت کیا ہے۔ اخوت سے حسد کرنے والے اورا س کی نیک نامی سے دل جلانے والوں کی کمی نہیں ۔ پچھلے دنوں ڈاکٹرامجد ثاقب دل برداشتہ
ہوگئے تھے کہ کسی اخبار نے ان پر الزام لگا دیا کہ وہ پیسے دے کر قصیدے لکھواتے ہیں۔ خدا ان حاسدوں کو ہدایت دے، اخوت اور ڈاکٹر امجد ثاقب کا کردار روز روشن کی طرح سب پہ عیاں ہے۔ اب اگر وزیر اعظم نے بھی اخوت کی مثال دی ہے اوراس کے کام کو سراہاہے تو کیا وہ بھی ڈاکٹر امجد ثاقب کے زیر اثر ہیں۔وزیر اعظم عمران خان نے جب اخوت کا ذکر کیا تویقین جانیے کہ میرے دل میں عمران خان کی عزت دو چند ہو گئی کہ وہ جوہر قابل کی قدر کرنا جانتا ہے۔ وہ ہیرے کی پہچان کر سکتا ہے۔عمران خان کی زبان سے ا خوت کا ذکر سن کر میں نے ایک ایسے منصوبے پر قلم اٹھایا ہے جس کا ابھی کوئی سر پیر نہیں۔ا س کی پہلی اینٹ تک نہیں رکھی گئی۔ مگر میرا وجدان کہتا ہے کہ عمراں خان کام کادھنی ہے ۔ وہ عزم کر لے تو اپنی بات کو توڑ پہنچا کر دم لیتا ہے ۔ جب وہ کرکٹر تھا اورا سنے اپنے کندھے کی تکلیف کے باوجود ورلڈ کپ جیتنے کا عزم کیا تو اس نے ایساکر دکھایا۔ اس نے کینسر ہسپتال کی تعمیر کے بارے میں سوچا تو اسے ڈرانے والے بہت تھے مگر وہ اپنے عزم کا پکا نکلا اور ایک نہیں،دو ہسپتال وہ بنا چکا ہے۔ یہ کام تب کئے جب اس کے پا س کوئی ا ختیار نہ تھا۔آج وہ ایٹمی پاکستان کا وزیر اعظم ہے۔ ایٹمی پاکستان کوئی ٹھس کارتوس نہیں ۔ اس نے بڑے بڑوں کے کس بل نکال دیئے ہیں۔ اس لئے عمران خان ا س ملک کے وزیر اعظم کے طور پر اپنا یہ خواب بھی پورا کر دکھائیں گے۔ گھر کی قدر کوئی مجھ سے پوچھے جو اکہتر برس کی عمر میں بے گھر ہے۔ مجھے عمران خان سے گھر نہیں چاہیئے مگر ان غریبوں کے لئے ضرور گھر درکار ہیں جن کے سر پہ چھت کا سایہ نہیں۔