تحریر : رقیہ غزل
گزرا زمانہ اچھا تھا کہ ان دنوں ذمہ داران اور بادشاہ عذاب الہی اور حسابِ الہی سے کسی حد تک خوفزدہ رہتے تھے یہی وجہ تھی کہ وہ رعایا کے حالات معلوم کرنے کے لیے بھیس بدل کر اپنی ریاست کا گشت کیا کرتے تھے اس طرح نہ صرف انھیں اپنی اصلاح کا موقع ملتا تھا بلکہ وہ عوام کے لیے بھی خوشحالی کا باعث بنتے تھے اس طرح وہ خوشحالی اور رزق کی فراوانی کے باوجود بے شمار اخلاقی و معاشرتی برائیوں سے دور رہتے تھے یہی وجہ ہے کہ ایسے حکمرانوں کی ریاستیں قابل رشک ہی نہیں قابل مثل بھی ٹھہریںمگر وقت گزر جانے کے ساتھ بادشاہ بھی سہل پسند واقع ہوئے اپنی رعایا کا حال اپنے مشیروں اور وزیروں سے معلوم کرنے لگے اور اپنی اصلاح ان کی آشیر آباد سے کرنے لگے رفتہ رفتہ مسلمان ریاستیں زوال پذیر ہوئیں اور عبرت نگاہ بنیں وقت کا پہیہ تو گھوم گیا مگر فصیل وقت پر ہمارے لیے سبق چھوڑ گیا۔پراتے وقتوں میں ایسا ہی ایک بادشاہ گزرا ہے کہ جس کے دور میںخوشحالی اور امن و سلامتی کا ڈنکا بجتا تھا اس کی ریاست کو بطور مثال پیش کیا جاتا تھا جب چین و سکون حد سے بڑھا تو بادشاہ نے بھی اپناوقت شکار اور محفل آرائی میں گزارنا شروع کر دیااس کے احباب میں امرا ء اور رئوسا شامل ہوئے جو اس کی خوشامد کے گیت گاتے نہیں تھکتے تھے اور بادشاہ سے یہی کہتے تھے کہ آپ کی ریاست تو بے مثل ہے جناب! اب آپ زندگی کی رعنائیوں اور خوبصورتیوں کا بھی مزا لیں نتیجتاً بادشاہ غافل ہوا اور ریاست افراتفری کا شکار ہوگئی۔
بادشاہ کی عیش پرستی میں پورا دربار غرقاں ہوا اور رفتہ رفتہ یہ سہل پسندی اورعیش پرستی دیمک کی طرح ریاست کو چاٹنے لگی بادشاہ کاایک وزیر بہت عقلمند اور مخلص تھا جو کہ ہمیشہ سے بادشاہ کو روکتا تھا کہ ایسے مصاحبوں کی صحبت سے دور رہیں جو آپ کو جہنم کا ایندھن بنا رہے ہیں مگر بادشاہ مست مئے پندار رہا ۔جب ریاست کا یہ زوال پذیر حشر دیکھا تواُس وزیر کو ایک تجویز سوجی اور بادشاہ سے کہا ”عالی جاہ ! آئیں آج گشت کو چلیں تاکہ رعایا سے معلوم کیا جائے کہ جناب کے اقدامات سے عوام کتنے خوش ہیں ”روایت کے مطابق جب رات کو بادشاہ اور وزیر بھیس بدل کر شہر کا گشت کر رہے تھے تو دونوں کا گزر ایک قصاب کی جھونپڑی کے پاس سے ہوا ۔قصاب جھونپڑی کے باہر بیٹھا حقہ پی رہا تھا بادشاہ نے اس سے پوچھا ”بھائی ! سنا ہے تمہارا بادشاہ بہت اچھا ہے توکیا تم سب اس کے راج میں خوش ہو ” قصاب نے فوراً جواب دیا ”ہاں جی !کیا بات ہے ہمارے بادشاہ کی ۔۔اس کے راج میں ہر طرف امن اور چین ہے ،خوشحالی ہی خوشحالی ہے لوگ عیش کر رہے ہیں ،ہر دن عید اور ہر رات شب برات ہے ” ۔بادشاہ اور وزیر یہ باتیں سن کر آگے بڑھ گئے اور بادشاہ نے وزیر سے فخریہ لہجے میں کہا کہ ”اے میرے عقلمند مصاحب تم نے دیکھاکہ ہماری سلطنت میں رعایا کتنی خوش ہے مگر تم کہہ رہے تھے کہ ہمیں فکرمند ہونا چاہیئے ” وزیر نے کہا !”بے شک عالم پناہ ! آپ کا اقبال بلند رہے ”۔اور وقت گزر گیا مگرچند روز بعد وزیر بادشاہ کو پھر گشت پر لیکر چلا آیا اور ان کا گزر پھر اسی مقام سے ہوا۔
