پٹنہ (پریس ریلیز) واٹس ایپ کے مشہور ادبی گروپ ‘بزم غزل’ کی طرف سے گزشتہ شام ایک شاندار آن لائن بین الاقوامی مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ملک و بیرون ملک کے شعرائے کرام اور ناظرین نے شرکت کی۔ دیر رات تک چلے اس مشاعرہ کی صدارت شہر عظیم آباد کے معروف شاعر نیاز نذر فاطمی نے کی جبکہ نظامت کے فرائض کامران غنی صبا اور انعام عازمی نے مشترکہ طور پر انجام دئیے۔
اپنے صدارتی کلمات میں صدر مشاعرہ نیاز نذر فاطمی نے مشاعرہ کی تہذیبی قدروں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ زبان کے فروغ میں مشاعروں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا کہ ٹکنالوجی کے اس دور میں سوشل سائٹس فیس بک اور واٹس ایپ وغیرہ پر ہونے والے مشاعرے مقبول ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک میں جانتا ہوں واٹس ایپ پر سب سے پہلے مشاعرہ کی شروعات ‘بزم غزل’ کے پلیٹ فارم سے ہی ہوئی۔ دھیرے دھیرے دوسرے گروپ بھی منظر عام پر آئے اور اب تو واٹس ایپ کے کئی چھوٹے بڑے گروپ آن لائن مشاعرے کرا رہے ہیں۔
آج کے مشاعرہ میں جن شعرائے کرام نے شرکت فرمائی ان کے اسمائے گرامی ہیں نیاز نذر فاطمی، مرغوب اثر فاطمی، ڈاکٹر اسرائیل رضا، ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی، احمد اشفاق، خورشید الحسن نیر، نصر بلخی، ڈاکٹر منصور خوشتر، منصور اعظمی، اصغر شمیم، نور جمشید پوری، منصور قاسمی، کامران غنی صبا، ایم آر چشتی، جہانگیر نایاب، چونچ گیاوی، انعام عازمی، سراج عالم، مستحسن عزم، سراج عالم زخمی، جمیل ارشد خان، سرفراز الہدی قیصر، ایم رضا مفتی، بشر رحیمی اور ارکان احمد صادق۔ مشاعرہ میں پیش کیے گئے کلام کا منتخب حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔
نیاز نذر فاطمی
نوکروں بنگلوں کی کتنی ہے ہوس بولو تو
ایک دو تین یا پھر چار بتائو کتنے
ڈاکٹر اسرائیل رضا
کیوں طبیعت ہے آج کل ناساز
دردِ دل تو نہیں ہوا صاحب
ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی
آرزو کے شہر کی تعمیر ممکن ہے مگر
پائوں پھیلانے سے پہلے اپنی چادر دیکھنا
احمد اشفاق
تجھ سے تجدید تعلق کا ارادہ ہے مگر
ایک خدشہ ہے کہیں پہلی سی چاہت نہ ملے
مرغوب اثر فاطمی
اپنے انداز سے سورج تو جیے جاتا ہے
چرخ سرگرداں رہا رنگ بدلنے کے لیے
نصر بلخی
ہر ایک قافلہ لٹتا ہے صبح و شام یہاں
بہت ہی خوب جو کہتے ہو رہزنی کم ہے
ایم آر چشتی
کسی کی زلفوں کی قید سے جب مری وفا نے رہائی پائی
تو یوں لگا کہ حصارِ جاں سے کوئی دھواں سا نکل رہا تھا
کامران غنی صبا
ترکِ تعلقات میں کیسا مقام ہے صبا
میں ترے انتظار میں تو مرے انتظار میں
خورشید الحسن نیر
جس شجر کے تو رگ و ریشے میں ہے
اس کی جڑ میں مت لسانی زہر گھول
ڈاکٹر منصور خوشتر
اپنی تسکیں کے لیے لکھو غزل
بزم میں لیکن سنانا چھوڑ دو
جہانگیر نایاب
ہے زمیں الجھی ہوئی اور آسماں الجھا ہوا
خواہشوں کی قید میں ہے یہ جہاں الجھا ہوا
منصور قاسمی
کوئی تعمیر کی امید جگائیں یارو
چشمِ امید کو پھر خواب دکھائیں یارو
نور جمشید پوری
دلوں میں آگ لگاتی ہیں نفرتیں ہی نہیں
کبھی یہ پیار بھی بن کر وبال آتا ہے
اصغر شمیم
وہ ہے دنیا میں کامراں اصغر
جو نہ رکھے فتور نیت پر
انعام عازمی
اسے ڈھونڈیے وہ کہاں گیا جو امین تھا
مرے شہر میں کوئی حادثہ نہیں ہو رہا
چونچ گیاوی
تیرے گھر خود ہی مصیبت آئے گی
تیری بیوی گھر اگر آ جائے گی
کلیم اللہ کلیم
ساحل سے جو ہلچل کے آثار نظر آئے
کشتی تو نہیں دیکھی منجدھار نظر آئے
سرفراز الہدی
رسم الفت سکھا گیا کوئی
ایک شمع جلا گیا کوئی
مستحسن عزم
دیکھ کر حادثہ منھ پھیر کے جانے والو
دیکھ تو لو کوئی اپنا بھی تو ہو سکتا ہے
ایم رضا مفتی
کوئی مدت سے ہے پلکیں پچھائے
رضا اب لوٹ چلنا چاہیے تھا
منصور اعظمی
بنا اس کے حکم کے کہہ سکوں کوئی شعر میری مجال کیا
یہ اسی کا فضلِ عظیم ہے مرا اس میں کوئی کمال کیا
بشر رحیمی
ذرا تو دیکھے کوئی اس کی سادہ لوحی کو
اخیر وقت میں شہرت تلاش کرتا ہے
جمیل ارشد خان
یہ کیسے مسیحا سے پڑا ہے مرا پالا
بڑھتا ہے مرض میرا جو دیتا ہے دوا اور
سراج عالم زخمی
ذرا سا جھک کے ملے ہم تو اے مرے ہمدم
زمانے بھر کی طرح بن گیا خدا تو بھی
ارکان احمد صادق
ہو کوئی آرزو تم مجھ سے صاف صاف کہو
نجوم توڑ کے لائوں گا میرا وعدہ ہے