لاہور کے ایک سرکاری سکول میں لڑکیوں کے لیے مخصوص واش روم بنایا گیا ہے جس کا مقصد حفظان صحت کے اصولوں سے متعلق آگاہی دینا ہے سارہ کو دو برس پہلے دوران جماعت ہی ماہواری آئی تھی۔ ان کے کپڑے خراب ہوگئے اور اچانک خون دیکھنے سے وہ خود شدید پریشان اور خوفزدہ ہوگئیں جبکہ جماعت کی دوسری لڑکیوں نے ہنسنا شروع کردیا۔
سارہ اس وقت 11 برس کی تھیں لیکن ان کی والدہ نے انھیں ماہواری کے متعلق کچھ نہیں بتایا تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ استانی نے انھیں ماہواری کے بارے میں تفصیل سے بتایا اور استعمال کے لیے ایک پینٹی اور پیڈ بھی دیا۔بعد ازاں ہر مہینے ماہواری کے دوران سارہ کو کچھ مسائل کا سامنا رہا۔ ان کے سکول کا پرانا بیت الخلا لڑکے اور لڑکیوں دونوں کے لیے تھا۔ جس کی وجہ سے سارہ کو پیڈ بدلنے میں مشکل ہوتی اور وہ شرم محسوس کرتیں۔وہ کئی کئی گھنٹے پیڈ نہ بدل پاتیں جس کی وجہ سے ان کے کپڑے بھی خراب ہو جاتے تھے۔ انھیں گھر پر فون کرنا پڑتا تھا، جس کی وجہ سے جماعت کی دوسری بچیاں ان کا مذاق بھی اڑاتی تھیں۔سارہ سمیت سکول کی تمام بالغ بچیوں کو اپنے پیڈ بدلنے، کپڑوں پر نشانات کی جانچ کرنے اور استعمال شدہ پیڈ کو ٹھکانے لگانے میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔گرل فرینڈلی واش روم نے بچیوں کو خود اعتمادی بھی دی ہے اور ان کی جھجھک بھی دور کی ہےاب ایک غیر سرکاری ادارے ’آگاہی’ نے محکمہ تعلیم اور بین الاقوامی تنظیم واٹر ایڈ کی مدد سے سارہ کے سکول میں لڑکیوں کے لیے مخصوص واش روم بنایا ہے۔ اس واش روم کو گرل فرینڈلی ٹوائلٹ کہا جاتا ہے۔گلابی رنگ و روغن سے سجائے گئے اس بیت الخلا میں موجود سہولیات بھی لڑکیوں کی ضرورت کے عین مطابق ہیں۔ واش روم کی تعمیر میں معذور لڑکیوں کی ضروریات کا بھی اہم خیال رکھا گیا اور ان کے لیے کموڈ اور اس کے ساتھ پکڑنے کے لیے سہارا بھی بنایا گیا ہے۔واش روم کی دیوار کے ساتھ ایک طرف لکڑی کی چھوٹی سی الماری رکھی گئی ہے جس میں لڑکیاں اپنا پیڈ یا صاف کپڑا اور زیر جامہ رکھتی ہیں۔ ایک طرف استعمال شدہ کپڑا پھینکنے کے لیے ایک خانہ بنایا گیا ہے جس کا لوہے کا چھوٹا سا دروازہ ہے۔ لڑکیاں اپنا استعمال شدہ کپڑا اس خانے سے نیچے پھینکتی ہیں جو بیرونی طرف بنی بھٹی میں گرتا ہے اور جسے سکول کے اوقات کے بعد عملہ جلا دیتا ہے۔آگاہی‘ کی روح رواں ثنا خواجہ بتاتی ہیں کہ ان کا ادارہ طالبات کو ماہواری کے دوران حفظان صحت کے اصولوں کے حوالے سے آگاہ بھی کرتا ہے۔حیض کے دنوں میں لڑکی کو کن احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کرنا چاہیے، اس حوالے سے ٹرینرز بچیوں کو نہ صرف مختلف تربیتی لیکچرز دیتے ہیں بلکہ ان کے ساتھ نفسیاتی سیشن بھی کیے جاتے ہیں۔ جس میں بچیوں کے ذاتی تجربات کو جانا جاتا ہے، ان کے مسائل سنے جاتے ہیں اور انھیں اعتماد میں لیا جاتا ہے۔‘پی ٹی آئی کی رکن صوبائی اسمبلی عائشہ اقبال اپنے گھر پر پیڈز بنواتی ہیں اور مستحق گھرانوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں میں تقسیم کرتی ہی آگاہی کے کے زیر نگرانی بنائے جانے والے واش روم نے بچیوں کو خود اعتمادی بھی دی ہے اور ان کی جھجھک بھی دور کی ہے۔