بادشاہ نے قصاب سے پوچھا ”بھائی !کیسے ہو ”قصاب نے چھوٹتے ہی کہا ،اجی کیا حال پوچھتے ہو ،ہر طرف تباہی تباہی ہے ،موت سر پہ کھڑی ہے ،اس بادشاہ کے عہد میں ہر کوئی ناخوش ہے ،ہر آدمی دکھی ہے ،ستیاناس ہو اس منحوس کا اور گالیاں بکنے لگا ۔بادشاہ ششدر رہ گیا کہ ابھی چند دن پہلے تو یہ اپنے بادشاہ کی بڑی تعریف کر رہا تھا اور اب ایسا کیا ہوگیا ہے کہ اب اتنا دکھی ہے ۔۔جہاں تک اس کی معلومات کا سوال تھا تو اسے ایسی کوئی اطلاع نہیں تھی ،بادشاہ نے اس سے پوچھا ”بھائی آخر ایسی تباہی و بربادی کی وجہ کیا ہوئی ؟” مگر وہ کچھ بتائے بغیر بادشاہ کو برا بھلا کہتا رہا ۔بادشاہ بہت زیادہ پریشان ہوا اور وزیر کو ایک طرف بلا کر پوچھا معاملہ کیا ہے تمہیں کیوں اس تباہی کی خبر نہ ہوئی اور اس شخص نے آخر کار کیوں یہ سب کہا؟وزیر نے جیب سے ایک تھیلی نکالی اور بادشاہ سے کہا کہ ”جہاں پناہ ! اس میں 100اشرفیاں ہیںجو کہ میںنے دراصل دو دن پہلے اس کی جھونپڑی سے چوری کروا لی تھیں ”۔جب تک اس کی جھوپنڑی میں مال تھا اور اس کا کچھ نہیں لٹا تھا اس کے لیے بادشاہ ،ریاست ،حالات سب کچھ اچھا تھا یہ اپنی طرح سب کو سکھی اور خوشحال سمجھ رہا تھا ۔اب وہ اپنی دولت لٹ جانے سے غمگین ہے اور اسے ہر طرف تباہی اور بربادی ہی نظر آرہی ہے ۔عالم پناہ ! اس واقعے سے میں آ پ کو یہ گوش گزار کرنا چاہ رہا تھا کہ ایک فرد اپنی خوشحالی اور فراوانی کے تناظر میں دوسروں کو خوش دیکھتا ہے جبکہ بادشاہوں اور حکمرانوں کو اپنی رعایا کا دکھ سمجھنے کے لیے اپنی ذات سے نکل کر دور تک دیکھنا اور صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے کوئی خصوصی انتظامات کرنے چاہیئے۔
آج اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ جب اسلاف کی روایات کو قابل اعتنا نہ سمجھا گیا او ر مغربی ادوار کی اندھی نقالی کی گئی تو حالات ابتر سے ابتر ہوتے چلے گئے اور آج ہماری ریاست انتشار و افراتفری و کرپشن کے گرداب میں ہچکولے کھا رہی ہے کہنے کو سب اچھا ہے مگر ان کے لیے جن کو سب اچھا مل رہا ہے کیا چند لوگ کے حالات ریاست کی کامیابی و خوشحالی کی ضمانت ہو سکتے ہیں ؟ کیا موجودہ حالات واقعی ایسے ہیں کہ ترقی اور روشن مستقبل کے گمان میں ہم مست مئے پندار رہیں ؟ یہ وہ راگ ہیں جو ہم سالہا سال سے الاپتے چلے آرہے ہیں مگر بے حس ضمیروں پر کوئی خاطر خواہ اثر نہیں پڑا ۔ موجودہ حکومت عوامی حکومت ہے اور 2014کی کار کردگی کا جائزپیش کیا گیا تھا تو صفر کارکردگی کا ذمہ دار دھرنوں کو قرار دے دیا گیا تھامگر اگرپچھلے سال کی کار کردگی کا جائزہ اگر لیا جائے تو وہ 2014 سے بھی بدترین اعداد و شمار پیش کر رہی ہے اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ یہ عوامی حکومت کے لیے لمحئہ فکریہ ہے !