تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
میرے سامنے بیٹھی عورت کتنی دیر سے مجھے لو نڈی بننے پر قائل کئے جا رہی تھی کہ اسلام میں لونڈی ازم جائز ہے لو نڈی کا فلسفہ کیا ہے اسلام کے ابتدائی دور میں بڑے صحابہ کرام کی بھی لونڈیاں تھیں پھر اُس عورت نے بہت سارے صحابہ کرام کے نام لئے اور اُن نیک عورتوں کے بھی جو لونڈیاں تھیں یعنی وہ عورت اسلام میں لونڈی اِزم کو آج کے دور میں جا ئز قرار دے رہی تھی مجھے وہ یہ ترغیب دے رہی تھی کہ تم اِس دور کی اُن خوش قسمت ترین عورتوں میں شامل ہو جا ئو گی جو اِس عظیم سعادت سے بہرہ ور ہو چکی ہیں کیونکہ مجھے اِس بار ے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں اِس لیے میں خاموشی سے اُس عورت کی باتیں سنتی جا رہی تھی باتوں باتوں میںاُس نے مجھے یہ دھمکی بھی دے ڈالی تھی کہ اگر تم لو نڈی بننے سے انکار کرو گی تو تم پیر صاحب کی نظروں اور دل سے اُتر جا ئو گی اور اگر تم نے پیر صاحب کو نا راض کر دیا تو تم پھر کبھی بھی اپنی منزل نہیں پا سکو گی ایک طرح سے وہ مجھے یہ بتا رہی تھی بلکہ دھمکی یا ترغیب دے رہی تھی کہ تمہا رے روحانی سفر کا دارومدار اب اِس فیصلے پر ہے کہ میں پیر صاحب کی لونڈی بنتی ہو ں کہ نہیں اِسی دوران میں نے ڈرتے ڈرتے پو چھا میں تو پہلے ہی پیر صاحب کی کنیز اور خادمہ ہو ں اُن کے ہر حکم کو سر آنکھوں پر سجاتی ہو ں
وہ جب کہیں میں ایک پل میں اپنی جان تک اُن پر وار دوں آج تک اُنہوں نے مجھے جو بھی حکم دیا ہے میں نے بغیر سوچے سمجھے اُس پر فوری عمل کیا ہے مجھے ایک بھی ایسی بات یاد نہیں جو مرشد کریم نے فرمائی ہو اور میں نے فوری طور پر اُس پر عمل نہ کیا ہو ۔ پہلے تو وہ عورت اشاروں میں با تیں کر تی رہی اور آخر میں اُس نے واضح طور پر کہا کہ پیر صاحب کو تمہا رے جسم پر اُسی طرح کا حق حاصل ہے جو ایک خا وند کو اپنی بیوی پر ہو تا ہے جب اُس عورت نے واضح طور پرمجھے یہ پیغام دیا کہ پیر صاحب میرے جسم کو بھی بطور بیوی استعمال کر سکتے ہیں وہ بھی شادی نکا ح کے بغیر تو یہ بات مجھے سمجھ نہ آئی میں کنفیوژ ہو گئی کہ یہ کونسا طریقہ ہے یا یہ کونسی پیری مریدی ہے یہ مرشد کی کیسی رضا ہے کہ وہ میرے جسم پر بھی اختیار رکھتا ہے وہ بھی اسطرح۔ میں اُس عورت کی باتیں سن کر کچھ پریشان ہو کر گھر چلی آئی کیونکہ میں نے اپنے گھر والوں اور رشتہ داروں کے سامنے پیر صاحب کا تعارف قطب اور موجودہ دور کے زندہ ولی کے طور پر کرا یا ہوا تھا اِس لیے میں ڈر کے ما رے کسی کے ساتھ بھی یہ بات share نہیں کر سکتی تھی اِس طرح میں اور پیر صاحب دونوں کی عزت لوگوں کی نظر میں کم ہو جاتی میں اذیت ناک کشمکش میں مبتلا ہو چکی تھی
ایک سوچ یہ آتی کہ پیر صاحب پر جان اور مال سب قربان ہے دوسری سوچ یہ آتی کہ یہ تو نفسی خواہش اور Lustہے اس کا روحانیت فقیری اور قرب ِ الہی سے کیا تعلق ہے میں گھڑی کے پنڈولم کی طرح ادھر اُدھر جھول رہی تھی بے یار و مددگار بات اتنی حساس تھی کہ کسی سے بھی نہیں کر سکتی تھی دوسری طرف پیر صاحب کی وہ تمام با تیں یا د آتیں کہ اِس سفر پر چلنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لو کہیںسفر درمیان میں ادھورا نہ چھوڑدینا اور کبھی میں یہ سوچتی کہ میں پیر صاحب سے دیوانہ وار عشق کر تی ہوں میرے باطن کے عمیق ترین گوشوں میں پیر صاحب کی محبت کی چنگاری بھی سلگ رہی تھی پیر صاحب کا تصور پکا تے پکا تے پتہ نہیں کہیں میں پیر صاحب کی محبت میں تو گرفتار نہیں ہو گئی تھی اتنی بڑی بات کے بعد بھی ابھی تک مجھے پیر صاحب سے نفرت نہیں ہو ئی تھی میں ابھی بھی اُن کے خلاف نہیں ہو ئی تھی وہ اب بھی میرے من کے دیوتا تھے میرے دل کے مندر میں اُنہیں کی مورتی سجی ہو ئی تھی ایک عجیب سی کشش تھی جو مجھے پیر صاحب کی طرف غیر محسوس طریقے سے کھینچ رہی تھی میری شعوری لا شعوری مزاحمت آہستہ آہستہ ختم ہو تی جا رہی تھی الجھن اور اذیت نا ک کشمکش کی سولی پر لٹکی میں پھر آستانے پر پہنچ گئی مجھے دیکھتے ہی وہی عورت جو پیر صاحب کی وکالت کر رہی تھی میرے پاس پھر آکر بیٹھ گئی اور پھر ادھر اُدھر کی باتیں شروع کر دیں پہلے تو وہ عام باتیں کر تی رہی لیکن جلد ہی وہ اصل مو ضوع پر آگئی اور کہا تم لونڈی بننے کے لیے تیا ر ہو گئی ہو نا ؟میں خا موش نظروں سے اُس کی طرف دیکھتی رہی ۔
