تحریر : سائرس خلیل
ریاست کشمیر چھ ہزار سال پر محیط تاریخ رکھتی ہے۔اس کو ریاستوں کی تاریخ میں اھم حیثیت حاصل ہے۔ریاست کی تاریخ دنیا کا قدیم کلینڈر ہونے کی دعوۓ دار ہے۔اگر ایک صدی قبل ہی ریاست جموں کشمیر کا مطالعہ کیا جاۓ تو ھمیں معلوم پڑتا ہے کہ یہ جنت نظیر ریاست 84471مربع میل پر پھیلی ھوئی تھی اور اس میں 29841مرنع میل گلگت بلتستان کا علاقہ بھی شامل تھا۔ مہا راجہ کے دور میں گلگت بلتستان کا علاقہ ایک صوبہ کی حیثیت سے ریاست کا حصہ تھا۔آج کل کچھ گلگت بلتستان کے لوگ اس کی خود مختاری کی بات کرتے ہیں اور گورنمنٹ آف پاکستان اِس سر زمیں کو خود میں ضم کرنا کرنا چاہتی ہے۔پر شاید چند لوگ یہ بات بھول ریے ہیں کہ گلگت بلتستان قانونی ، جغرافیائی ، تاریخی ، ثقافتی و تمدنی لحاظ سے ریاست جموں کشمیر کا ہی حصہ ہے۔ گلگت بلتستان کا آخری گورنر گھنسار سنگھ بھی مہاراجہ نے ھی مقرر کیا تھا۔اس میں نصابی کتب اور تاریخ، ریاست جموں کشمیر کے نام سے ہی پڑہائی جاتی تھی۔
مہاراجہ کا 26مارچ 1935 کا معاہدہ برطانیہ ، گلگت بلتستان کا ریاست جموں کشمیر کا حصہ ھونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ 1939کو ریاست جموں کشمیر میں آئین نافذ کیا گیا جس میں گلگت بلتستان بھی شامل تھا اور اس آئین میں ریاست کی جغرافیائی تفصیل دی گئی تھی ان کے مطابق بھی گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیرکا حصہ تھا ۔ پھر آگئے دیکھتے ہیں کہ 4 اکتوبر 1947کو کشمیری گورنمنٹ کا گلگت بلتستان حصہ تھا اور 24 اکتوبر1947 تاریخ ریاست جموں کشمیر کا بدترین دن جس دن پاکستان نے غیر آئینی طور پر جنت نظیر ریاست میں ایک گورنمنٹ قائم کی اس حکومت کے تحت بھی گلگت بلتستان ریاست کا ھی حصہ تھا۔6جنوری1948کو سلامتی کونسل میں گلگت بلتستان کی نمائندگی آزاد کشمیر کی طرف سے ہی کی گئی۔
21اپریل1948 UN کے کمیشن کے بعد کمیشن کو پاکستان کی طرف سے گلگت بلتستان نہیں جانے دیا گیا۔ کبھی موسمی خرابی کی وجہ بتائی گئی تو کبھی راستوں کی بندش کے بہانے بنائے گئے۔1948کے کمیشن کے تحت گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیر کا ہی حصہ تھا جس کے ڈر کی وجہ سے کمیشن کو گلگت بلتستان نہیں جانے دیا گیا۔ پھر28 اپریل 1949 معاہدہ کراچی کے تحت اس خوبصورت علاقہ کو پاکستان کو دینے کا معاہدہ کیا گیا۔ پر اس معاہدے پر دستخط صدرریاست آزاد کشمیر نے نہیں کیے جس کی وضاحت صدرِ ریاست سردار ابراھیم خان متعدد بار کی کہ “میں نے معاھدہ کراچی پر دستخط نہیں کئے قرارداد کے کاغزات پر انگوٹھا لگایا گیا ھے جبکہ میں دستخط کرتا ھوں انگوٹھا نہیں لگاتا” جس کے بے شمار گواہ بھی موجود ہیں۔ سو اگر یہ معاہدہ مان بھی لیا جائے تو پاکستان گورنمنٹ کو یاد دہانی کرواتا چلوں کہ گلگت بلتستان کا انتظامیہ اختیار وقتی طور پر اس معاہدے میں پاکستان کے حوالے کیا گیا ہے، اس لیے پاکستانی حکومت کو اس پر زیادہ نہیں سوچنا چاہیے۔
