طاقتور کو اسکی طاقت کا اندازہ اس وقت ہوا جب اسکے عمل پر کوئی ردعمل نہیں کیاگیا، کچھ نا کہنے کی وجہ کچھ بھی ہو یا ردِعمل ظاہرنا کرنے کی وجہ کچھ بھی ہوعمل کرنے والا طاقتور ہوگیا اورمظلومیت بڑھتی چلی گئی ۔ اسکی مثال ہمارے گھروں میں عام دکھائی دیتی ہے۔ آپ اپنے بچے کو اگر پہلی دفعہ میں کسی غلط بات سے نہیں روکیں گے تو وہ اپنے آپ میں طاقتور ہوتا چلا جائے گا اور آپ ہنستے مسکراتے کمزور ہوتے چلے جائیں گے۔ یہ بلکل سادہ سے انداز میں سمجھائی گئی بات ہے ، ہم سب ایسا ہی کرتے ہیں اور پچھتاوے گردنوں میں لٹکائے ہنستے مسکراتے گھومتے رہتے ہیں۔
دنیا بادشاہت سے بہت اچھی طرح سے واقف ہے اور بادشاہ یا ملکہ بننے کی خواہش ہردل کے کسی نا کسی پنہاں گوشے میں دبی بیٹھی رہتی ہے۔ بادشاہت میں طاقت کا منبع ایک فرد اوراسکا خاندان ہوتاہے، دنیا نے ترقی کے ساتھ ساتھ اس خاندانی حکمرانی سے جان چھڑا لی۔ آج چند ممالک کے علاوہ بادشاہت صرف محلات یا ایک مہر کی حد تک محدود کر دی گئی ہے۔ بادشاہت کی ایک شاخ فوجی حکمرانوں کی صورت میں بھی ابھر کر آئی جسے آمریت کا نام دیا گیا۔ اس نظام کو چلانے کیلئے فوج کا جرنل ہی ملک کا سربراہ ہوتا ہے ۔ایسی مثالیں اکیسویں صدی تک دیکھی جاتی رہیں۔
اسلام سے قبل بادشاہت ہی تھی مگر مذہب اور مذہبی پیشوا کا کردار کلیدی ہوا کرتا تھا یعنی کلیساء بہت طاقتور تھا۔ ان سارے نظاموں میں طاقت صرف اقتدار کرنے والوں کے پاس ہی ہوا کرتی تھی۔ اسلام کا ظہور ہوا گویا دنیا میں علم اپنی روح کے ساتھ دنیا میں ظاہر ہونا شروع ہوا۔ ہمارے پیارے نبیﷺ نے دنیا کو تاریکی سے نکال کر روشنی کے سفر پر گامزن کیا اور مساوات کے نظام کو نافذ کرنے کی سعی شروع کی اور اللہ کی مدد سے ساری دنیا ایک قلیل عرصے میں اس روشنی سے منور ہوگئی۔ خلافت راشدہ کا قیام عمل میں آیا ، حاکم اور محکوم کا فرق ختم ہوگیا ۔ دنیا کو ایک نیا نظام حکومت جسے حقیقی جمہوری طرز حکومت بھی کہا جاسکتا ہے۔ جس میں علم ، ذہانت اور کردار کی بنیاد پر حکمران چنے جاتے ہیں اور دنیا اسے خلافت کے نام سے جانتی ہے۔
لیکن انسانیت کے دشمنوں کو یہ بات کہاں گوارا ہوسکتی تھی کہ حاکم اور محکوم کا فرق ختم ہوجائے۔ اس لیے خلافت کے برعکس جمہوریت نامی طرز حکومت کومتعارف کرایا۔ یہاں تھوڑی سی جمہوریت کی وضاحت کرتے چلیں، سادہ لفظوں میں اس کا جواب یہ ہے کہ عوام اپنے حکمران ووٹوں کی مدد سے خود چنیں۔ بظاہر تو یہ بات بہت بھلی معلوم ہوتی ہے کہ عوام بہتر سمجھتے ہیں کہ انکے مسائل کون اچھی طرح سمجھتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ ان مسائل سے کس طرح سے نمٹا جائے گا۔ یہ معاملہ وہاں تک تو ٹھیک ہے جہاں وسائل کی دستیابی اور انکی تقسیم کا عمل واضح ہونے کے ساتھ ساتھ یکساں ہو، جہاں کسی علاقے یا صوبے کے حقوق مسخ نا کیے جائیں، جہاں مردم شماری جیسی اہم معلومات کو اپنی مرضی سے مرتب نا کیا جائے اور جہاں عدل و انصاف کیا جاتا ہو۔ وہاں تو جمہوریت اپنی اصل روح کے ساتھ نافذ العمل کی جاسکتی ہے مگر ہمارے معاشرے میں اس کا نفاز مشکل نظر آتا ہے۔
جمہوری طرز حکومت کو اب تک بہت فروغ ملا کیوں کہ اس میں عوام کو حکمرانوں کو چننے کا اختیار حاصل ہوتا ہے ۔ یعنی خلافت کے بلکل منافی نظام حکومت جس میں عوام جس میں اکثریت ان پڑھ اور جاہلوں کی ہوتی ہے رنگ و روشنی سے مرعوب ہوکر روٹی ، کپڑا اور مکان کی چاہ میں ان سے کوئی بھی انکو اپنے حق میں کر لیتا ہے اور پھر کبھی بھی ان کی ضروریات کی تکمیل نہیں ہونے دیتا۔ وہ سمجھ چکا ہوتا ہے کہ ان میں نا تو اتنی سکت ہے کہ وہ خود سے اپنی ضروریات کیلئے عملی طور پر کچھ کرسکیں اور نا ہی یہ مجھ تک پہنچ سکتے ہیں۔
