تحریر : شاہ بانو میر
نپولین نے کہا تم مجھے اچھی ماں دو میں تمہیں بہترین قوم دیتا ہوں ماں ان پڑھ ہو یا پڑہی لکھی اس کی تربیت کا تعلق تعلیم سے نہیں اس کے اندر موجود ماحول اور شعور کی آگاہی ہے ـ شعور کا مطلب امریکہ جیسے ملک کی عورت کا معیار اور ہو گا دوبئی میں بسنے والی ماں کا اور اور بھارت پاکستان میں رہنے والی دور دراز کے علاقوں کی ماوؤں کا اور مجھے آج جس چیز نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور قلم اٹھانے پر مجبور وہ ہے ایک بھارتی ان پڑھ سادی خاتون جن کی پنجابی ہم سے مختلف ہے واقعہ بظاہر سادہ سی بات ہے لیکن شائد کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات والا معاملہ ہے اگر تو آپ کو سوچنے کی اور غور کرنے کی کچھ عادت ہے تو آپ اس میں موجود غیرت کے گمشدہ اسباق کو تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔
میں قرآن پاک کو پڑہتی ہوں تو اللہ پاک کی دو ٹوک تحریر ہر معاملہ میں دکھائی دیتی ہے جس میں کہیں ابہام نہیں اور یہ قرآن اترا کس کیلیۓ ؟ ہمارے لئے زندہ انسانوں کیلیۓ تا کہ والدین ترجمہ پڑہیں اپنی زندگیاں اس کے تحت گزاریں اور ان کے بعد ان کی نسلیں آسانی سے اس فطرتی ماحول کو اپنا کر اصل کے ساتھ وہ زندگی گزاریں کہ جس میں کامیابی ا ور عروج ہے ـ بھلا ہو ان کا جن کے ذرائع آمدن ہی لوگوں کو سامنے بٹھا کر مخصوص اور محدود بٹوارہ تھا دین کا ـ جس نے جوڑنے کی،بجائے توڑ دیا آج ہندو جو اہل کتاب نہیں لیکن اس کے اندر وہ غیرت وہ حمیت ہے جو میں قرآن پاک میں مومن کیلیۓ پڑہتی ہوں۔
اس کی عورت میں وہ مضبوطی اور سنجیدگی دیکھتی ہوں جس کو قرآن مومن عورت کیلیۓ بیان کرتا ہےـ اس ہندوستان کی عورت کو سادگی کا مرقع دیکھتی ہوں جس کا مذہب ہی ناچ گانا اور جلترنگ ہے مگر یہی عورت غیر مسلم ہوتے ہوئے غیرت کا کیا مقام رکھتی ہے ملاحذہ کیجیۓ کسی نے یہ واقعہ بیان کیا توآ ج تک اس واقعے کی چبھن اپنے دل میں محسوس کرتی ہوں سچا واقعہ ہے اور عید سے ایک ہفتہ قبل کا ہے پہلا سبق ایک ہندو خاتون کام کرنے آتی تھیں ـ ان کو کسی نے کہا کہ اچھی سی کوئی خاتون دیں کام کروانا ہے اس نے یہ نہیں لالچ کیا کہ میں ہی کروں اس نے جواب دیا کہ میں مصروف ہوں آپکو کل ایک خاتون بھجواتی ہوں۔
