افغانستان میں جب کسی گھرانے میں لڑکا پیدا نہیں ہوتا اور ایک کے بعد ایک لڑکی جنم لیتی جاتی ہے تو کسی ایک لڑکی کو بچہ پوش بنانے کا فیصلہ کرلیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ لڑکی اب اپنی بلوغت تک لڑکوں جیسی زندگی گزارے گی۔
مذکورہ لڑکی کے بال لڑکوں کی طرح کاٹ دیے جاتے ہیں جبکہ وہ مستقلاً لڑکوں جیسا لباس زیب تن کر کے رکھتی ہے۔
بچہ پوش لڑکیوں کے فرائص بعین وہی ہوتے ہیں جو افغانستان جیسے قدامت پسند معاشرے میں لڑکوں اور مردوں کے ہوتے ہیں۔ اپنی گھر کی عورتوں کی حفاظت کرنا، انہیں اپنے ساتھ باہر ڈاکٹر کے پاس یا دیگر ضروری کاموں کے لیے لے کر جانا، گھر سے باہر کے کام نمٹنانا اور کمانے میں اپنے باپ کا ہاتھ بٹانا۔
چونکہ افغانستان میں خواتین کا مردوں کے بغیر باہر نکلنا نہایت معیوب سمجھا جاتا ہے لہٰذا ہر گھر کے لیے ایک مرد کا وجود بے حد ضروری ہے۔ مردوں کی عدم موجودگی میں کسی لڑکی کو ہی مرد ’بنا کر‘ زندگی گزاری جاسکتی ہے اور یہی روایت بچہ پوش کہلاتی ہے۔
بچہ پوش بننے والی لڑکیاں ساری عمر ایسے زندگی نہیں گزارتیں۔ ان میں سے کچھ بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے بعد واپس اپنی اصل حالت میں لوٹ آتی ہیں جس کے بعد ان کی شادی کردی جاتی ہے۔
تاہم ستارہ کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ ستارہ کی 5 بہنیں ہیں اور وہ نہیں چاہتی کہ اس کے بعد اس کی کوئی اور بہن ایسی پرمشقت زندگی گزارنے پر مجبور ہو جیسی وہ گزار رہی ہے۔ ستارہ کے والد قرض میں جکڑے ہوئے ہیں جن کی ادائیگی کے لیے دونوں باپ بیٹی پورا ہفتہ کام میں جتے رہتے ہیں۔ اپنی عمر کی دیگر لڑکیوں کو دیکھ کر ستارہ کو اپنی زندگی کے اس خلا کا شدت سے احساس ہوتا ہے جو مستقلاً اس کی زندگی پر حاوی ہے۔ وہ کہتی ہے، ’میں اپنے کپڑوں کو دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ میں یہ کیسی زندگی گزار رہی ہوں‘؟ ستارہ کا دل چاہتا ہے کہ وہ بھی دیگر لڑکیوں جیسے کپڑے پہنے، ان کی طرح زندگی گزارے، گھر میں رہے، اور شادی کرے۔ لیکن فی الحال یہ سب ناممکن نظر آتا ہے۔ وہ کہتی ہے، ’میرے والد بہت بوڑھے ہیں۔ اگر میں نے یہ لڑکوں کا روپ اختیار کرنا چھوڑ دیا تو بھٹے پر ان کی مدد کون کرے گا۔ اور سب سے بڑی بات کہ ہمارے پورے خاندان کی زندگی کیسے گزرے گی‘۔ افغانستان میں صرف ایک ستارہ ہی نہیں جو ایسی زندگی گزارنے پر مجبور ہے، اس معاشرے میں بے شمار لڑکیاں ہیں جو اپنے خاندان کے لیے اپنی خواہش کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