ایک نظام جسے صدارتی نظام سے جانا جاتا ہے اور اس نظام کی اعلیٰ ترین مثال امریکہ میں نافذ العمل ہے۔اس بات پر دنیا کے بڑے بڑے قانون دان، اسکالر ز، فلاسفرز اور حکمران اس بات کی گواہی دے چکے ہیں کہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو دنیا کو مشکلات سے نکال سکتا ہے ،دنیا کو راہ راست پر لانے کیلئے جو کردار نظام خلافت نے ادا کیا دنیا آج بھی اسکی معترف ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے آج بھی خلافتِ راشدہ کی طرز پر اپنی حکومتی پالیسیاں مرتب دے رکھی ہیں اور سب سے بڑھ کر حضرت عمر فاروقؓ کے قوانین آج بھی نافذ العمل ہیں۔ دنیا آج بھی عمرؓ کے قوانین کی معترف ہے۔ یہ طے ہے کہ جب تک آپ کسی بھی نظام کا اطلاق مکمل طور پر نہیں کرینگے وہ نظام کامیاب ہو نہیں سکتا۔ ایک بار پھر اپنے گھروں کی مثال لے لیجئے جہاں والدِ محترم کا حکم کچھ اور ہوتا ہے والدہ کی محبت اس میں کچھ نرمی کردیتی ہے اور کچھ ہم اپنی عقل و دانش سے بھی کام لے لیتے ہیں یعنی جو حکم گھر کے حاکم کی طرف سے ملا ہوتا ہے وہ نا ہونے کے برابر رہ جاتا ہے، یعنی نظامِ والد مکمل طور پر نافذ نہیں ۔ جب نظام اپنی اصل حالت میں نافذ نہیں ہوسکتا تو پھر اس نظام سے حاصل ہونے والے فائدے بھی عارضی ہوتے ہیں۔
پاکستان میں آمریت کا دور دورہ رہا ہے اور جمہوریت نا ہونے کے برابر اس ملک میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے سے قاصر رہی ہے ۔ ہماری سیاسی جماعتوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کا حصہ ہمیشہ سے بہت اہم رہا ہے، یہ وہ جماعت ہے جو کسی حد تک تو جمہوریت کی روح سے آشنا ہے مگر عمل داری نا ہونے کی وجہ سے بارہا زبوں حالی کا شکار رہی ہے۔اس جماعت کے سربراہ محترم جناب ذوالفقار علی بھٹو صاحب ،جن کی صورت میں پاکستان کو عرصہ دراز کے بعد ایک ذہین، بہادر اور نڈر سیاستدان میسر آیا تھا اور وہ جانتے تھے کہ ملک کو درپیش سنگین مسائل سے نکالنے کیلئے ملک کی آبادی کی اکثریت کو اپنی طرف کرنا ہوگا اور یہ اس اکثریت کی ضرورت تھی (جو آج بھی ہے) روٹی ، کپڑا اور مکان۔ یہ وہ تاریخی نعرہ ہے جو بھٹوصاحب نے پیپلز پارٹی کو بطور دل اور دماغ دیا اور اس نعرہ کی بنیاد پر اس جماعت نے دیگر جماعتوں کی نسبت اپنی جڑیں عوام میں زیادہ مضبوط کر رکھی ہیں۔
مجھے دکھ بھی ہے کہ یہ وہ سیاسی جماعت تھی جس سے وابسطہ سیاست دان کافی حد تک سیاسی بصیرت اور ملک کو مسائل سے نکالنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اس جماعت کے علاوہ تقریباً تمام سیاسی جماعتیں مسلسل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ مذہبی جماعتوں میں جماعت اسلامی وہ واحد جماعت ہے جو آج تک اپنی جگہ ڈٹ کر کھڑی ہوئی ہے، مگر جماعت اسلامی کا سب سے بڑا مسلۂ یہ ہے کہ اس جماعت نے اپنا مزاج نہیں بدلا جس کی وجہ سے اقتدار ان سے نالاں ہی رہا ہے۔ ان جماعتوں کے تذکرہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان جماعتوں کے پاس ایسے ایسے ذہین لوگوں کی موجودگی نے بھی کسی نئے نظام حکومت کو متعارف نہیں کروایا اور آج تک جمہوریت کی آڑ میں بدعنوانیوں کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں ووٹ لینے کیلئے اپنے سپورٹروں کو اکسانے کیلئے دوسرے سیاستدانوں کی کردار کشی کی جاتی ہے، دوسروں پرخوب کیچڑ اچھالا جاتا ہے یو سمجھ لیجئے جو جتنا کیچڑ اچھال پاتا ہے وہ اتنا ہی کامیابی کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔ لگتا کچھ ایسا ہے کہ یہ سب کچھ اندرونی طور پر ایک ہی ہوتے ہیں اور آپس میں یہ طے کرلیتے ہیں کہ ہم اپنے کان اس طرح کی باتوں پر نہیں دھرینگے جن میں کسی بھی نوعیت کی بے عزتی کا عنصر شامل ہوگا۔ یہ بھی ان ہی سیاستدانوں کا سمجھایا ہوا ہربہ ہے کہ عزت تو آنی جانی چیز ہے مگر کرسی نہیں چھوڑنی۔ یہ بات ہر پاکستانی سمجھتا بھی ہے اور جانتا بھی ہے کہ پاکستان اندرونی طور سے کمزور ہوتا ہے تو دنیا میں کہیں نا کہیں اس کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور ہمارے اندرونی خلفشار (چاہے کسی بھی نوعیت کا ہو) سے دنیا کو فائدہ ہی پہنچتا ہے اور یہ بات اٹل حقیقت ہے اس غیر مستحکم صورت حال کو پیدا کرنے میں بھی بیرونی ہاتھوں کے ملوث ہونے کے امکان کو کبھی بھی رد نہیں کیاجاسکتا۔
دنیا نے ترقی کے سارے گزشتہ ریکارڈ توڑ دئیے ہیں مگر کیا دنیا میں سیاست پر کی جانے والی تحقیق کے نتیجے میں کوئی نیا نظام حکومت متعارف نہیں کروایا جس کا بلواسطہ تعلق انسانی زندگی کے معمولات سے منسلک ہے۔ جہاں انسان نے زمین سے کائنات کے دوسرے رازوں پر سے پردہ اٹھانا شروع کر دیا ہے چاند کے بعد دیگر سیاروں پر پہنچنے کی کوششیں جاری ہیں تو ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ زمین پر جو چیزیں فرسودہ ہوگئیں ہیں ان پر بھی دھیان دیا جائے اور کوئی نیا نظام حکومت متعارف کروایا جائے یا پھر خلافت کو اسکی اصل حالت میں نافذ کیا جائے۔ خلافت کے نفاذ کی بات سے تو ہمارے اپنوں کو بھی تکلیف پہنچی ہوگی مگر ہم جنس پرستی کے حق میں احتجاج کرنے والوں سے تکلیف نہیں ہوتی ۔ جس طرح دنیا میں ہر فرد اپنے حق کی بقاء کیلئے سڑکوں پر نکل رہا ہے تو کیا یہ حق ہم استعمال نہیں کرسکتے۔
کم ازکم کوئی ایسا نظام اخذ کرلیا جائے جس میں اگر عوام اپنے حکمرانوں کو چنے تو ان کی بدعنوانیوں پر ان سے حساب بھی لے سکے اور علاقے میں انکی غیر حاضری پر ان کوصفائی بھی پیش کرنی پڑے یعنی یکطرفہ جمہوریت کو دوطرفہ جمہوریت سے تبدیل کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ چاہے جمہوریت کا نام تبدیل کرکے بدعنوانیت ہی رکھدیں۔
دنیا کو اگر اس بات کی سمجھ آجائے کہ اسلام ایک آفاقی دین ہے اور اس میں نجی زندگی کے معاملات سے لے معاشرتی ، معاشی، قانون اور سیاسی تمام پہلوؤں کو بہت وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ جب اسلام کوقدرت نے پسندیدہ مذہب قرار دے دیا اور حضرت محمدﷺ پر نبوت کا سلسلہ تا قیامت کیلئے موقوف کردیا تو پھر نظامِ خلافت ہی وہ نظام حکومت ہے جو دنیا کو دائمی امن سے روشناس کروا سکتی ہے۔ ذرا سوچیں تو سہی کہ امریکہ میں صدارتی نظام حکومت کیوں ہے کیونکہ یہی وہ دنیا کا بنایا ہوا نظام ہے جسے خلافت سے نکال کر بنایا گیا ہے کیونکہ اگر خلیفہ بنا دیتے تو کس طرح اسلام سے دور رہ سکتے تھے۔ دنیا آخر حقیقت سے کب تک منہ چھپاتی رہے گی شائد جب تک کہ ہم مسلمان اپنے اسلام کی پاسداری کا عملی مظاہرہ دنیا کے سامنے پیش نہیں کرتے۔