تحریر : فہیم اختر
محمد اظہار الحق پاکستان کے مشہور کالم نگار اور اردو شاعر ہیں 14 فروری 1948اٹک کے علاقے میں ان کی پیدائش ہوئی محمد اظہار الحق کو 2008میں ان کے ادبی خدمات کی بناپر پرائڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا ان کی مشہور تصانیف میں’دیوار آب’ اور’پانی میں بچھا تخت ‘و دیگر شامل ہیں اپنے کالم تلخ نوائیاں میں انہوںنے ٹیکس اور اس کے استعمالات کے حوالے سے ایک چھوٹا ساواقعہ زکر کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ لندن سے قریب اڑھائی گھنٹہ مسافت پر گلوسسٹر نام کا چھوٹا سا قصبہ ہیں جہاں سے انہوںنے ایک کوٹ خرید اتھا کوٹ کی قیمت ادا کرنے کے بعد کائونٹر پر بیٹھے شخص نے ایک رسید نما کاغذدیاجس پر انہوںنے حیرت کااظہار کرتے ہوئے انہوںنے پوچھا کہ یہ رسید نما کاغذ کس لئے ؟جواب دیا کہ تم یہاں نہیں رہتے ہو برطانیہ سے رخصت ہوتے وقت ہوائی اڈے پر ٹیکس والوں کا کائونٹر ہے اس کوٹ کی قیمت میں جتنا ٹیکس شامل ہے وہ جاتے ہوئے واپس لیتے جانا۔
پھر حیرت سے پوچھا کہ وہ کیوںٹیکس دے دیا تو دے دیااس نے جواب دیا کہ ‘اس لئے کہ اس ٹیکس سے حکومت شہریوں کو سہولیات فراہم کرتی ہے تم یہاں کے رہنے والے نہیں اور تم ان سہولیات سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے ہو اس لئے تم سے ٹیکس لینا ازروئے انصاف درست نہیں ہے ایسے خریداروں کو روانگی کے وقت ٹیکس واپس کردیا جاتا ہے ۔اظہار الحق لکھتے ہیں کہ ہوائی اڈے پر ٹیکس کے محکمے کا کائونٹر موجود تھا رسید دکھائی انہوںنے دو منٹ کے حساب کتاب کے بعد ٹیکس واپس کردیا یہ ٹیکس عائد کرنے کی دوسری شرط ہے کہ کسی بھی علاقے میں ٹیکس عائد کرنے سے قبل وہاں کے ‘شہریوں’کو سہولیات فراہم کی جائیں شہری سہولیات سے ہسپتالوں میں سہولیات،سرکاری سکولوں میں سہولیات، سرکاری نوکریاں ، بجلی ،پانی ،سڑکیں ، کاروبار ، اور دیگر معاملات میں بہتری اور آسانی مراد ہے ضلع گلگت اور شہر گلگت صوبہ گلگت بلتستان کا ہیڈکوارٹر ہے یہاں پر میسر سہولیات کسی بھی دوسرے ضلع اور شہر سے بہتر اور زیادہ ہیں اس کے باوجود دیکھا جائے تو سرکاری ہسپتالوں کی صورتحال سوائے اپنے کلینک کو ریفر کرنے سے زیادہ کچھ نہیں ہسپتالوں میں ادویات ناپید ہیں۔
ڈاکٹروں کا رویہ زہرآلود ہے، ماہانہ بنیادوں پر ہسپتالوں سے مریضوں کی موت کی خبریں ملتی ہیںاور بہتر علاج کے لئے ہر ڈاکٹر نے اپنا نجی کلینک رکھا ہوا ہے جہاں وہ مریضوں کو ‘ریفر ‘کرتے ہیں حال ہی میں ایک سروے رپورٹ کے مطابق یہ بات سامنے آئی ہے کہ 35فیصد لوگ سرکاری ہسپتالوں تک پہنچ نہیں پاتے ہیں ،ہسپتال میں مریضوں کے لئے سہولیات نہیں جبکہ صوبائی حکومت نے مریض کے ساتھ تبچر(مریض کی خدمت کے لئے منسلک بندہ) کے لئے خصوصی سہولیات کا اعلان بھی عملی جامہ تک نہیں پہنچ سکا ہے گویا سرکاری ہسپتالوں کوخود مسیحا کی ضرورت ہے ۔