ہمارے ہاں یہ احساس یہ دھیان جس کا حکم اسلام دیتا ہے اب کہیں نظر نہیں آتا صرف اپنی ترقی اور دوسروں کیلیۓ راستے ہوں بھی تو ان کو نہیں بتاتے ـ دوسرے دن ایک ہندو لڑکی کام کرنے آگئی کام سمجھایا تو اس نے شاپر میں رکھا ہوا کام والا لباس تبدیل کیا اور کام شروع کردیا ـ سنجیدہ ار کام سے کام رکھنے والی ـموبائل پر سوائے اس کے ہسبنڈ کے اور جس خاتون کے پاس بچی کو چھوڑ کر کام پے آتی ہے کسی اور کا فون نہیں آتا ـ فون اشارہ ہے کہ ہماری بہنوں کی طرح سارا دن وہ فون پر ادہر اُدہر کی چغلیاں نہیں کرتی ـ (یہ خوبی ہماری تھی جو آج ان میں دیکھتی ہوں کام سے کام غیر ضروری بات نہیں ) سارا دن وہ گھر میں کام کرتی ہے مگر مجال ہے کہ سوائے ٹھنڈے پانی کے اور کچھ کبھی مانگے کئی بار اس کو کہا کہ بچی چھوتی ہے۔
آپ کی پ کو غذا کی بہت ضرورت ہے گوشت وغیرہ نہ سہی فروٹ لے لیا کرو جواب میں مبہم سی مسکراہٹ اور وہی احتیاط پیپرز نہ ہونے کی وجہ سے اسے کام کرنا پڑتا ہے تا کہ گھریلو اخراجات میں اپنے میاں کا ہاتھ بٹائے ـ 4 ماہ کی بچی کو کسی کے سپرد کر کے وہ آتی ہے ـ کام کو تیز تیز کرتے ہوئے نگاہ گھڑی پر رکھتی ہے مجال ہے ہماری طرح سکول سے بچے لینے جائیں تو گھنٹہ گھنٹہ سڑک پر ہی باتوں میں گزار دیں ـ جیسے ہی کام ختم وہ لباس تبدیل کرتی اور پیسے لے کر یہ جا وہ جا ـ یہ رمضان سے ایک ہفتہ قبل کی بات ہے ـ کہ ان کا باتھ روم مقفل ہوگیا لاک کا اسپرنگ اندر ہی ٹوٹ گیا ـ بہت کوشش کی لیکن دروازہ نہیں کھلا واش روم کا اس کا ڈریس وہاں تھا اب واپس گھر جانا تھا اب کیا کریں۔
پہنا ہوا لباس جا بجا کیمیکلز کی وجہ سے ٹائی اینڈ ڈائی کی صورت پیش کر رہا تھا جھجھکتے ہوئے اس نے کہا کہ باجی مجھے کوئی لباس دے دیجیے نیکسٹ ویک آؤں گی تو ساتھ لے آؤں گی ـ ہماری بہن سادی سی تھی وہ کہتی میں اٹھی اور کئی ہینگر پے لٹکے ہوئے سوٹ اسے دکھائے جو مرضی پہن لو نہیں باجی اُسے جیسے شلوار قمیض دیکھ کر کرنٹ لگا جیسے کوئی اچھوت چیز اس کے سامنے ہو ـ فورا بولی جو خاموش رہتی تھی میں یہ نہیں پہن سکتی آپ مجھے کسی بچی کی جینز دے دیں مگر کیوں؟ آپ شلوار سوٹ ہی تو پہن کر آئی ہو اب واپسی پر پینٹ کیلیۓ اصرار میری سمجھ سے باہر تھا ـ اس کا سادہ سا جواب میری بہنوں اور میرے منہ پر تمانچہ تھا۔
قومی غیرت کا یہ مظاہرہ تو صرف ہمارے لئے تھا ان بے دین لوگوں نے کہاں سے سیکھ لیا ؟ اس نے جواب دیا میں آپکا سوٹ اس لئے نہیں پہن سکتی کیونکہ یہ پاکستانی سٹائل ہے ـ ہماری شلوار قمیض کا انڈین سٹائل ہے ـ دور سے ہی ہم پہچان لیتے ہماری انڈین ہے میں یہ کبھی نہ پہنوں کوئی دیکھے گا جاننے والا تو کیا سوچے گا؟ اس نے پاکستانی شلوار قمیض پہنی ہے؟ یہ لفظ نہیں تھے تازیانے تھے جو حرف حرف میرے دماغ اور دل کو بوجھل کر رہے تھے ـ اسکو اپنی بیٹی کی پینٹ شرٹ دی وہ پہن کر روانہ ہو گئی آج تک میرے لئے کئی سوال چھوڑ گئی اس کے لہجے کی طاقت اس کےناتواں وجود سے ابھرنے والی قومی غیرت اس کا انکار کہ اسکے لوگ کتنا معیوب خیال کریں گے مسلسل کام کرنے اور بچی کو اپنا خونِ جگر پلانے والی خشک ہونٹوں پر بار بار زبان پھیرتی ہے جو عکاسی کرتی ہے کہ اس کو کام کے دوران طاقت کیلیۓ فروٹ روٹی یا کسی بھی غذا کی سچ مچ ضرورت ہے لیکن مذہب کا فرق اور اس کا اپنے مذہب اس قدر جم کر رہنا کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہ کرنا کھٹکتا تھا۔
لیکن آج اس گاؤں کی سادی سی عورت نے کیسا کرارہ جواب دیا مجھے جب جب اسکی بات یاد آتی ہے تو نگاہوں کے سامنے وہ خواتین گھوم جاتی ہیں جن کے لباس اور اندازِ گفتگو میں بھارتی اثر دانستہ نمایاں ہے کہ وہ جدت پسند دکھائی دیں ماتھے پے تِلک بھاری بھرکم ساڑہی مختصر بلاؤز گہرے گلے پیٹ ےتین تین انچ تک دکھائی دیے جاتے ـ بالوں میں پھول موتیے وغیرہ پاؤں میں پازیبیں گلے میں کالے دھاگے سا منگل سوتر ـ ڈراموں کا رحجان اتنا کہ بچے پوچھتے ماما شادی ختم ہو گئی پر پھیرے تو ہوئے ہی نہیں؟ کس کے ہاتھوں پے اپنا لہو تلاش کروں؟ عورت کی یہ سادہ سی مثال بھارتیہ ناری کی ہے ـ جس کا مذہب میرے نزدیک سوائے ناچ گانے کے اور کچھ نہیں ہے ـ ان کا دین کہتا ہے کہ کسی کو مت روکو جیسا چاہے کرنے دو ـ ایسی آزاد خیالی میں وہ اتنی محدود مضبوط سوچ رکھتی ہے دوسری طرف میرا پروردگار میرے پیارے نبیﷺ سوائے بار بار ہمیں اپنے اخلاق سنوارنے کے اور زندگی کو مضبوط محدود کرنے کا بار بار کہتے ہیں۔
یہ عورت جس طرح انکار کر کے گئی سوچ رہی کہ ایک عورت اتنی مضبوط ہے انڈیا کیلیۓ تو مردوں کی غیرت کا کیا حساب ہوگا اور یہ سوچتے ہوئے مجھے عجیب لگ رہا ہے کہ، غیرت حب الوطنی شہادت یہ سب تو ہمارے ذاتی اوصاف تھے آج مجھے امت سے قوم سے چھنتے ہوئے دکھائی دے رہے محض ایک عورت کی وجہ سے؟ سوچئے کیا بلندی کا گراف ہوگا باقی قوم کا جو وہاں مقیم ہے اسی لئے تو وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے کیونکہ ان کا گھر اندر سے مضبوط ہے آئیے عزیز بہنو 14 اگست پر اپنے اس غلامانہ رویے کو قتل کر دیں اور اس عورت کی طرح ہم بھی صرف اپنے پاکستانی ہونے اپنے لباس پر اپنے انداز پر اپنی ثقافت پر اپنے اسلامی بتائے گئے انداز کو اپنا کر نئے پاکستان کی نئی مضبوط نسلوں کیلئےاب بنیاد پاکستانی خواتین رکھیں اپنے اصل کی جانب لوٹ کر۔
تحریر : شاہ بانو میر