ایک بچی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پہلے ہم لوگ اسے ایک بڑا مسئلہ سمجھتے تھے ۔ ہمیں بالکل اعتماد نہیں تھا، شرمندگی محسوس کرتے تھے، بے آرامی محسوس کرتے تھے اور ہماری پڑھائی کا بھی حرج ہوتا تھا۔ پھر جب ہمارا سیشن ہوا تو ہم میں اس کے حوالے سے اعتماد آیا۔ ہم نے شرمندگی محسوس کرنا چھوڑ دی اور اب ہم باآسانی بات کر سکتے ہیں۔‘محکمہ تعلیم نے بھی ’آگاہی‘ اور واٹر ایڈ کی طرف سے بنائے جانے والے ان گرل فرینڈلی واش رومز کو اپنی ’واش ان اسکول‘ مہم کا حصہ بھی بنا دیا ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں میں اسی طرز پر تمام سرکاری سکولوں میں بھی ایسے ٹوائلٹس بنائے جائیں گے۔ثنا بتاتی ہیں کہ ہمارے معاشرے میں ماہواری کے موضوع کو خفیہ رکھا جاتا ہے اور اس پر بات کرنا بےحیائی تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ خواتین اور اساتذہ کے ساتھ بھی اس موضوع پر گفتگو کرنے کو پسند نہیں کیا جاتا، جس کی وجہ سے بچیاں پریشان ہوتی ہیں اور نامکمل معلومات کی وجہ سے نقصان اٹھاتی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ چھوٹی عمر کی بچیوں میں ماہواری ایک نیا تجربہ ہوتا ہے۔ جسمانی یا نفسیاتی طور پر انھیں مشکل بھی محسوس ہوتی ہے۔ گھروں اور سکولوں میں کھل کر بات نہ کرنے کی وجہ سے لڑکیوں کی اس موضوع پر معلومات نامکمل اور ناقص ہوتی ہیں اور وہ حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق اپنا خیال نہیں رکھ پاتیں۔ثنا خواجہ کا کہنا ہے کہ بچیاں ماہواری کے بارے میں نامکمل معلومات کی وجہ سے نقصان اٹھاتی ہیں آگاہی کا مقصد ان بچیوں کی ماہواری سے جڑی نفسیاتی الجھنوں کا حل کر کے انھیں مکمل صحت اور تندرستی کی منزل پر گامزن کرنا ہے۔‘ عائشہ اقبال پاکستان تحریک انصاف کی رکن صوبائی اسمبلی ہیں۔ وہ عرصہ دراز سے آگاہی کے ساتھ مل کر طالبات کی تربیت کر رہی ہیں۔ وہ اپنے گھر پر پیڈز بنواتی ہیں اور انھیں غریب اور مستحق گھرانوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں میں مفت تقسیم کرتی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ’جن پیسوں سے بچی پیڈ لے گی۔ انھی پیسوں سے وہ دودھ پی لے گی تو اس کی صحت بہت بہتر ہو گی۔‘عائشہ سکول کی بچیوں کو حفظان صحت کے اصول بتانے کے دوران پیڈز کے استعمال اور استعمال کے بعد انھیں دھو کر دھوپ میں خشک کرنے کے طریقے بھی بتاتی ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ پہلے لوگ ماہواری میں کپڑے کا استعمال کیا کرتے تھے۔ جسے استعمال کے بعد دھو کر خشک کر کے دوبارہ استعمال کے قابل بنا لیا جاتا تھا لیکن وقت بدلنے کے ساتھ کمپنیوں نے اپنے کاروبار بڑھانے کے لیے پیڈز بنانا شروع کر دیے۔