سرکاری سکولوں کا حال بے حال ہے ابھی تک کسی بھی بورڈ کے زیر اہتمام امتحانات میں سرکاری سکولوں نے نمایاں کارکردگی نہیں دکھائی سرکاری ہسپتالوں کے اساتذہ کے اپنے بچے خود پر اعتماد نہیں کرپاتے اور نجی تعلیمی اداروں میں داخلے کراتے ہیں سرکاری سکولوں میں جدید لیبارٹریز اور جدید آلات کا فقدان ہے۔
سرکاری سکولوں و کالجوں کاانفراسٹرکچر بوسیدہ ہے غریب و نادار طلبہ بھی آج کل نجی تعلیمی اداروں میں کوٹے کی بنیاد پر داخلے لے رہے ہیں ماضی کے مقابلے میں آج سرکاری سکولوں کا نظام بہت کمزور پڑ گیا ہے اس جدید دور میں بھی گلگت بلتستان کے طلبہ اعلیٰ تعلیم کے لئے ملک کے دیگر صوبوں کا رخ کرتے ہیں جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں انجینئرنگ کالج ،میڈیکل کالج کا قیام ایک خواب بن کررہ گیا ہے ۔سرکارمیں ملازمت بھی غریب کے ہاتھوں سے نکل چکی ہے اور تعلیم یافتہ طبقہ جس انداز میں ڈگریاں تھامے دربدر کی ٹھوکریں کھارہا ہے اس سے سرکاری ملازمت کا انداز ہ ہوتا ہے ابھی مسلم لیگ ن کی صوبائی حکومت کے 6ماہ کے دوران چند ایک اداروں میں خالی آسامیوں کو مشتہر کیا گیا گریڈ7کی آسامیوں کے لئے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ درخواستیں دیتے نظر آئیں حال ہی میں چیف کورٹ میں صرف درجن کے قریب آسامیوں کے لئے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی درخواستوں کی تعداد 3ہزار تھی اور یہی حال دیگر اداروں میں بھی ہے ۔یہ وہ سہولیات ہیں جن کی بنیاد پر ریاست اپنے ‘شہریوں ‘سے ٹیکس وصول کرتی ہیں ۔ستم ظریفی کہ پورے ملک سے زیادہ توانائی کی ‘طاقت ‘رکھنے والا یہ خطہ قریباً20گھنٹے کی لوڈشیڈنگ جھیل رہا ہے۔
کاروبار زندگی اس وقت تباہ ہوچکا ہے بڑے کاروباری اپنے کاروبار کے لئے روزانہ ہزاروں روپے دیکر اپنے لئے جنریٹر کا بندوبست کررہے ہیں لیکن چھوٹے کاروباری حضرات جن کے کاروبار کا دارومدار بجلی پرہوتا ہے وہ اپنی دوکان کو محدود وقت کے لئے کھولے رکھتے ہیں جس دوران بجلی کی نعمت نصیب ہوتی ہے گھروں میں بجلی اپنے شیڈول کے مطابق بھی نہیں دی جاتی طلبہ کے حصول علم کی راہ میں بجلی رکاوٹ ہے ۔یہی حال سڑکوں کابھی ہے یہی حا ل پانی کا بھی ہے سڑکیں شیرشاہ سوری کے دور کی یاد تازہ کرارہی ہیں اگر غلطی سے وزیراعظم کادورہ ہونا ہوا تو یہ کھنڈرات چند دنوں کے لئے پھر سڑک کی شکل اختیار کرتے ہیں پھر دوبارہ کھنڈر کی طرف منتقل ہوتے ہیں گلگت کا کاروباری علاقہ جوٹیال پانی کی قلت کی وجہ سے ‘تھر ‘بن چکا ہے یہاں بھی امیر اور غریب کی تفریق ہے صاحب حیثیت افراد پانی 15سو روپے فی ٹینکر کے حساب سے خرید کر پیتے ہیں جبکہ غریب کو ‘اتنا بھی میسر نہیں جتنا پی کر چھوڑتے ہیں’۔