میری خاموشی سے اُسے الجھن ہو رہی تھی وہ حیرت اور غصے میں تھی کہ میں ابھی تک انکا ر کیوں کر رہی ہوں یہ تو انکا ر کی بجا ئے سعادت اور بڑے مقام کی بات ہے ۔ اب پھر اُس نے مجھے قائل کر نا شروع کر دیا کہ تم پہلی لڑکی ہو جو انکار کر رہی ہو ورنہ آج تک پیر صاحب نے جس کے لیے بھی خواہش کا اظہار کیا کسی نے بھی انکار نہیں کیا بلکہ خو شی خو شی پیر صاحب کے حرم کا حصہ بن گئی کیونکہ میرے دل و دما غ میں ابھی کشمکش کی جنگ جا ری تھی میری آنکھیں اور چہرہ ہر قسم کے تاثر سے عاری تھا میں خا موش سپا ٹ نظروں سے اُس کو دیکھ رہی تھی میرے اِس روئیے سے عورت پر یشان ہو گئی کیونکہ اُسے شاید یہ ٹاسک دیا گیا تھا کہ اِس کو منا کر ہی چھوڑنا ہے اِس لیے وہ ہر طرح سے اِس کو شش میں تھی کہ میں ہاں کر دوں جب اُس نے بہت ساری باتیں اور دلیلیں دے دیں اور میں پھر بھی خا موش رہی تو وہ اٹھی اور جا کر دو عورتوں کو لے آئی اور میرے سامنے بٹھا کر بولی تم جانتی ہو یہ دونوں عورتیں بھی پیر صاحب کی لونڈیاں بننے کی سعادت حاصل کر چکی ہیں دونوں نے مجھے قائل کر نا شروع کر دیا کہ یہ تو بہت بڑی خوش قسمتی ہے یہ اعزاز اور کرم تو مقد ر والیوں پر ہو تا ہے تم تو کفرانِ نعمت کر رہی ہو جب تک پیر صاحب نے ہمیں اپنا یا نہیں تھا ہم بھی اندھیروں میں ٹامک ٹویاںما ررہی تھیں مشکلات کے صحرامیں ٹھوکریں کھا رہی تھیں جیسے ہی پیر صاحب کی خاص نظر ہم پر پڑی سارے اندھیرے دور اور مشکلات ختم ہو گئیں میں نے پو چھا آپ کی مشکلات کیا تھیں
تو پتہ چلا ایک ایسی ساس کے ہاتھوں تنگ تھی جبکہ دوسری کی شادی نہیں ہو تی تھی ان دومسئلوں کے لیے دونوں نے اپنی عزت پیر صاحب کے قدموں پر وار دی میں نے اُنہیں بتا یا کہ مجھے تو دنیاوی کو ئی مسئلہ نہیں ہے اِس لیے میرا دل نہیں مانتا تینوں عورتوں نے بہت زور لگا یا لیکن میںواپس آگئی اسی طرح دو تین بار پھر گئی اور انکا رہی کیا اب جب میں چند دن بعد گئی تو وہی عورت مجھے ملی کہ اگر تم ہا ں نہیں کر تی تو آج کے بعد پیر صاحب کے در پر کبھی نہیں آنا تم گستاخ ہو اور پیر صاحب تمہیں اپنی مریدی کی لسٹ سے خارج کر تے ہیں ۔ پیر صاحب کی ناراضگی کا سن کر میرے پا ئوںکے نیچے سے زمین ہی سرک گئی میں شدید پریشانی میں گھر آگئی کیونکہ میں مرشد صاحب کی پو جا کر تی تھی اُ ن کی نا راضگی سے میری روح چھلنی چھلنی ہو گئی میں دن رات کا نٹوں پر لیٹی ایک پل بھی قرار نہ آیا ۔
اب میرے اندر پیر صاحب کی خو شی اور ناراضگی کی اذیت ناک جنگ جا ری تھی میں اذیت کے یہ پل زیادہ دیر برداشت نہ کر سکی پیر صاحب کی نا راضگی نے میرے ہو ش و حواس کو شل کر دیا تھا میرے دن کا چین اور رات کی نیند اُڑ چکی تھی میں اِس دبائو کو زیادہ دیر برداشت نہ کر سکی اورپھر میں ہا ر گئی اور میں نے فیصلہ کیا کہ پیر صاحب کی خو شی پر میرا تن من ہر طرح سے حاضر ہے اور پھر میں فیصلہ کر کے دوبارہ آستانے کی طرف جا رہی تھی میرے اندر کا فی دنوں سے جا ری کشمکش ختم ہو چکی تھی میرے اعصاب اب نا رمل ہو چکے تھے میں فیصلہ کر چکی تھی کہ پیر صاحب کی رضا اور خو شی کے لیے میں آخری حد سے بھی گزر جا ئوں گی پیر صاحب کو کسی بھی صورت ناراض نہیں کر نا ( لعنت ہو ایسی پیری مریدی پر ) اور پھر آستانے پر جا کر میں نے اُس عورت کے سامنے شکست مان لی اور کہا میں پیر صاحب کی لونڈی بننے کے لیے تیا رہوں۔
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956