تحریر : ملک نذیر اعوان، خوشاب
غوث اعظم غریبوں، بے کسوں، یتیموں اور مساکینوں کی مدد کرتے تھے اس لیے آپ کو غوث اعظم کا خطاب دیا گیا۔ عقیدت مند غوث اعظم کو پیر پیران پیر کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ آپ کی ولادت رمضان کی پہلی تاریخ ٤٧٠ ہجری بغداد کے قریب ایک قصبہ میں ہوئی۔ غوث اعظم کا پورا نام عبدالقادر، کنیت، ابو محمد اور القابات محی الدین، غوث اعظم ہیں شریعت مطہرہ جن کی ولایت کے اندر کوئی شبہ نہیں۔ غوث اعظم نے اعلان فرمایا میرا یہ قدم ہر ولی کی گردن پر ہو گا۔
قارئین غوث اعظم کی یہ شان ہے۔ آپ کی والدہ محترمہ فرماتی ہیں۔ کہ رمضان شریف میں غوث اعظم میرا دودھ نہیں نوش کرتے تھے۔ آپ افطاری کے بعد اپنی والدہ کا دودھ نوش کرتے تھے اور یہ بھی آپ کی شان کا عالم ہے۔ جب آپ اس دنیا میں جلوہ افروز ہوئے اس دن تمام بیٹے پیدا ہوئے اور اللہ پاک نے سب کو ولی کے رتبے سے نوازا اور جب آپ کی ولادت ہوئی تو آپ کے والد حضرت ابو صالح کو سرکار دو عالم ۖ نے خواب میں بشارت دی آپ کے ہاں بیٹا ہو گا۔جو ولی ہو گا۔اور اس کا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہو گا۔
اللہ اور میرے ہاں بہت محبوب ہو گا۔ آپ کی ولادت کے کچھ عرصہ بعدآپ کے والد کا سایہ اٹھ گیا۔تو اس کے بعد آپ کی پرورش آپ کے نانے اور والدہ نے کی۔پیران پیردستگیرغوث اعظم ٢٦ سال کی عمر میں قرآن پاک۔علم فقہ،علم تفسیر اور علم وحدت مکمل کر لی۔اگر کہیں بھی کوئی مسئلہ حل نہ ہوتا تو لوگ آپ کے پاس تشریف لاتے۔آپ نے لاکھوں کی تعداد میں عیسائیوں کو مسلمان کیا۔غوث اعظم کے آستانے سے کوئی خالی نہیں جاتا تھا۔
آپ کھانا کھلاتے تھے اور لوگوں کی ضروریات پوری کرتے تھے۔آپ فرماتے تھے۔ یعنی جب آپ اپنے دل میں کسی شخص کی محبت پائو گے تو اس کے کام بھی دیکھیں جو قرآن اور سنت رسولۖ کے مطابق ہوں۔پھر اس سے محبت کرو۔اگر کسی شخص کے اندر بغض ہے تو اس سے بچو۔غوث اعظمنبی پاکۖ کی شریعت پر عمل پیرا تھے۔
آپ فرماتے تھے حضرت محمد ۖ کی لائی ہوئی شریعت دین اسلام کا لایا ہوا پھل ہے۔اس پر عمل کرنا دونوں جہاں کی بھلائیاں عطا فرماتا ہے۔اور غوث اعظم کے جتنے اقوال ہیں یہ سارے قرآن کریم کے مطا بق ہیں۔آپ کا عبادت میں یہ مقام تھا۔آپ ہر روز ایک ہزار نفل ادا کرتے تھے۔اور قارئین محترم غوث اعظم نے چالیس سال تک عشاء کے وضو سے صبح کی نماز ادا کی۔آپ ہر وقت اللہ کی یاد میں گزارتے تھے۔
غوث اعظم ہر روز ایک قرآن پاک کا ختم کرتے تھے۔حضرت شیخ سعدی اپنی کتاب بوستان سعدی میں فرماتے ہیں۔کہ ایک مرتبہ کسی شخص نے غوث اعظم کوکعبہ شریف کے اندر دیکھا آپ کعبہ شریف کے ساتھ لپٹ کررو رہے تھے۔اور دعا فرما رہے تھے۔
میرے پرودگار مجھے روز محشر کے دن سرکار دو عالم ۖ کے سامنے سر خرو کرناآپ کے اندر اتنا خوف خدا تھا۔تو یہ منظر دیکھ کراس شخص نے اپنے دوسرے ساتھیوں سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہے۔تواسے اپنے دوستوں نے بتایا یہ بغداد سے تشریف لائے ہیں۔اور ان کا نام حضرت غوث اعظم ہے۔
ایک روایت میں ہے آپ ایک مرتبہ حضرت کر خی کے مزار گئے اور فاتسورت فاتحہ پڑھی اور دعا کی کہ اللہ پاک ان نیک لوگوں کے صدقے میں میری بخشش ہو جائے۔تو قبر سے ندا آئی کہ غوث اعظم کا بہت رتبہ ہے آپ میرے حق میں دعا فرمائیں۔ میری بخشش ہو جائے۔آپ ریا ضت و عبادت میں یہ مقام ہے۔ڈیلی بیس پر ایک ہزار نفل ادا کرتے تھے۔
آپ لاکھوں کی تعداد میں ہندئوئوں کو مسلمان کیا۔آپ کی بہت سی کرامات ہیں۔آپ مردوں کو زندہ کرتے تھے۔آپ نے جو دعا فرمائی وہ اللہ کریم نے اسی وقت قبول کی۔آپ کا ٥٦١ ہجری میں وصال ہوا۔ آخر میں میری دعا ہے اللہ پاک ہر مسلمان کع غوث اعظم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر : ملک نذیر اعوان، خوشاب