قونصل جنرل مانچسٹر ڈاکٹر ظہور احمد اور ان کے رفقاء سے ملاقات میں قریباً دو گھنٹے لگ گئے، چائے کے ساتھ ساتھ تصویروں اور سیلفیوں کا سلسلہ بھی جاری رہا کہ اب یہ ہر طرح کی محفل کا ایک لازمہ سا بن گیا ہے۔ احباب کی محبت اپنی جگہ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ بعض اوقات فرمائشوں کی کثرت اور تکرار کی وجہ سے الجھن سی ہونے لگتی ہے۔
بالخصوص وہ فرمائشیں بہت کھلتی ہیں جو کھانے کے دوران کی جائیں کہ مہذب محفلوں میں کھانے کے دوران تصویریں لینا ایک معیوب بات سمجھی جاتی ہے، اس پر مستزاد یہ کہ بہت سے مداحین اجازت لینے کی تکلیف بھی نہیں کرتے اور یوں بہت دیر تک آپ کو ایک ہی لقمہ منہ کے کسی کونے میں دبا کر رکھنا پڑتا ہے، یہ صورت حال یہاں تو پیش نہیں آئی کہ کل ملا کر دس پندرہ لوگ تھے اور سب کے سب سفارتی آداب کے تربیت یافتہ بھی تھے لیکن عمومی محفلوں میں موبائل فونز کے کیمرے واقعی جان کو آ جاتے ہیں۔ نئے پاسپورٹوں کے اجرا اور پرانوں کی تجدید کے لیے اب ’’نادرا‘‘ کے افسران بھی سفارتی عملے کا حصہ بن چکے ہیں اسی حوالے سے ایک خاتون افسر نے بتایا کہ کچھ ماہ قبل وہ لاہور کے ایک ’’نادرا‘‘ آفس میں متعین تھی اور میں وہاں اپنی بہو رابعہ علی کے شناختی کارڈ کے حوالے سے آیا تھا ایک بار پھر احساس ہوا کہ دنیا واقعی بہت چھوٹی ہوتی جا رہی ہے۔
برادرم سید احسان اللہ وقاص اپنے کسی دوست کے ساتھ ایک علاحدہ گاڑی پر پریسٹن سے ہوتے ہوئے گلاسگو پہنچ رہے تھے، سو کئی دنوں کے بعد پہلی مرتبہ ہماری گاڑی کے مسافروں میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی۔ راجہ عبدالقیوم نے موبائل فون کی APP سے کی جانے والی رہنمائی کے علاوہ گاڑی کے شیشے پر متعلقہ مشین بھی نصب کر دی تھی یعنی اب محاورے کے مطابق ہم بیک وقت دو کشتیوں کے سوار تھے یہ بات اور ہے کہ یہ دونوں کشتیاں ملاحوں کی آواز کے فرق سے قطع نظر ہم زبان بھی تھیں اور ہم خیال بھی یعنی ایک پر مردانہ اور دوسری پر زنانہ آواز میں ہدایات دی جا رہی تھیں۔ مجھے یاد ہے گزشتہ برس ہم گلاسگو جاتے ہوئے بھائی طارق احمد کے پاس نیو کاسل میں رکے تھے لیکن اس بار رستے میں نیو کاسل کا کوئی سائن نہیں ملا غالباً ہم کسی دوسرے رستے سے جا رہے تھے۔
گلاسگو اسکاٹ لینڈ کا سب سے بڑا شہر ہے اور پاکستانیوں کی بیشتر آبادی بھی اسی کے نواح میں رہتی ہے ہمارے دوست سابق گورنر پنجاب اور پی ٹی آئی کے موجودہ رہنما چوہدری سرور کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے، ہم نے ان کا وہ کیش اینڈ کیری اسٹور بھی دیکھا جہاں سے انھوں نے اپنے بزنس کا آغاز کیا تھا اور پھر نہ صرف ایک کامیاب بزنس مین بنے بلکہ برٹش پارلیمنٹ میں پہلے منتخب ممبر کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ اس شہر میں ہمارے مرکزی میزبان