جرمنی ( نیوز/بیورو چیف) برلن بیورو کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو شہید کے ٣٧ ویں یوم شہادت پر ٣ اپریل ٢٠١٦ئ، اتوار کو سہیل انور خان کے ہول سیل اسٹور میں واقع عارضی بھٹو ہائوس میںپ یپلز پارٹی کی جانب سے ایک شاندار جلسہ منعقد ہوا،جس میں شرکت کے لئے پاکستان کے سابق وزیر داخلہ،پاکستان پیپلز پارٹی اوور سیز کے چیر مین،سینیٹر رحمٰن ملک بطور خاص لندن سے تشریف لائے۔ایر پورٹ پر ان کا استقبال پیپلز پارٹی برلن و جرمنی کے عہدیداران و کارکنان نے کیا اور کاروں کے جلوس میں انہیں جلسہ گاہ تک پہنچایا۔
جلسے کے خاتمہ پر مایہ ناز ایشین،یورپین صحافی و شاعر،ایڈیٹر انچیف ایشین پیپلز نیوز ایجنسی انٹرنیشنل پرنس انجم بلوچستانی نے سینیٹررحمٰن ملک سے ملاقات کی اور انہیں اپنی نیوز ایجنسی کی تفصیلات سے آگاہ کیا،جس پر انہوں نے اس دفعہ وقت کی کمی کے باعث تفصیلی ملاقات نہ ہونے پر معذرت کی اور آئندہ انجم صاحب کے ساتھ خصوصی نشست کا وعدہ کیا۔ انہوں نے پرنس انجم کےMQM ، جنرل مشرف اوربرلن وجرمنی میں پیپلز پارٹی کے معاملات پر مبنی سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ”میرے حوالے سےMQMکو بھارتی خفیہ ایجنسی را کا ایجنٹ قرار دینے کی باتوں میں کوئی حقیقت نہیں۔میری لندن میں ایم کیو ایم کی مرکزی رابطہ کمیٹی کے اراکین یا الطاف حسین سے ہونے والی ملاقاتوں میںرا سے تعلقات پر کبھی بات نہیں ہوئی۔میںنے پہلے بھی اسکی تردید کی ہے،جسکے بعد آج تک کسی حکومتی وزیر یا مشیر نے اسے جھٹلانے کی ہمت نہیں کی۔یہ میرے حوالے سے جھوٹا پروپیگنڈا ہے۔”
جنرل مشرف پر غداری کے مقدمہ کے بارے میںانہوں نے کہا کہ”اصل میں غداری کا مقدمہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف چلنا چاہئے،جنہوں نے جنرل مشرف کو فوجی وردی میںصدر پاکستان کا حلف اٹھانے اور آئین میں من پسند تبدیلیاں کرنے کا اختیار دیا تھا۔ اس مقدمہ میں جنرل مشرف کو دوسرے گواہوں کے ساتھ بطور گواہ طلب کیا جا سکتا ہے۔اصل مجرم افتخار چوہدری ہے۔”
رحمٰن ملک نے برلن و جرمنی میںپیپلز پارٹی کے معاملات پر پرنس انجم سے تفصیلی گفتگو کی، تاہم انہوں نے ان باتوں کو آف دی ریکارڈ سمجھنے کی استدعا کرتے ہوئے بتایا کہ”اس سلسلہ میں کوئی نوٹیفیکیشن جاری نہیں ہوا۔پیپلز پارٹی برلن و جرمنی کے تمام عہد یداران و کارکنان سے رابطہ و ملاقاتوں کے بعد کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔آپ میرا یہ پیغام ان کارکنوں کو پہنچا دیں جو آج اس جلسہ میں نہیں تھے۔”
یاد رہے کہ اس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے اس وقت کے مرکزی جنرل سکریٹری جہانگیر بدر برلن تشریف لائے تھے اور انہوں نے بھی اس بارے میں پیپلز پارٹی کے تمام گروپس کا مشترکہ اجلاس منعقد کیا تھا،تاہم وہ بھی ان گروپس کے درمیان صلح کرانے میں ناکام رہے اور دونوں گروپس اپنی اپنی جگہ قیادت کے دعویدار ہیں۔جہانگیر بدر جرمنی میں ایک مضبوط اور متحدپیپلز پارٹی کے قیام میں کوئی کردار ادا کرنے سے پہلے ہی مرکزی جنرل سکریٹری کے عہدہ سے الگ ہو گئے، اب دیکھئے چیرمین پیپلز پارٹی اوورسیز، رحمٰن ملک صاحب کی کوششیں ،جو ابھی تک کوئی مشترکہ اجلاس بھی نہ کر سکے، کیا رنگ لاتی ہیں؟؟؟