تحریر: کامران غنی صبا
آخر کار پیغام آفاقی بھی زندگی کی جنگ ہار گئے۔ آج صبح اسکول کے لیے نکلا ہی تھا کہ بردارم ڈاکٹر منصور خوشتر کا میسج ملا کہ “پیغام آفاقی داغ مفارقت دے گئے”۔ پیغام آفاقی صاحب سے میری کوئی ملاقات نہ تھی لیکن وہ ہمیشہ رابطے میں رہے۔ 2014 ء میں جب ایک امریکی نو مسلمہ کو ہندوستان کے پرمننٹ ویزا کے سلسلہ میں دشورایاں پیش آ رہی تھیں تو میں نے پیغام صاحب سے رابطہ کیا۔ وہ بہت خوش ہوئے بولےچلیے اسی بہانے آپ سے ملاقات تو
ہوگی۔ میں اُس وقت دہلی میں نہیں تھا، میں نے اُن سے کہا کہ میں اس وقت حاضر نہیں ہو پاؤں گا البتہ اگلی بار جب بھی دہلی آیا ضرور ملاقات کروں گا۔ میں نے امریکی خاتون کو اپنے دوست کے ہمراہ ان کے پاس بھیج دیا۔ وہ
میرے دوست کو نہیں جانتے تھے اس کے باجود بڑی خندہ پیشانی سے پیش آئے اور انھیں مفید مشورے بھی دئیے۔
دوسری بار بھی ان سے ملاقات ہوتے ہوتے رہ گئی۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی طرف سے ہونے والی عالمی اردو کانفرنس میں اردو نیٹ جاپان کے چیف ایڈیٹر ناصر ناکاگاوا دہلی تشریف لائے ہوئے تھے۔ جواہر لعل نہرو
یونیورسٹی میں دوسرے دن کا اجلاس جاری تھا۔ ناصر بھائی نے مجھے اشارہ کیا اور ہم لوگ چپکے سے سیمینار ہال سے باہر آگئے۔ ناصر بھائی پیغام صاحب سے ملاقات کرنا چاہتے تھے۔
میں نے انہیں فون کیا کہ ہم لوگ سیمینار سے چھپ چھپا کر آپ سے ملنے آ رہے ہیں، اگر آپ ہمیں جلد ہی چھوڑ دیں تو بہت نوازش ہوگی۔پیغام صاحب نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ” ہمارے یہاں آنے والوں کو اتنی آسانی سے نہیں چھوڑا جاتا، بہر کیف آپ تشریف تو لائیں۔ ” میں ناصر بھائی اور اپنے دوست محمد عطا کریم کے ہمراہ رجوری گارڈن کے لیے نکل پڑا لیکن اتفاق کہ نکلتے ہی ٹریفک میں بری طرح پھنس گیا۔ ناصر صاحب پریشان ہو رہے تھے کہ دیر ہوئی تو خواجہ اکرام صاحب باز پرس شروع کر دیں گے۔ تقریباً آدھا گھنٹہ ٹریفک میں پھنسے رہنے کے بعد ناصر بھائی نے پیغام صاحب سے معذرت کر لی اور اس طرح پیغام صاحب سے ملنے کا خواب اس دفعہ بھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ پیغام صاحب صرف ایک بڑے ادیب ہی نہیں تھے۔ وہ ایک عمدہ انسان بھی تھے۔
ڈپٹی کمشنر آف پولیس کے اعلیٰ عہدے پر فائز رہتے ہوئے بھی ان کے مزاج میں انکساری تھی۔ وہ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے ۔ فیس بک پر میرے میسج کا جواب بہت ہی محبت اور اپنائیت سے دیا کرتے تھے۔ اردو نیٹ جاپان کے لیے انھوں نے اپنے کئی افسانے بھیجے۔”دربھنگہ ٹائمز کا “افسانہ نمبر” منظر عام پر آیا تو خوشتر بھائی(ڈاکٹر منصور خوشتر) کی دل کھول کر حوصلہ افزائی کی اور “ناول نمبر”کے لیے مفید مشوروں سے بھی نوازا۔
پیغام صاحب ادب میں پروپیگنڈا کے شدید مخالف تھے۔ اعزاز و انعام کو انھوں نے کبھی اہمیت نہیں دی۔ ان کا ماننا تھا کہ ادیب کا اصل اعزاز اس کے قارئین ہیں۔کچھ دن قبل جب میں نے “پندار” کے گوشئہ ادب کے لیے افسانہ کی درخواست کی تو انھوں نے اپنی بیماری کا عذر پیش کیا اور دعا کی درخواست کی۔ کس نے سوچا تھا کہ ان کی بیماری انھیں ہم سے جدا کرنے آئی ہے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