تحریر : علامہ صاحبزادہ نعمان قادر مصطفائی
حضور سیدنا غوث الاعظم، شہباز لامکانی، قندیل نورانی، عکسِ آیات ِ قرآنی، محبوب ِ سبحانی شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعا لی عنہ کی سیرت طیبہ، افکار و نظریات اور احوال و علم و حکمت کے حوالے سے دنیا بھر کے مشاہیر ِ اسلام ، سکالرز ، دانشورانِ اُمت مسلمہ اور اہل ِ قلم نے اپنے اپنے انداز اور اپنی اپنی سوچ و فکر کے ذریعے قلم اُٹھایا ہے اور ”سیرت غوث الاعظم ” کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر علم و حکمت اور دانائی و فراست ، فہم و شعور اور تصوف کے موتی اور ہیرے و جواہرات کی صورت میں ”افکار ِ غوث الاعظم ” اُمت مسلمہ کے ماتھے کا جھومر بنا نے کی کوشش کی ہے تا کہ اُمت مسلمہ آپ کے افکار ِ عالیہ کو من کے دریچوں اور سو چوں کے روزنوں میں راسخ کر کے اپنی کھوئی ہوئی منزل کا سُراغ پا سکے ، کسی کامل انسان کے نطق سے نکلے ہوئے الفاظ کسی گمراہ انسان کے لیے راہ ہدایت کا کام سر انجام دیتے ہیں پیغمبر انسانیت ، رسول ِ رحمت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے وہ خوبصورت الفاظ جن کو احادیث کا درجہ حاصل ہے ساڑھے چودہ سو سال گزرنے کے بعد آج بھی جمیع انسانیت کے لیے راہنما کی حیثیت رکھتے ہیں اور جس جس نے بھی اِن احادیث مبارکہ سے راہنمائی لینے کی کوشش کی ہے کامیابی و کامرانی کا تاج اُسی کے سر سجا ہے ، آج بھی اگر ذلت و خواری میں مبتلا اُمت مسلمہ احادیث مبارکہ کو ورد زبان اور حرزِ جاں بنا لے تو تحت الثریٰ سے نکل کر اوج ثریا تک پہنچ سکتی ہے اگر آپ صاحب نہج البلاغہ حضرت علی رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کے خطبات پر مشتمل ”نہج البلاغہ ” کا مطالعہ کریں تو آپ کو ”نہج البلاغہ ”کا ہر باب اور باب کی ہر سطر اور سطر کا ہر لفظ اور لفظوں کا ہر حرف انسانیت کے لیے کامل راہنما ئی دیتا ہوا نظر آتا ہے اور آج بھی اُمت ”نہج البلاغہ ” سے راہنمائی لیتی ہو ئی نظر آتی ہے اسی طرح حضور غوث الاعظم کے خطبات بھی انسانیت کو راہنمائی فراہم کرنے میں اپنا ایک اہم رول ادا کر رہے ہیں آج ہم قارئین کی دلچسپی اور نصیحت کے لیے چند ایک خطبات کے چیدہ چیدہ اقتباس درج کیے دیتے ہیں
ریا کاری کے بارے میں آپ نے فر مایا ”ریا کا ر کا ظاہر تو صاف مگر دل گندہ ہو تا ہے وہ شرعی مباح چیزوں سے بھی زُہد کرتا ہے کسبِ حلال سے اجتناب کرتا ہے ہاں مذہب کو اپنی روٹی کا ذریعہ بنا تا ہے اس کی حقیقت گو عوام کی نظروں سے پو شیدہ ہو تی ہے مگر خاص لوگ اس کو برا بر دیکھتے رہتے ہیں اس کی ساری اطاعت و زُہد بناوٹی ہو تا ہے اس کا با طن خراب ہو تا ہے ، افسوس ناک ہو گا اگر تم نہ سمجھو کہ اللہ تعا لیٰ کی اطاعت دل سے ہوتی ہے نہ کہ جسم سے یہ ساری چیزیں عبادت کی دل سے باطن سے اور معافی سے تعلق رکھتی ہے تُو اس نعمت ظاہری کی کسوتوں سے عریاں ہو جا تا کہ نعمتِ باطنی کی بے بہا خلعت سے سرفراز ہو جائے اس لباس ِمکر کو اُتار دے تاکہ وہ تجھے حقیقت کا لباس زیب تن کرا دے اس لباس ِکاہلی کو اتار دے اس لباس خوشامد و نفاق کو اُتار کر پھینک دے ان شہوتوں، رعونتوں اور عجب و نفاق کی بھڑک دار پو شاک کو اتار کر خاکستر بنا دے تاکہ تیرے لیے حقیقی محبت کا لباسِ فاخرہ حقیقی عظمت کا حُلہء بہشتی اس قادر مطلق کی طرف سے انعام میں مل جائے (بہ مقام مدرسہ معموریہ ، 19شوال المکرم ٥٤٥ھ روز شنبہ بوقت شام ) ایک اور جگہ فر ماتے ہیں
‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا ”مَن حسن الاسلام ترکہ مالا یقبیہ ”اسلام کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ ان چیزوں کو چھوڑنا سکھا تاہے جو بے مقصد و بے معنیٰ ہیں جس شخص نے اپنے اچھے اسلام کا ثبوت دیا وہ مقصدی کام کرتا ہے اور غیر مقصدی کاموں سے دور ہوتا ہے کیو نکہ جن کاموں کا کوئی اصولی مقصد نہ ہو وہ بے کاروں اور بو الہوسوں کے کاروبار ہیں ، وہ شخص رضائے مولا سے محروم ہے جو ایسے کام نہیں کرتا جن کا حکم دیا گیا ہے اور وہ کام کرتا ہے جن کا حکم نہیں ۔۔۔۔۔یہ یقیناََ محرومی ہے بلکہ یہ تو موت ہے اور ایک قسم کی رب کے در سے دوری ہے ، دنیا کے کاموں میں مصروفیت کے لیے نیت صالح شرط ہے ورنہ تباہی ہے پہلے تو تم دل کی صفائی کا کام کرو کیونکہ یہ تو فرض ہے پھر کہیں معرفت کی طرف جا نا ،اگر تم جڑ ہی کھودو تو بھلا ڈا لیوں سے کیا ملے گا ؟دل اگر نجس ، اعضاء طاہر ہوںتو فائدہ ؟اعضاء بھی اس وقت پاک ہوں گے جبکہ تم کتاب و سنت پر عامل ہو گے دل محفوظ ہو تو اعضاء بھی محفوظ رہیں گے ، برتن میں جو ہو تا ہے وہی نکلتا ہے دل میں تمہارے جو ہو گا وہی تمہارے اعضاء سے صادر ہو گا ” حضورغوث الاعظم کے تبلیغی اثرات کے حوالے سے ایک طالب علم کی حیثیت سے اگر تاریخ کے ساتھ ساتھ تصوف کے مو ضوع پر لکھی گئی کتابوں کا مطا لعہ کرتا ہوں تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ جملہ سلاسل کے مشائخ ِ صوفیاء قال اللہ و قال الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہی سبق دے رہے تھے ۔ مگرقبیلہ اولیاء کے سرِ خیل حضور شیخ سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت کا جب مطالعہ کرتے ہیں تو آپ ہمیں ایک نئے اور بالکل منفرد انداز سے شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بالادستی اور تما م معاملات میں رضائے الہیٰ کے حصول میں مصروفِ عمل نظر آتے ہیں ،صوفیاء کی تزکیہ نفس او ر صفائے باطن کی تحریک بلا شبہ یہاں تک پہنچتے پہنچتے اس کے طورطریق اور انداز میں خاصی تبدیلیاں رونما ہو گئی تھیں،
بالخصوص ہندوستان ،عراق اور ایران میں ضرور تاً ،مصلحتاً یا پھر غیر شعوری طور پر یہ تحریک وہاں کے مخصوص سیاسی ،سماجی اور تہذیبی اثرات سے متاثر ہوئی تھی۔اندیشہ تھاکہ اگر یہ تحریک اسی طرح چلتی رہتی تو شایدبالکل ہی پٹڑی سے اتر جاتی ۔حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ انہوں نے حالات، گردوپیش ،مصالح اور ضرورت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انتہائی شدت اور سختی کے ساتھ دوبارہ قرار دینے کا بلند آہنگ نعرہ لگایا ۔یہی وہ بر زخ اور قدر مشترک ہے جس پر ملت اسلامیہ کے تمام طبقوں کو آسانی سے لایا جا سکتا تھا،چنانچہ عملاً یہی ہوا کہ ظاہر بین علماء ،متشددفقہاء اور صوفیاء ومشائخ میں جو خلیج اور دیوار بڑھ چلی تھی۔حضرت جیلانی اسے ختم کرنے میں کامیاب ہو گئے اور اس طرح ملت اسلامیہ پھر سے ایک پلیٹ فارم اور نقطہ ء اتحاد پر جمع ہو گئی۔ آپکی آواز کوہر جماعت اور ہر طبقے نے اپنے دل کی آواز سمجھا۔اگر عجمی ممالک میں دوسرے سلاسل کے بعض بزرگوںنے بڑے فائدے کی خاطر چھوٹے نقصان کو گوارا کرنے کے اصول پر عمل کرتے ہوئے بعض غیر اولیٰ طریقوں کی اجازت دے دی تھی ۔ جو تبلیغ اسلام ایسے مہتمم بالشان مقصد کے مقابلے میں بہت معمولی اور حقیر بات تھی اور اس میں وہ حضرات پوری طرح مخلص اور حق بجانب تھے تو دوسری طرف حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلفاء ان ممالک کے چپے چپے میں پھیل گئے اور انہوں نے جگہ جگہ سلسلہ قادریہ کی خانقاہیں قائم کرکے کتاب وسنت ،اتباع شریعت ،ذکر وفکر اور باطن کے ساتھ ساتھ ظاہر کی پوری آراستگی کا وہ غلبہ بر پا کردیا جس نے دنیا کی توجہ اپنی طرف پھیر لی۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو تصوف کی تحریک اتنی جامع ہے کہ ہر دور میں اس نے اپنی کوتاہیوں اور لغزشوں کی تلافی بھی خود ہی کی ہے اور یہ عمل ساتھ ساتھ جاری رہا ہے۔