تحریر: میر شاہد حسین
ویسے تو میں کرکٹ میچ اب نہیں دیکھتا لیکن کسی زمانہ میں میچ دیکھنے کا شوق جنون کی حد تک تھا ۔ اس شوق اور جنون میں اس وقت کمی آنا شروع ہوئی جب کچھ شعور بیدار ہوا اور میچ فکسنگ کے اسکینڈل نے سر اٹھانا شروع کیا تو اندازہ ہوا کہ ہم بیوقوفوں کی طرح جس میچ کو دیکھ رہے ہیں وہ تو ایک ڈرامہ ہے جو پہلے سے لکھا جا چکا ہے کہ کیا کیا ہونا ہے؟ جس طرح نوراکشتی کی ریسلنگ کو امریکہ میں بہت شوق سے دیکھا جاتا ہے۔ اسی طرح ہم بھی جانتے بوجھتے ایسے میچ دیکھنے بیٹھ جاتے ہیں۔
خیر ذکر ہو رہا تھا کرکٹ میچ کا اور حال ہی میں ایشیا کپ میں جب بھارت اور پاکستان مدمقابل تھے تو میں اس میچ کو وقت گزاری کیلئے دیکھنے بیٹھ گیا۔ لیکن دلچسپ بات اس وقت سامنے آئی جب میری بیگم نے مجھے اس وقت ٹی وی بند کرنے کو کہا جب پاکستان کی وکٹیں یکے بعد دیگرے گرتی چلی گئیں۔ لیکن میں نے ان سے کہا کہ یہ تو میچ کا حصہ ہے ، جب پاکستان جیت رہا تھا تو آپ خوشی سے دیکھ رہے ہوتے ہیں اور جب ان کی باری آئی تو آپ ٹی وی بند کر رہے ہیں۔ اب میری اس میچ میں دلچسپی اور بڑھ گئی کیونکہ اب میں اپنے عدم برداشت کے رویے کو چیک کرنا چاہتا تھا۔ اگر آپ بھی عدم برداشت کا شکار ہیں تو میں آپ سے بھی یہی کہوں گا کہ ایسے میچز کو دیکھیں اور اپنے اندر برداشت پیدا کریں۔ یہ کہنا بہت آسان لیکن کرنا بہت مشکل ہے لیکن منزل مشکلات سے گزر کر ہی ملا کرتی ہے اور ہم آسانی کے قائل ہیں۔
ایسا ہی ایک اور واقعہ کچھ دن پہلے میرے ساتھ رونما ہوا جب میں ایک سیاستدان کو ٹی وی پر سن رہا تھا تو میرے پیچھے سے میرے دوست نے مجھے یہ کہہ کر ٹوکا کہ اسے مت سنو دماغ خراب ہوگا۔ میں نے مسکرا کر اس کی بات سنی ان سنی کردی کیونکہ میں جانتا تھا کہ وہ بھی عدم برداشت کا شکار ہے اور اپنے مخالف کو سننا پسند نہیں کرتا میرے ایک دوست فیس بک بہت استعمال کرتے ہیں۔ ایک دن میں نے ان سے پوچھا کہ اس سے فائدہ کیا ہوتا ہے؟ تو کہنے لگے ہم اپنی بات دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ تو میں نے اگلا سوال یہ پوچھا کہ بتاؤ تمہارے دوستوں کی فہرست میں کون کون لوگ شامل ہیں۔ بڑے فخر سے بتانے لگے کہ سب میرے ہم خیال دوست ہیں۔ میں نے ہر نئے شخص کو بلاک کررکھا ہے۔ تو میں نے مسکرا کر کہا تو اس طرح تم اپنے دوستوں اور ہم خیال لوگوں میں اپنی باتیں گوش گزار کررہے ہو جو پہلے ہی تمہارے ہم خیال ہیں۔ اپنے کنویں میں ٹر ٹر کرکے اور خود کو عدم برداشت کے خول میں بند کرکے ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم دنیا کے خیالات کو بدل رہے ہیں تو شاید ہم کسی کو نہیں اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔
ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہماری بات سنیں لیکن ہم خود کچھ سننے کیلئے تیار نہیں۔ جہاں کوئی آپ کی بات میں ہاں میں ہاں ملائے گا آپ اسے اپنا دوست سمجھیں گے اور جہاں اس نے نفی کی آپ نے اس کو اپنا دشمن گرداننا شروع کر دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ عدم برداشت ہم میں کیسے پیدا ہوتا ہے؟اور کیا اس سے چھٹکارا بھی ممکن ہے کہ نہیں؟ اسلام نے برداشت کا سبق آج سے چودہ سو سال پہلے ہمیں دیا تھا اور صرف سبق ہی نہیں دیا بلکہ ثابت بھی کرکے دکھایا تھا۔ وہی عرب جو صدیوں سے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے آپس میں انصار اور مہاجر اس طرح اخوت کی لڑی میں پرو گئے کہ جو رہتی دنیا کیلئے مثال ہیں۔ پھر فتح مکہ کے انقلاب کی مثال ہمارے لیے برداشت کا وہ بہترین نمونہ ہے جو دنیا نے آج تک نہیں دیکھا۔ فتح مکہ کے بعد ہر ایک کو عام معافی مل گئی ۔