پنجاب میں جرائم کی شرح میں 86فیصد اضافہ ہو گیا ہے اڑھائی لاکھ بچوں سمیت گیارہ لاکھ افراد زہریلا پانی پینے سے جاں بحق ہوگئے ہیں ۔جنوری2015سے نومبر 2015 تک قتل کے 4198،اقدام قتل کے 4805 ،اغواء کے 12328،اغوا براے تاوان کے 73،زیادتی کے 2555،اجتماعی زیادتی کے 211 ،ڈکیتی اور راہزنی کے 16654جبکہ تشدد کے 14673مقدمات درج ہوئے یہ صرف وہ جرائم ہیں جو رپورٹ ہوئے جبکہ دیہی علاقوں سمیت گنجان آباد شہروں میں زیادتی سمیت بعض ایسے سنگین نوعیت کے جرائم سرزد ہوئے جو با اثر مجرموں اور سیاسی پشت پناہی کی وجہ سے مقامی طور پر ہی رفع دفع کر دئیے گئے جبکہ امن و امان کی بحالی کے لیے ایک سو نو ارب 25کروڑ روپے مختص کئے گئے تھے اور پنجاب بھر میں سیفٹی پروگرام کا اجراء اور تھانہ کلچر سے نجات کے لیے 80پولیس سروس سینٹرز کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا مگر تا حال اس پر عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا اور عوام کوڈاکوئوں ،راہزنوں اور قاتلو ں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جبکہ اختیارات میں اضافہ کی وجہ سے پولیس مبینہ طور پر ماورائے عدالت پولیس مقابلوں کے نام پر بعضوں کو خوش کرنے اور بعضوں کے گھر اجاڑنے میں مصروف ہے۔
اگر صحت کے معاملے میں بات کریں تو حکومت نے گذشتہ سال صحت عامہ کے فروغ اور علاج کی سہولیات کے لیے 166ارب 13کروڑ روپے اور ہسپتالوں میں جان بچانے والی ادویات اور آلات کی فراہمی کے لیے 10ارب 82 کروڑ مختص کئے تھے مگر عوام کو نہ سہولیات ملیں اور نہ ادویات مل سکیں بلکہ وینٹی لیٹر جیسی بنیادی سہولیات نہ ہونے کے باعث بچے مسلسل ہلاکتوں کا شکار ہو تے رہے اور زچہ بچہ ہسپتال کی حالت تو اس قدر ناگفتہ بہ ہے کہ ایک ایک بستر پر تین تین مریضہ لیٹی ہیں ،اس پر طرہ یہ کہ پیرا میڈیکل سٹاف اور ینگ ڈاکٹرز بھی سراپا احتجاج رہتے ہیں اوراسی کشمکش میں ڈاکٹرز کا رویہ بھی قابل مذمت رہتا ہے جس کی وجہ سے عوام خوار ہوتے رہتے ہیں مگر قہر درویش بر جان درویش والی بات ہے ۔جبکہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 1000افراد کی آبادی کے لیے کم از کم ایک ڈاکٹر ،200افراد کے لیے ایک ڈینٹیسٹ اورپانچ مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے ایک نرس کا ہونا ضروری ہے جبکہ ہمارے ہاں 2173افراد کے لیے ایک ڈاکٹر اور 400افراد کے لیے ایک ڈینٹیسٹ ہے ۔سب سے بڑی بات کہ لاہور جیسے شہر میں صرف آٹھ بڑے سرکاری ہسپتال ہیں جن میں سارا پنجاب علاج کے لیے آتا ہے جبکہ جنوبی پنجاب میں تو انتہائی کم ہیں اس سے بھی سنگین یہ کہ ان ہسپتالوںمیں بھی نہ آلات کی فراہمی ہے اور نہ ادویات میسر ہیں بلکہ اب تو ڈاکٹرز ادویات ہی وہ تجویز کرتے ہیں جو کہ ہسپتال میں موجودنہیں ہوتیں اور کسی خاص میڈیکل سٹور سے ہی ملتی ہیںکیونکہ ڈاکٹرز کو کمیشن ملتا ہے اور مریض بیچارہ سمجھتا ہے کہ اس کو ایسی خطرناک بیماری لاحق ہوگئی مگر در حقیقت تو دونوں اطراف کمیشن طے ہوتا ہے۔