جناب پروفیسر خلیق احمد نظامی کا بیان ہے ”ارشاد وتلقین کا جوہنگامہ حضرت جیلانینے برپا کیا وہ اسلامی تصوف کی تاریخ میں اپنی مثال نہیں رکھتا۔ شیخ جیلانی کی تعلیم سے افغانستان اور اسکے قرب و جوار میں ایک زبردست دینی انقلاب آیا اور ہزاروں آدمیوں نے ان کے دستِ حق پر ست پر بیعت کی”(تاریخ مشائخ چشت:صفحہ 108)
آج بڑے تجدیدی انداز میںبعض حضرات یہ انکشاف کرتے ہیں کہ ہمارے نزدیک معیار صرف کتاب و سنت ہے اورتصوف کی قسمیں بیان کرنے لگتے ہیںکہ ایک تصوف وہ ہے جو قرآن کا منشاء ہے ،ایک وہ ہے جو خانقاہوں میں رائج ہے ،یہ غلط بحث اور لوگوں کو دھوکا دینے والی بات ہے۔یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے ہم کہیںکہ اسلام کی اقسام ہیں۔ایک اسلام قرآن وحدیث میں ہے دوسر ا مسلمانوں کے عمل میں ،سو بندہ پرور ،نہ اسلام دو ہیں نہ تصوف اسلام سے الگ کوئی تحریک ،تصوف اسلام ہی کے عملی پہلو کا نام ہے۔جس طرح بے عمل مسلمانوں کی وجہ سے اسلام کو مطعون کرنا حماقت ہے۔اسی طرح تصوف کی بگڑی ہوئی اور غلط شکل کو حقیقی اسلامی تصوف جس کا مقصد توحید عبادات میں حسن اور دل کشی پید ا کرتا ہے کو بدنام کرنے کا ذریعہ آخر کیونکر بنایا جاسکتا ہے اگر صوفیاء کی جدوجہد مساعی اور حسن عمل کو ہم اسلام سے نکال دیں تو اسلام کے پا س بچتا کیا ہے؟
یہ درمیان میں جملہ معترضہ آ گیا ہم گذارش کر رہے تھے کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے تبلیغی اثرات پوری دنیا ئے اسلام پر پڑے۔آپ کے تجدیدی کارنامے اور اسلام کو اس کی اصل شکل میں پیش کرنے کی دعوت کو اللہ تعالیٰ نے ایسی قبولیت بخشی کہ دنیائے اسلام میں آپ شیخ الشیوخ اور پیر پیراں کے معزز القاب سے یادکئے گئے۔اپنے فرزند گرامی کو وصیت کرتے ہوئے آپ نے جو کچھ بیان فرما یا ہے۔آپ کے مسلک کو سمجھنے کیلئے ہمارے پاس اس سے بڑی شہادت اور کیا ہو سکتی ہے۔آپ نے فرمایا :” او صیک بتقوی اللہ وطاعتہ ولزوم ظاہر الشرع وسلامة الصدر وسخاء النفس وبشا شة الوجہ و بذل الندی وکف الاذی ،وحمل الاذی والفقر وحفظ حرمات المشائخ و حسن العشرة مع الا خران والنصیحة للاصاغر وترک الخصومة مع الافارق وملازمة الا یثار و مجانبة الا دخان۔” (فتوح الغیب ،مقالہ : صفحہ 75) ”میں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرو اور اس کی فرمانبرداری اختیار کرو ،ظاہر شریعت کی پابندی کرو ،سینہ کوپاک، نفس کو کشادہ اور چہرہ تروتازہ رکھو،جو چیز عطا کرنے کے قابل ہو اسے عطا کرتے رہو،ایذادہی سے بازرہو،تکالیف پر صبر کرو، بزرگوں کی عزت واحترام کا خیال رکھو، برابر والوں کے ساتھ حسن سلوک اور کم عمر والوں کیساتھ خیر خواہی کے جذبے سے پیش آئو،احباب سے جھگڑا نہ کرو ،قربانی وایثار کا جذبہ اپنائو،مال و دولت کی ذخیرہ اندوزی سے بچو” فقر کی حقیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:” حقیقت الفقران لاتفطقر الی من ھو مثلک ” فقر کی حقیقت یہ ہے کہ اپنی ہی جیسی ہستی (یعنی مخلوق میں سے کسی )کا محتاج نہ رہ! ”فتوح الغیب ”اور” الفتح الربانی”کا ایک ایک لفظ کتاب وسنت پر عمل کی دعوت ہے۔ان کتابوں میں تعلق باللہ،رضائے الٰہی اور دنیا کی بے ثباتی کے مضامین کواس خوبصورتی سے لایا گیا ہے جس سے انسان کے دل میں خود بخو د عمل کا جذبہ ابھرتا ہے۔
تحریر : علامہ صاحبزادہ نعمان قادر مصطفائی
چیئرمین اِیوان ِ اتحاد پاکستان
e mail:noorjamia786@gmail.com