حضرت علی کا ایک دشمن سے مقابلہ ہوا اور آپ اس پر حاوی ہوگئے اور پھر جیسے ہی اس پر تلوار چلانے لگے دشمن نے اُن پر تھوک دیا ۔ اسی وقت آپ اسے چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ دشمن حیران رہ گیا اور اس عمل کی وجہ دریافت کی۔ آپ نے فرمایا کہ ہم اﷲ کیلئے لڑتے ہیں۔ لیکن جب تم نے مجھ پر تھوکا تو مجھ میں تمہاری ذات کیلئے غصہ پیدا ہوا اور اگر اب میں تم پر تلوار چلاؤ تو میں اﷲ کیلئے نہیں اپنی انا کی تسکین کیلئے چلاتا۔ یہ ہے عدم برداشت کی طاقت جسے ہم کمزوری خیال کرتے ہیں۔
نیلسن منڈیلا 27 سال انگریزوں کی قید میں رہے۔ ان 27 برسوں میں 6 سال وہ قید تنہائی بھی شامل تھی جس میں انہوں نے باہر کی کوئی آواز نہ سنی اور نہ ہی انہوں نے باہر کا آسمان دیکھا۔ یہ ایک ایسی اذیت ناک قید تھی کہ جس کا تصور بھی محال ہے کجا یہ کہ معافی کا سوچا جائے لیکن نیلسن منڈیلا نے اس قید سے باہر آتے ہی ان سب لوگوں کو معاف کر دیا کہ جنہوں نے اس پر مظالم کے پہاڑ توڑے تھے۔اس نے اقدار میں آتے ہی نہ صرف انگریز عملہ کو اپنی جگہ پر بحال رکھا بلکہ اپنی سیکوریٹی تک کیلئے انہیں اپنی جگہ پر تعینات رکھا اور اس طرح ان کی سیکورٹی انگریز عملہ ہی سرانجام دیتا رہا جو ایک انتہائی مشکل فیصلہ تھا لیکن انہوں نے اپنے عدم برداشت سے یہ سب کر دکھایا۔
عدم برداشت وہ بیماری ہے کہ جس کاتریاق اس کے اپنے زہر کے اندر ہے۔ اگر آپ میں عدم برداشت ہے تو آپ اپنے مخالفین کو سننا شروع کردیں جس حد تک سن سکتے ہیں، اپنی باری کا حق چھوڑ کر دوسرے کو اپنی باری دینا شروع کر دیں۔ جس نے آپ کے ساتھ زیادتی کی ہے کم از کم آپ دل میں اسے خیال کرکے معاف کریں۔ پھر دیکھئے آپ میں برداشت کی قوت میں اضافہ ہونا شروع ہوجائے گا۔ آغاز میں یہ تھوڑا مشکل ضرور ہوگا لیکن میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جیسے جیسے آپ آگے بڑھتے جائیں گے آپ کی طاقت میں روز بروز اضافہ ہوتا جائے گا۔ یاد رکھئے عدم برداشت کی بیماری دوسروں کو کم آپ کو زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔
اگر میں آخر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ مذہب سے دوری بھی عدم برداشت کو جنم دیتی ہے۔ مذہب ہمیں حق چھیننا نہیں بلکہ حق دینا سکھاتا ہے۔ ایک حدیث کے مطابق جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ اگر تم جانتے بوجھتے اپنے حق کو چھوڑ دو کہ( فساد پیدا نہ ہو) تو اﷲ کے ہاں تم اس کا بہترین اجر پاؤ گے۔ جس زندگی میں خدا کی خدائی کا کوئی وجود نہ ہو تو اس زندگی کے متعلق تو میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں۔
خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے
کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے
تحریر: میر شاہد حسین