یہ پیڈز غریب آدمی نہیں خرید سکتا۔ خصوصاً جس گھر میں چار بچیاں ہوتی ہیں ان کے والدین کے لیے پیڈز خریدنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔‘عائشہ سکول کی بچیوں کو پیڈز کے استعمال اور استعمال کے بعد انھیں دھو کر دھوپ میں خشک کرنے کے طریقے بھی بتاتی ہیں انھوں نے بتایا کہ پیڈز مہنگے ہونے کی وجہ سے بچیاں ماہواری کے تینوں دن ایک ہی پیڈ پر گزارہ کرتی ہیں جس سے انھیں مختلف اندرونی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ’بچہ دانی میں انفیکشن ہو جاتا ہے، سوجن بڑھ جاتی ہے، ماہواری کے دوران بہت درد ہوتا ہے اور وہ شرم کے مارے کسی کو بتا بھی نہیں سکتیں۔‘عائشہ کا کہنا ہے کہ ان کے یہاں بنائے جانے والے پیڈز خالصتاً سوتی اور واش ایبل اور حفظانِ صحت کے اصولوں کے عین مطابق ہوتے ہیں۔عائشہ بتاتی ہیں حیض کے حوالے سے تعلیمی نصاب میں کوئی معلومات نہیں ہوتی اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی آگہی دی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے بچیاں ماہواری کے متعلق مکمل معلومات سے محروم رہتی ہیں اور دوسروں سے پوچھنے میں بھی شرم محسوس کرتی ہیں۔ اسی لیے انھیں اور ان کی ماؤں کو دوران حیض صفائی ستھرائی سے متعلق بتانا بہت ضروری ہے تاکہ وہ بغیر کسی پریشانی ماہواری کے ایام کو گزار سکیں۔ دوران ماہواری اپنی صحت کا خیال رکھنے سے لڑکیاں بہت سے مسائل سے بچ سکتی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ نصابی اصلاحات پر کام کر رہی ہیں تاکہ نویں اور دسویں کےبچے نصاب سے ہی سیکھ کر اپنے مسائل پر قابو پا سکیں۔معروف ماہر نسواں پروفیسر ڈاکٹرشاہینہ آصف کے مطابق عورت کی زندگی میں سب سے زیادہ احتیاط کا وقت وہ ہے جب بچیوں کو ماہواری شروع ہوتی ہے۔ بہت سی مائیں ایسی ہیں جو اپنی بچیوں کو حیض کے مسائل بتانے میں یہ سوچ کر دیر کر دیتی ہیں کہ بعد میں بتائیں گے مگر اسی دوران بچیوں کی ماہواری شروع ہو جاتی ہے۔
ان کے مطابق ماؤں کو چاہیے کہ وہ بچیوں کو کم عمری میں ہی ماہواری کے متعلق بتائیں۔کوشش کرنی چاہیے کہ جس پیڈ کو ایک بار استعمال کر لیا جائے اسے دوبارہ استعمال نہ کیا جائے بلکہ نیا کپڑا استعمال کریں۔ کوشش کی جائے کہ پیڈز ڈسپوزیبل ہوں کیونکہ بہت دیر تک سینٹری ٹاول رکھنے سے بدبو آجاتی ہے اور ریشز ہو جاتے ہیں۔ ان ریشز کا اگر بروقت علاج نہ کیا جائے تو انفیکشن ہو جاتا ہے۔اسی طرح ٹشو استعمال کرنے سے گریز کیا جائے کیونکہ ٹشو گیلے جسم پر چپک جاتے ہیں اور انفیکشن کی وجہ بنتے ہیں ۔انھوں نے بتایا کہ خون آلود پیڈ کو تین چار گھنٹے سے زیادہ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’خون ایک ایسا میڈیم ہے جسے آپ کہیں بھی چھوڑیں گے تو اس پر بیکٹیریا کی افزائش ہوگی جو آگے بڑھ کر بچہ دانی میں انفیکشن کا سبب بن سکتا ہے۔‘