پٹنہ: واٹس ایپ گروپ ‘بزم غزل’ کی جانب سے گزشتہ روز نوجوان شاعر جمیل اختر شفیق کے اعزاز میں ایک خوبصورت محفل آراستہ کی گئی ۔ جس میں مہمان شاعر نے اپنے کلام سے ناظرین و سامعین کو محظوظ کیا۔ افتتاحی کلمات ادا کرتے ہوئے بزم غزل کے بانی اور بہار گیت کے خالق نوجوان شاعر ایم آر چشتی نے کہا کہ بزم غزل کی مقبولیت میں جہاں ایک طرف گروپ کے ایڈمنس احمد اشفاق(قطر)، ڈاکٹر منصور خوشتر اور کامران غنی صبا کا خلوص کارفرما ہے وہیں پروفیسر اسرائیل رضا اور گروپ کے تمام اراکین نے قدم قدم پر ہمارا ساتھ دیا ہے۔
ایم آر چشتی نے کہا کہ بزم غزل کی طرف سے اب تک پانچ بین الاقوامی مشاعرہ کا اہتمام کیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ معزز شعراء کے اعزاز میں خصوصی محفل آراستہ کرنے کا سلسلہ بھی پسندکیا جا رہا ہے۔آج کی اس خوبصورت محفل میں احمد اشفاق، ڈاکٹر منصور خوشتر، کامران غنی صبا، پروفیسر اسرائیل رضا، شمیم قاسمی،پروفیسر عبدالحنان سبحانی، احمد عثمانی، مصداق اعظمی، ڈاکٹر زرنگار یاسمین، انعام عازمی، چونچ گیاوی، ڈاکٹر فاطمہ احمد عثمانی، منصور قاسمی، مرغوب اثر فاطمی، نصر بلخی، نوشاد منظر، نور جمشیدپوری، رضا مفتی، حبیب مرشد خان، عارش نظام سمیت کثیر تعداد میں باذوق سامعین و ناظرین موجود تھے۔
بزم غزل کے زیر اہتمام 28 نومبر 2015 کو ایک بین الاقوامی طرحی مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا ہے۔ مصرعہ طرح ہے: دل ہی کافی ہے تری یاد میں جلنے کے لئے(قافیہ: جلنے، ڈرنے، بسنے ، پگھلنے وغیرہ)۔ باہر کے شعراء سے گزارش ہے کہ وہ 27 نومبر تک اپنا کلام منتظمین بزم غزل کو ارسال فرما دیں۔ آج کی محفل میں جمیل اختر شفیق کے پیش کردہ کلام کا منتخب حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے:
عجب حماقت دکھا رہا ہے مکان اونچا بنا رہا ہے
جوان ہو کر اسی کا بیٹا اسی کو گھر سے نکال دے گا
تیری تصویر فائل سے نکلی تو پھر
دیکھتے دیکھتے ہی سحر ہو گئی
زمانے کو بدلنا ہے تو پہلے خود بدل جائو
یہاں الفاظ کا جادو نہیں کردار چلتا ہے
مدتوں میں نے تجھے دل کے نہاں خانوں میں
اپنے احساس کی چادر سے چھپا رکھا تھا
جب سے میں نے دیکھی ہے جھونپڑی غریبوں کی
دل مرا نہیں لگتا پختہ گھر بنانے میں
عمر بھر جن کو مری ذات گوارا نہ ہوئی
میری میت کو وہی کاندھا لگانے نکلے