تحریر : مریم چوہدری
آج ہمیں بارش کا پہلا قطرہ بننا ہے تم کچھ دیر رک جاوئ ابر ہونے تک 14 اگست کا دن صرف جشن منانے کی حد نہیں ہونا چاہیئے، بلکہ اس روز بچوں کو تحریک پاکستان کی اہمیت، ہجرت اور قربانیوں کی لازوال حقیقت سے آگاہ کیا جانا ضروری ہے۔ نوجوان کرکٹرز بچپن میں منائے جانے والے جشن ا?زادی کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب تو کھیل نے مصروف کر دیا ہے، لیکن اس دن کی اہمیت کو نہیں بھلا یا جا سکتا۔ کرکٹرز کا کہنا ہے کہ آزاد وطن کی ا?زاد فضا میں لہراتا ہوا، سبز ہلالی پرچم ان کے جوش و جذبے میں اضافہ کر دیتا ہے لفظ آزادی ہر انسا ن کے لئے چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، امیر ہو یا غریب، مرد ہو یا عورت، چھوٹا ہو یا بڑا سب کے لیے ایک یکساں اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ لفظ آزادی اردو یا ہندی کا ہے جسکے معنی نجات یا چھٹکارہ کے ہیں ہر عاقل، بالغ اور باشعور انسان لفظ آزادی کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا۔
انسان کی تخلیق سے لے کر آج تک اس آزادی کے لئے بڑے بڑے معرکے لڑے گئے اور ان گنت افراد کے خون سے آزادی کی تحریکوں کا آغازوانجام ہوا۔ انسان تو انسان حیوان بھی آزادی کے لئے لڑ مرنے کو تیار ہوتا ہے اگر کسی پرندے کو کسی پنجرے میں قید کر دیاجائے تو کھانا پینا تو اسے پنجرے کی حد تک بھی میسر آسکتا ہے لیکن وہ کھانے کی آزادی اسے نصیب نہیں ہوتی جو پنجرے کے باہر ہوتی ہے۔ شاید اسی چیز کو دیکھتے ہوئے ہو اپنے پروں کو پھڑپھڑا کراپنی آزادی کے لئے کوشش کرتا ہے اور موقع ملتے ہی آزادی کی راہ لیتا ہے۔ اسی طرح جب کسی مجرم کو قاضی کی عدالت سے قید کی سزا ملتی ہے تو وہ بھی اپنے شب و روز اسی آس میں بسر کرتا ہے کہ ایک دن رہائی اسکا مقدر بے گی۔
آج دنیا میں بہت سی تنظیمیں مختلف قسموں کی آزادی کے لئے کوشاں ہیں کچھ مذہب کی آزادی کے لئے تو کہیں آزادی نسواں کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہیں اور کچھ اقوام کو آزادی کا حق دلوانے کے لئے کوشاں ہیں۔اللہ رب العزت نے انسان کو اسکی ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا کیا ہے یعنی انسان کوآزادی کا حق پیدائشی اور بنیادی ہے اگر یہ حق انسان سے چھین لیا جائے تو وہ بند پنجرے میں قید اس جانور جیسا ہو جاتا ہے جس کے اوپر اس کا نہیں بلکہ اس کو قید کرنے والے کا حکم چلتا ہے۔ 14 اگست 1947ئ میں پاکستانی عوام کو انگریزوں اور ہندؤں سے نجات ملی اور پاکستان کے نام سے دنیا میں ایک نئی ریاست کا وجود عمل میں آیا۔
اس ماہ میں پاکستانی عوام مختلف طریقوں سے آزادی کی خوشی مناتی ہے۔ گھر گھر، گاؤں گاؤں، شہر شہر، کو پاکستانی جھنڈے اور جھنڈیوں سے سجایاجاتا ہے، مسجدوں میں نوافل ادا کئے جاتے ہیں پاکستان کی لمبی عمر کے لئے دعائیں کی جاتی ہیں۔ ہر چھوٹے بڑے کو جشن آزادی کی مبارک دی جا تی ہے اور اپنے رب سے دعا کی جاتی ہے کہ پاکستان کو بری نظر سے بچائے۔ ان سب کچھ میں پاکستانی عوام کا کتنا جوش و خروش ہوتا ہے یہ دیکھنے کے لائق ہوتا ہے اور یہ سب کچھ کرنے کا پاکستانی عوام کو حق حاصل ہے کہ وہ آزادی کی اس خوشی میں اپنے رب العزت کے شکر گزار ہوں جس نے ہمارے آبائواجداد کو آزادی کی جنگ لڑنے کی توفیق بخشی اور ان میں یہ قربانی کا جذبہ پیدا کیا کہ وہ اپنے آنے والی نسلوں کو آزاد کر جائیں اوران کے لئے ایک محفوظ خطہ حاصل کریں اور اللہ تعالٰی نے انکی یہ قربانی رائیگاں نہیں جانے دی جس کی بدولت آج ہم آزاد ہیں اور اگر کسی کو آزادی کی نعمت کے بارے میں پتہ کرنا ہے تو ان قوموں کے افراد سے پوچھے جو آزادی میں ایک سانس لینے کے لئے تڑپ رہے ہیں۔
شاعری میں کیا خوب کہا ہے ہزار نطقِ سخن ہوں نثارِ آزادی دل و نظر میں ہے اب تک خمارِ آزادی یہی متاعِ محبت، یہی مآلِ وفا نگارِ غاز? محنت، عذارِ آزادی جناح و جوہر و اقبال اور سرسید یہی محرّک و دار و مدارِ آزادی وطن سے جائیے باہر تو ساتھ رہتے ہیں اک عطر بیز سی خوشبو، حصارِ آزادی بس ایک ہم ہیں کہ خوش ہیں بنالیے ہم نے مزارِ قائدِاعظم، مَنارِ آزادی انہی سے پوچھیے آزادی کیسی نعمت ہے بھٹک رہے ہیں جو قرب و جوارِ آزادی ہمارا جینا و مرنا وطن کی خاطر ہو دعائے دل ہے یہ پروردگارِ آزادی کہ ساٹھ برسوں میں ہم نے بھلادیے محمود وفا، خلوص و مروّت، وِقارِ آزادی اس سے پہلے کہ حالات کا پنجہ ہمارے گریبان تک پہنچے ہمیں ان کو سلجھانا ہے۔کیا ہم سیل رواں کے بہتے دھارے پر رکھی ہوئی کائی کی طرح حالات کی موجووں کے تھپڑے کھاتے ہوئے کسی انجانے گرداب میں اپنا وجود کھوجائیں گے؟ نہیں!ہم تو طلاطم خیز موجووں کا سینہ چیرنے والے ایسے سفینے ہیں جو خیر وعافیت کے کنارے کی طرف گامزن ہیں۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے سامنے میری عمرسے دوگنا بڑے شخص کے سوال نے جب مجھے حیرت میں ڈال دیا تھا۔ گوہر صاحب ! میںنے ساری زندگی اس وطن عزیز کی خدمت کی ہے۔
ایک مشہور کالج میں طلبا و طالبات کوہسٹری پڑھاتا رہا ہوں ،اب ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہا ہوں، ہمارا کیا بنے گا؟ اب ہم کونسی ہسٹری لکھ رہے ہیں اور اب اور کتنا خون بہناباقی ہے ؟ میری زبان انکو جواب دیتے ہوئے کنگ ہوگئی۔ اس وطن عزیز کو کس کی نظر لگ گئی ہے اس کشتی کو منجھدار سے کون نکالے گا؟ ہاں ہمیں اب خواب خرگوش سے جاگنا ہے اور حالات کو سلجھانا ہے اور اپنا ذاتی کردار اپنے اپنے مقام پر رہتے ہوئے اداکرناہے۔ اب مزید کنارہ کشی کے اہل نہیں ہیں، پہلے ہی اپنے کیے کی بھگت رہے ہیں، جہاں ہم سب اپنی اپنی بولیاں بولتے ہیں وہاں ہمیں اس بات کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ دنیا کے نقشہ پر ہم ایک ملک و قوم کی حیثیت سے اپنی شناخت رکھتے ہیں اور ہمیں اس شناخت کو بھی برقرار رکھنا ہے۔ ہم ایک قوم ہیں مگر اپنی ثقافت روایات، تہذیب و تمدن ہے جو اغیار کی نظر میں کھٹک رہا ہے۔ اپنے وجود کی شناخت کے ہم خود ذمہ دار ہیں۔بیرونی اندیشوں اور اندرونی خلفشاروں کا ایک ہی حل ہے کہ ہم ایک قوم کیطرح سوچیں، ہمیں بارش کا پہلا قطرہ بننا ہے جو اس سرزمین وطن کو سیراب کردے۔ ہم تو ایک سیسہ پلائی ہوئی مضبوط دیوار ہیں ہر اینٹ دوسری اینٹ کو جوڑے ہوئے ہے ایک وجودکا۔
تحریر : مریم چوہدری