یہ صورتحال اب تو خیراتی ہسپتال میں بھی سنگینی اختیار کرتی جا رہی ہے ۔دوسری طرف جنوبی پنجاب سمیت دیہی علاقوں میں عوام کا کوئی پرسان حال نہیں شہر پہنچنے سے پہلے ہی اکثر مریض خالق حقیقی سے جا ملتے ہیں ۔دوران زچگی شرح اموات بھی خطرناک صورتحال اختیار کر چکی ہیں جبکہ حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق پانی اور خوارک نہ ہو نے کیوجہ سے ہیپاٹائیٹس ،ہیضہ،کالی کھانسی اور پیٹ کی بیماریوں جیسے وبائی امراض سے سینکڑوں بچے ہر ہفتہ خالق حقیقی سے جا ملتے ہیں ، مگر کوئی قابل قدر اقدام دیکھنے میں نہیں آیا ۔ناقص حکمت عملی کی وجہ سے سارے شہر کا انڈسٹریل ویسٹ ڈائریکٹ دریائے راوی میں ڈالا جا رہا ہے اور اسے مرکزی گٹر کا درجہ دے دیا گیا ہے اور اسی پانی سے سبزیاں اگائی جارہی ہیں شہر کے پانی میں فضلہ ملا ہوا ہے کیونکہ جا بہ جا واٹر سپلائی اور سیوریج باہم ملے ہوئے ہیں مگرتاحال اس کو صاف کرنے کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا ہے ا ور عوام کو گندہ پانی پینے پر مجبور کر دیا گیا ہے ۔کھانے کی اشیا میں ملاوٹ سر عام جاری ہے اس سال کا سنگین ترین پہلو یہ رہا کہ گدھے کا گوشت بیچا گیا اور لاہور جیسا شہر بھی اس کی زد میں آگیا ۔دودھ جو کہ ہر عمر کیلئے اشد ضروری ہے وہ اس حد تک ملاوٹ والا اورلسی کی مانند سر عام بک رہا ہے کہ اسی بنا پر بے شمار بیماریاں پھیل رہی ہیں ،آج کے حکمران شاید دودھ فروشوں سے کوئی سودا کر بیٹحے ہیں کہ فوڈ اتھارٹی بھی بکی ہوئی یا مجبور لگتی ہے یہ تو صحت عامہ کا حال ہے۔
مگر تعلیم کا حال اس سے بھی دگرگوں ہے ۔دی ٹائمز آف ہائر ایجوکیشن ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ کی رپورٹ کے مطابق ایشیا کی سو بہترین جامعات میں ایک بھی پاکستان کی یونیورسٹی شامل نہیں ہے ۔اقوام متحدہ کا ادارہ یونیسکو ترقی پزیر ممالک کو کم ازکم جی ڈی پی کا 4فیصد مختص کرنے کی سفارش کرتا ہے جبکہ ہمارے ہاں صرف دو فیصد خرچ کیا جاتا ہے جس کا 70فیصد عملے کی تنخواہوں کی نذر ہوجاتا ہے اس پر یہ کہ پنجاب بھر میں 15000گھوسٹ سکولز ہیں ،سات ہزار سکولوں کی عمارتوں کو خطرناک جبکہ نوسو کو انتہائی خطرناک قرار دے دیا گیا ہے جبکہ ہزاروں سکول بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور ہزاروں ایسے بھی ہیں جن کے در و دیوار کی حالت کے پیش نظر انھیں خطرناک قرار دے کر بندکر دیا گیا ہے میرٹ کے نہ ہونے کیوجہ سے ایسے اساتذہ کی بھرمار ہے جن کی بدولت بچے تعلیم سے بد ظن ہو رہے ہیں نتیجتاً تجارت کے نام پر قائم پرائیوٹ سکولوں کا بول بالا ہے جو کہ دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے اور عوام اپنے بچوں کو وہاں پڑھانے پر مجبور ہیں۔ آج کے کسان کھیتوں کی بجائے سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں اور ان پر دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کئے گئے ہیں مگر مسائل کا حل نہیں کیا گیا ۔اس سے بڑھ کر زیادتی کیا ہوگی کہ ٹریکٹر سمیت تمام زرعی آلات اور ادویات پر 17فیصد جنرل سیلز ٹیکس عائد کیا گیا ہے جبکہ دنیا بھر میں سبسٹدی کا ایک نظام ہے۔
