تحریر : سید توقیر زیدی
امریکہ کے صدر باراک اوباما نے عالمی جوہری کانفرنس کے دوران خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی سے نپٹنے کے لئے پاکستان کا ساتھ دینے کے عزم پر قائم ہیں، دْنیا بھر کے جوہری مفاد تک دہشت گردوں کی رسائی ناممکن بنا دی ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کو لاحق خطرات کم ہو گئے، مگر کچھ خطرات ابھی باقی ہیں۔دنیا کے102ممالک نے جوہری مفاد کی حفاظت کے معاہدے کی توثیق کر دی ہے۔ امریکی صدر اوباما نے وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے ایٹمی کانفرنس میں شرکت کے لئے امریکہ نہ آنے پر پریشان ہونے سے متعلق افواہوں کو مسترد کر دیا، ایٹمی سلامتی کی چوتھی اور حتمی کانفرنس شروع ہونے کے موقع پر وائٹ ہاؤس نے بتایا کہ صدر اوباما نے بڑھ کر نواز شریف سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا تھا، جس میں صدر اوباما نے اْن سے کہا کہ وہ سمجھ سکتے ہیں کہ لاہور میں دہشت گردی کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے امریکہ کا دورہ منسوخ کرتے ہوئے پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کیوں کیا۔
نواز شریف کی جانب سے دورہ منسوخ کرنے کے دو دِن بعد دونوں رہنماؤں کے درمیان ٹیلی فون رابطے کے بعد قیاس آرائیوں نے جنم لیا کہ اوباما چاہتے ہیں نواز شریف اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں۔ تاہم وائٹ ہاؤس کے بیان سے نہ صرف ان قیاس آرائیوں کی تردید ہوتی ہے، بلکہ ان سے ٹیلی فون کال کا مقصد بھی ظاہر ہوتا ہے۔ صدر نے دہشت گردی سے نپٹنے کے لئے پاکستان کا ساتھ دینے کے عزم کا اعادہ کیا، نواز شریف کی غیر موجودگی کے باوجود کانفرنس کے متعلق بحث مباحثوں بالخصوص میڈیا میں پاکستان مرکزی موضوع رہا۔پاکستان کا موقف اِس سلسلے میں بہت واضح ہے۔
وزیراعظم کے معاونِ خصوصی طارق فاطمی جنہوں نے کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کی، کہا کہ پاکستان چالیس سال سے محفوظ ایٹمی پروگرام چلا رہا ہے اور اپنی جوہری ذمہ داریوں کے حوالے سے بہت سنجیدہ ہے، ہم ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت کی ذمہ داری سنجیدگی سے نبھا رہے ہیں۔ جوہری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے طارق فاطمی نے کہا کہ پاکستان عالمی ادارے، آئی اے ای اے سے مکمل تعاون کر رہا ہے۔ ہماری ایٹمی سیکیورٹی انتہائی موثرہے، ایٹمی مواد کبھی غلط ہاتھوں میں نہیں لگنا چاہئے یہ ایک عالمی تشویش ہے جو پاکستان کو بھی لاحق ہے۔
پاکستان کا ایٹمی مواد اور ایٹمی ہتھیار محفوظ ہاتھوں میں ہیں، ان کے حفاظتی انتظامات فول پروف ہیں اور ان کی حفاظت کے لئے عالمی معیار کے ادارے موجود ہیں، چالیس سال کے دوران ایٹمی مواد کے حوالے سے کوئی معمولی سی غفلت بھی سامنے نہیں آئی، حتیٰ کہ فنی طور پر کوئی سہو یا حادثہ بھی نہیں ہوا، جبکہ اِس حوالے سے کئی ملکوں میں بڑے بڑے حادثات ہو چکے ہیں۔ اِس سلسلے میں روس، بھارت اور جاپان کی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد تو ایٹمی مواد بڑی غیر محفوظ حالت میں تھا کیونکہ سوویت یونین ٹکڑے ٹکڑے ہو کرچودہ ریاستوں میں بدل گیا تھا اور ایک متحدہ مْلک نہیں رہا تھا۔