ڈاکٹر شفیع کوثر رہے‘ قتیل شفائی مرحوم کے داماد شوکت بٹ (مرحوم) اور برادرم احمد ریاض بھی جزوی طور پر میزبانوں میں شریک رہے جب کہ پچھلی بار کی میزبان راحت زاہد تھیں اس بار ہمارا قیام شہر کے وسط میں واقع Travelodge کی ایک ایسی شاخ میں تھا جو اگرچہ اندر سے خاصی وسیع اور آرام دہ تھی مگر شہر کی مرکزی شاہراہ پر ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ پارکنگ ایریا تو کیا گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ بھی نہیں تھی۔
راجہ عبدالقیوم کا اصرار تھا کہ ڈبل ییلو لائن پر رکنے کی وجہ سے ان کا چالان ضرور ہو گا اس لیے ہمیں یہاں اتار کر وہ کوئی پارکنگ کی جگہ ڈھونڈیں گے اور پھر سامان کو کمروں میں منتقل کریں گے۔ ان کی محبت اور جذبہ خدمت کے خلوص کے ہم پہلے ہی گھائل تھے سو یہ تصور بہت تکلیف دہ تھا کہ انھیں کہیں دور سے ہمارا سامان گھسیٹ کر لانا ہو گا (یہ بات میں پہلے کہیں لکھ چکا ہوں کہ وہ سامان لادنے اور اتارنے کے عمل میں ہمیں ہاتھ بٹانے کا موقع نہیں دیتے تھے) اس وقت شام کے پونے چھ بجے تھے۔ معلوم ہوا کہ پندرہ منٹ بعد اس علاقے میں پارکنگ کی اجازت ہو گی جو صبح آٹھ بجے تک جاری رہے گی شرط یہ ہے کہ آپ کو مطلوبہ جگہ مل جائے، سو کسی نہ کسی طرح سے راجہ قیوم نے اس رعایت سے فائدہ اٹھانے کا اہتمام کر لیا جس سے ہمارے ضمیروں کی خلش کسی حد تک کم ہو گئی۔
میرا بھتیجا سلمان شاہد گزشتہ تین چار برس سے گلاسگو ہی میں مقیم ہے سو، وہ اور عزیزی شعیب گل یکے بعد دیگرے ملاقات کے لیے پہنچ گئے، شعیب گل کی رہنمائی میں رات کا کھانا کچھ فاصلے پر واقع ’’راجاز‘‘ نامی ریستوران میں کھایا گیا جسے جہلم اور سرائے عالم گیر کے دوست بہت کامیابی سے چلا رہے تھے، معلوم ہوا کہ پورے گلاسگو میں یہ جگہ اپنے عمدہ اور نیم دیسی کھانوں کی وجہ سے بہت مقبول اور مشہور ہے۔ سردی خوب زوروں پر تھی چنانچہ گرم کھانے اور میزبانوں کی گرم جوشی نے بہت مزہ دیا۔ سلمان نے سویڈن سے MBA کی ڈگری حاصل کی ہے مگر اب تک اس کو بوجوہ وہ نوکری نہیں مل سکی جس کا تعلق اس کی حاصل کردہ تعلیم کے مطابق ہو جس کی وجہ سے وہ کم اور اس کے والدین یعنی شاہد اور فاطمہ بھابی زیادہ پریشان رہتے تھے کہ ماں باپ بچوں کے مسائل کو عام طور پر حقائق کے بجائے جذبات کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔
سلمان نے بتایا کہ اسے‘ اس کی بیگم حاجرہ اور بچوں آمنہ اور ابراہیم کو مستقل رہائش کا اجازت نامہ مل گیا ہے اور اگست میں ان کو یہاں کی شہریت بھی مل جائے گی جس کے بعد اس کے لیے اپنے مطلب کی اور اچھی نوکری ملنے کے مراحل آسان ہوتے چلے جائیں گے۔ پروگرام کے مطابق انور مسعود اور میں نے اگلی صبح کا ناشتہ اس کے گھر پر کیا، عزیزہ حاجرہ کی مہمان نوازی‘ سلمان کی خوشی اور بچوں سے ملاقات کے جلو میں کچھ خوب صورت وقت گزار کر جب ہم اپنی ’’سرائے‘‘ میں واپس پہنچے تو معلوم ہوا کہ میاں عبدالشکور اور احسان اللہ وقاص شام کے فنڈ ریزر کے سلسلے میں کچھ مقامی احباب سے ملنے گئے ہیں اور راجہ قیوم اپنے بھاری بھر کم وجود اور خوشگوار مسکراہٹ کے ساتھ ہمارے منتظر تھے تاکہ حسب معمول ہمارے کپڑے استری کیے جا سکیں۔ قیوم بھائی یو کے اسلامی مشن سے رضا کارانہ طور پر بغیر کسی معاوضے کے وابستہ ہیں اور یہی تعلق تنظیم کے صدر ڈاکٹر عارف کا ہے مگر جس محبت‘ خلوص اور درویشانہ عاجزی کے ساتھ یہ دونوں حضرات اپنے مہمانوں کی خدمت کرتے ہیں اس کی مثال کم کم ہی دیکھنے میں آئی ہے۔
تقریب مرحبا ہوٹل کے اس ہال میں تھی جہاں گزشتہ برس مشاعرہ ہوا تھا، ہال میں تقریباً 250 لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی جو ہمارے آنے سے قبل ہی پر ہو چکی تھی سو بعد میں آنے والوں کی اکثریت کو بیٹھنے کی جگہ نہ مل سکی مگر اس کے باوجود انھوں نے نظم و ضبط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا جو ایک بہت خوش آیند بات تھی۔ فراز یوسف زئی تمام سابقہ پروگراموں کی طرح یہاں بھی فنڈ ریزر تھے، وقت کے ساتھ ساتھ اس نوجوان نے کسی نہ کسی حد تک اقتصاد کا سبق بھی سیکھ لیا تھا۔ حاضرین کی گرمجوشی اور تعاون نے اس کا کام مزید آسان کر دیا سو کھانا پہلی بار صحیح وقت پر سرو کیا جا سکا۔ بریڈ فورڈ کے بعد مشاعرے کے اعتبار سے یہ دوسرے بہترین سامعین تھے، اس لیے محفل خوب جمی، راحت زاہد سمیت کئی آشنا چہروں سے تجدید ملاقات ہوئی مگر ڈاکٹر شفیع کوثر اور احمد ریاض کی کمی بہت محسوس ہوئی، ممکن ہے ان کو اس تقریب کی اطلاع ہی نہ مل سکی ہو میرے پاس دونوں کے فون نمبر بہت پرانے تھے اس لیے رابطہ بھی نہ ہو سکا۔
کرسمس کی تیاریاں عروج پر تھیں، بازاروں میں روشنیوں اور دکانوں پر کرسمس سیلز کا دور دورہ تھا، راجہ قیوم کے ساتھ کچھ چھوٹے بڑے اسٹورز پر جانے کا اتفاق ہوا ہر جگہ کرسمس کی وجہ سے اشیاء کی قیمتوں میں کمی کی گئی تھی۔ معلوم ہوا کہ کرسمس والے ہفتے میں یہ قیمتیں اور بھی کم کر دی جائیں گی، یہ سوچ کر بہت دکھ ہوا کہ یہاں کے لوگ مذہب سے نمائشی اور رسمی تعلق کے باوجود اس کی روایات کی دل و جان سے اور عملی طور پر پاسداری کرتے ہیں جب کہ ہمارے یہاں بار بار حج اور عمرے کرنے والے بیشتر تاجر بھی رمضان اور عیدین کو ناجائز نفع اندوزی کا ایک افسوس ناک منظر بنا دیتے ہیں بچوں اور دوستوں کے لیے خریداری کرتے وقت ایک بار پھر مرحوم دلدار پرویز بھٹی کا ایک باکمال جملہ بہت یاد آیا جو اس نے ایک بار امریکا کے کسی سفر سے واپسی پر ایک تقریب میں شامل نہ ہو سکنے کی وجہ کے طور پر کہا تھا۔
’’یار میں آج نہیں آ سکوں گا کیونکہ مجھے لبرٹی مارکیٹ سے وہ تحفے خریدنے جانا ہے جو میں دوستوں کے لیے امریکا سے لایا ہوں‘‘۔