مگر ہمارے ہاں اس کو ختم کر دیا گیا ہے ۔حکومت نے گذشتہ تین سالوں سے زراعت پر کوئی پروموشن پالیسی نہیں بنائی اور منسٹری آف فوڈ اینڈ ایگری کلچر کو ختم کر دیا گیا ہے ۔190روپے گندم کی خریداری کے لیے مختص کئے گئے تھے جس سے چالیس لاکھ ٹن گندم خریدنا تھی لیکن آج کا کاشتکار گندم لئے گھر بیٹھا ہے اور1300روپے سپورٹس پرائس کی بجائے900تا 1100روپے اوپن مارکیٹ میں فروخت کرنے پر مجبور ہے ۔غلّہ ڈیلرز کسان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں ۔ریٹ کم ،تول میں بد دیانتی ،اضافی ریٹس اور پھر ادھار یہی وجہ ہے کہ کسان ہر فصل پر کم از کم 10ہزار روپے فی ایکڑ نقصان میں جا رہا ہے کسان اور مزارعوں کے گھر صف ماتم بچھی ہوئی ہے ،حکومت نے صرف26لاکھ ٹن گندم خریدی اور مراکز کو بند کر دیا آج کسان کو حکومتی مقرر کردہ پرائس نہیں مل رہی ۔86فیصد شوگر ملزحکمرانوں اور سیاستدانوں کی ہیں ان کے ذمے بھی کسانوں کے اربوں روپے واجب الادا ہیں ۔کسی توسط سے تو تو رقم مل سکتی ہے مگر ملک کے مالک حکمرانوں سے وصولی کرنا کسان کے بس کی بات نہیں ۔الغرض آج کا کسان پریشان اور زراعت سسک رہی ہے۔
ایسے میں ترقیاتی منصوبوں پر قرضہ در قرضہ لیکر پانی کی طرح پیسہ بہایا جا رہا ہے اور سڑکوں کو کاٹا جا رہا ہے اونے پونے داموں لوگوں کی اراضی چھینی جا رہی ہے ۔اہم عمارات کو مسمار کیا جا رہا ہے ۔سڑکوں کے جال جیسے جیسے بڑھ رہے ہیں کرایوں اور عوام کی پریشانیوں میں اضافہ ہو تا جا رہا ہے ایک عجیب انتشار ،افراتفری اور بے چینی کا عالم ہے مگر مقام افسوس ہے کہ کوئی وزیر با تدبیر حقیقی عوامی حالات ملک کے ذمہ داران تک نہیں پہنچاتا جبکہ قبل ازیں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے گڈ گورننس کے فقدان کو محسوس کرتے ہوئے اور ملکی حالات کی گرانی کے سبب گڈ گورننس کی ضرورت پر زور دیا تھا اس کے بعد چیف جسٹس صاحب نے بھی واشگاف الفاظ میں دگر گوں حالات پر تشویش کا اظہار کیا تھا ۔سب ہی جانتے ہیں کہ ملک کس صورتحال سے دوچار ہے ایسے میں یہ نعرہ کہ ہم ترقی کے دہانے پر کھڑے ہیں اور منزل قریب ہے کیا یہ کھلا تضاد نہیں ؟ خدا بار بار موقع نہیں دیتا! وہ کبھی دیکر آزماتا ہے اورکبھی لیکر آزماتا ہے ۔حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے رعایا کے حالات کا جائزہ لیں کیونکہ اقتدار اعلیٰ کے مالک نے اس عطا کردہ حکمرانی کا حساب اس اُن سے لینا ہے نہ کہ ماتحتوں سے۔
تحریر : رقیہ غزل