اس کے یہ اثاثے جہاں تھے وہیں پڑے رہ گئے اور طویل عرصے تک اِس ضمن میں دْنیا کے سامنے بہت سے خدشات کا اظہار ہوتا رہا۔ بھارت میں پانچ بار ایسی خبریں آئیں کہ اس کا ایٹمی مواد چوری ہو گیا۔ ایٹمی پلانٹس سے تابکاری رسنے کے واقعات بھی ہوتے رہے، جاپان میں سونامی کے بعد تو ایک ایٹمی پلانٹ نے تباہی مچا دی اور ہزاروں لوگ لقم? اجل بن گئے، اس پلانٹ کو بالآخر بند کرنا پڑا۔
طارق فاطمی نے عالمی کانفرنس میں یہ سو فیصد درست بات کہی کہ پاکستان چالیس سال سے اپنے ایٹمی پروگرام کی حفاظت کر رہا ہے، حالات و واقعات اْن کے اس مبنی برحق دعوے کی تائید و توثیق کرتے ہیں۔ پاکستان نے اپنے ایٹمی پروگرام کو اپنے وسائل سے ترقی دی ہے۔ یہ سب پاکستان کے سائنس دانوں کا اپنا کارنامہ ہے جو دْنیا کی غصیلی نظروں سے بچ بچا کر سال ہا سال اس کام میں عرق ریزی کرتے رہے اِس دوران پروپیگنڈے کا طوفانِ بدتمیزی بھی اْٹھایا گیا، طرح طرح کی الزام تراشیاں بھی ہوئیں، لیکن پاکستان اپنے کام میں منہمک رہا اور جب بھارت نے مئی1998ء میں ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کے ساتھ دھمکیوں کی زبان میں بات کرنا شروع کر دی اور اس کے حکمران آپے سے باہر ہو گئے تو پاکستان اس قابل تھا کہ وہ جوابی ایٹمی دھماکے کر کے اپنے اس ہمسائے کی زبانیں بند کر سکے۔
پاکستان اِس طویل آزمائش سے اِس لئے گزرا کہ اس کی سالمیت کو خطرات لاحق تھے، خصوصاً 1971 کی بھارتی جارحیت کے بعد اِس حوالے سے پیش رفت ضروری ہو گئی تھی، محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اِس کے لئے اپنی خدمات اْس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پیش کیں، اْن کے عہد میں دو ڈھائی برس تک کام ہوا پھر یہ ذمہ داری جنرل ضیاء الحق کے کندھوں پر آ پڑی، جن کی دس سالہ حکومت میں یہ کام اپنے اختتام کو پہنچ گیا تھا تاہم دْنیا کی نظروں سے بچا کر رکھنے کا اہتمام کیا گیا اور ایک موقع پر جب بھارت جنگی مشقوں کے پردے میں پاکستان کے خلاف ایڈونچر کرنے پر تلا بیٹھا تھا جنرل ضیاء الحق نے یہ راز ”لیک” کر کے اس کے عزائم خاک میں ملا دیئے، پھر وزیراعظم نواز شریف کے دور میں اعلانیہ ایٹمی دھماکہ کر دیا گیا، بعد میں بے نظیر بھٹو نے میزائل ٹیکنالوجی کو ترقی دی۔
اب میزائل سازی کے میدان میں بھی پاکستان کافی آگے بڑھ چکا ہے۔ پاکستان نے نہ صرف اپنی حفاظت کے پورے انتظامات کر لئے ہیں، بلکہ ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست کی طرح اپنے اِن سٹرٹیجک اثاثوں کی حفاظت بھی عالمی معیار کے مطابق کر رہا ہے، ایٹمی توانائی کا عالمی ادارہ ان انتظامات سے مطمئن ہے، امریکی حکومت کے متعلقہ ادارے بھی متعدد بار اِن انتظامات پر اظہارِ اطمینان کر چکے ہیں، تاہم کبھی کبھار بعض حلقے اپنے مخفی عزائم کی وجہ سے پاکستان پر اِس ضمن میں ایسی نکتہ چینی کر دیتے ہیں، جس کا قطعاً کوئی جواز نہیں ہوتا۔
پاکستان نے جس بڑے پیمانے پر دہشت گردی کا سامنا کیا ہے اس سے بہت معمولی قسم کے چند اِکا دْکا واقعات نے دْنیا کے کئی ملکوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ فرانس اور بلجیم کے واقعات سے اس کی مثال دی جا سکتی ہے دہشت گردی کی جس سطح کا پاکستان کو مقابلہ کرنا پڑا ہے اس کا عشرِ عشیر بھی کسی دوسرے مْلک کو کرنا پڑتا تو اْن کے معاشرے تنکوں کی طرح بکھر جاتے۔ دْنیا کو یہ حقیقت پوری طرح سمجھنے کی ضرورت ہے اور عالمی کانفرنس میں پاکستان کا یہ موقف طارق فاطمی نے پوری دْنیا کے سامنے وضاحت کے ساتھ رکھ دیا ہے، اس کو درست پس منظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔
تحریر : سید توقیر زیدی