ضیاءالحق نے جب امرانہ طور پر گلگت بلتستان کی تاریخی حیثیت کو کچلانا چاہا تو 1970 میں شیخ عبدااللہ نے پمفلٹ شائع کیا جس میں ضیاءالحق کے اس عمل کے خلاف لکھا گیا اور گلگت بلتستان کے متعلق مختلف حوالے دے اس کو ریاست جموں کشمیر کا حصہ ثابت کیا گیا۔پاکستان کی عدالت لاہور ہائی کورٹ میں 17افراد نے 1981میں پاکستانی فرسٹ سٹی زن ھونے کی رٹ دائر کی جس کو 1987 میں خارج کیا گیا کیونکہ ججز کا بنیادی نقطہ نظر یہی تھا کہ گلگت بلتستان کسی بھی لحاظ سے پاکستان کا حصہ نہیں ہے، اس لئیے پاکستان کے قوانین ان پر لاگو نہیں کیے جا سکتے۔1987میں متفقہ طور پر گلگت سنیٹرل بار نے ایک قرار داد منظور کی جس میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو ایک ہی انتظامیہ کے تحت لانے کی قرارداد منظور کی گئی۔ آزاد جموں کشمیر کی عدالت نے 174 صفحات پر مشتمل ایک فیصلہ 8مارچ1992 کو دیا جس کے تحت گلگت بلتستان قانونی ، جغرافیائی ، تاریخی ، لحاظ سے ریاست جموں کشمیر کا ہی حصہ ہے۔ 21اپریل1948 UNکی قرار داد کے تحت جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کو متناظہ قرار دیا گیا ہے۔
جب تاریخ ، قانون، جغرافیائی حالات گلگت بلتستان کو ریاست جموں کشمیر کا حصہ ھی ثابت کرتے ییں تو پاکستان کس قانون کے تحت گلگت بلتستان صوبے کا درجہ دینے کی ناکام کوشش کر رہا ہے؟؟ کس بات کا جواز بنا کر اس کے اثاثوں کا بے دریغ استعمال کر رہا ھے؟ کس قانون کے تحت گلگت بلتستان جموں کشمیر سے الگ ھے؟ مندرجہ بالا حقائق کو دیکھنے کے بعد ہم یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ گلگت بلتستان جموں کشمیر کا ہی حصہ ہے۔ اگر پاکستان گلگت بلتستان کو صوبہ بنا دیتا ہے جو کہ ممکن نہیں تو ہندوستان کی حکومت کو یہ سیاسی اور اخلاقی حق حاصل ہوجائے گا کہ وہ کشمیر کو ہندوستان میں ضم کرلے۔اس طرح پاکستان اپنے اس ایک قدم سے کشمیر میں رِٹ قائم کرنے کے لیے ہندوستان کی بالواسطہ مدد کرے گا۔ جسکی وجہ سے کشمیر کاز کو بہت زیادہ نقصان ہو گا اور اس کے نتائج بہت تلخ اور عبرتناک ہوں گے۔
اگر پاکستان کو گلگت بلتستان کے بھائیوں کے ساتھ سچ میں دلی ہمدردی ہے تو دس سال کے لیئے آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، جموں کشمیر کو یکجا کر کے کسی بھی ایک عالمی غیر جانبدار ادارے کے سپرد کرئے جو عوامِ جموں کشمیر کو خقِ خود ارادیت کا حق دینے کا پابند ہو۔ اور پھر عوام کی مرضی پر مسئلے کو چھوڑ دیا جائے۔ اس طرح مسئلہ کشمیر بھی اپنے حل تک پہنچ جائے گا اور مسائل ابھی احسن طریقے سے اپنے اختتام کو پہنچ پائیں گئے۔
تحریر : سائرس خلیل