اب زرا انکم ٹیکس کے نفاز پر ایک نظر دوڑاتے ہیں انکم ٹیکس کا نفاز 2012میں گلگت بلتستان کونسل کے زریعے کیا گیا جس کے مطابق ان تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس عائد ہوگا جس کی آمدن سرکاری تنخواہ کے مطابق 50ہزار سے زیاد ہ تھی جن میں چیف سیکریٹری سے لیکر تمام بیوروکریٹس بھی شامل تھیں لیکن اب جو ٹیکس کا معاملہ دوبار ہ اٹھایا گیا ہے اس میں تنخواہ دار طبقے کے علاوہ دیگر آمدن والوں پر بھی ٹیکس عائد ہوگی اب جو معاملہ اٹھا ہے اس میں تنخواہ داروں کے علاوہ دیگر پر بھی ٹیکس عائد ہوگا سرسری نگاہ سے اس میں غریب اور کم تنخواہ والے حضرات شامل نہیں تاہم وہ حضرات جن کی آمدن 50ہزار سے زائد ہو وہ اس میں گرفتار ہیں ان میں سب سے پہلے کنٹریکٹر ز حضرات ہیں لیکن ان پر جتنا ٹیکس لگے گا وہ اتنا اپنا ٹینڈر ریٹ میں اضافہ کرکے برابر کرینگے تاجر حضرات پر عائد ٹیکس بھی یوں ہی ‘برابر ‘ہوگا وہ اشیاء خوردنوش کی قیمتوں میں اضافہ کرینگے بہر حال یہ بالواسطہ ٹیکس غریب عوام پر ہی نافذ ہوگا۔
ٹیکس عائد کرنے کی پہلی شرط ‘شہریت ‘ہے جس کی ‘تعریف’قومی اسمبلی کرتی ہے گلگت بلتستان مسئلہ کشمیر کے ساتھ منسلک ہونے کی وجہ سے قومی اسمبلی کی ‘حرکت ‘سے باہر ہے اگر قومی اسمبلی میں نمائندگی نہ ہو تو ٹیکس کا نفاذ نہیں ہوسکتا ہے مملکت پاکستان کے آئین نے اپنے آرٹیکل 1میں ہی اس بات کی تشریح کی ہے کہ مملکت پاکستان کا جغرافیہ کیا ہوگا جس کے مطابق پاکستان ایک وفاقی ملک ہوگا اور اس کے چار اکائیاں ہونگی جوکہ بلوچستان ،خیبرپختونخواہ ،پنجاب اور سندھ ہیں جبکہ اسلام آباد وفاقی دارالخلافہ ہوگا اس کے علاوہ وفاق کے زیر انتظام علاقے فاٹا اس میں شمار ہونگے۔
اب ان آئینی علاقوں میں ٹیکس کی صورتحال کچھ یوں ہے کہ انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ کمیٹی جو ایک عالمی ادارہ ہے کے مطابق پاکستان میں صرف 0.57فیصد لوگ ٹیکس دے رہے ہیں ۔مجھے اس بات پر حیرت رہی ہے کہ وفاقی حکومت کو گلگت بلتستان میں کون سی چیز نظر آئی جس کی بنیاد پر ٹیکس کا نفاز کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں حالیہ ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق گلگت بلتستان میں غربت کی شرح ملک کے دیگر صوبوں سے زیادہ ہے۔
جبکہ اسی ‘غربت ‘ کے پیش نظر مالاکنڈ ،سوات و دیر جیسے علاقے جن کی قومی اسمبلی میں نمائندگی بھی موجود ہے کو ٹیکس سے استشنیٰ دی گئی ہے ۔یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے انکم ٹیکس کو 7فیصد سے کم کرکے 3فیصد بحال کرانے کے بعد ود ہولڈنگ ٹیکس کو رکوانے کے لئے بھی وفاق کو خط لکھ دیا ہے۔
تحریر : فہیم اختر