تحریر : شہزاد حسین بھٹی
باہمی اتحاد اور اتفاق ایک ایسی نعمت ہے جس سے زندگی سنورتی ، نکھرتی اور بلند و بالا ہوتی ہے۔اتفاق کے اند ر اس قدر عظمتیں ، اس قدر خوبیاں اور اس قدر برکتیں ہیں کہ ان سے نہ کوئی انسان انکار کر سکتا ہے اور نہ کوئی قوم ۔ یہ ایک تاریخی صداقت ہے کہ جس قوم کے افراد محبت کے رشتوں میں مربوط ہوئے ہیں وہ قوم عزت کی بلند ترین سطح تک پہنچ جاتی ہے اور جس قوم کے افراد نا انصافی کا شکار ہوتے ہیں اس قوم کی ہوا اُکھڑ جاتی ہے اور اس کا نام تاریخ میں عبرت کا نشان ہو جاتا ہے ۔ تاریخ نے اتفاق و اتحاد کے ایسے بہت سے واقعات محفوظ کر رکھے ہیں جنہیں پڑھ کر آج بھی ہمارا ایمان تازہ ہو تا ہے ہمیں ایک قلبی راحت ملتی ہے اور اتفاق کا جذبہ کروٹیں لیتا ہے۔
ہمارا روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ گھاس کا ایک تنکا دنیا کی ایک کمزور ترین اور حقیر ترین چیز ہے یہاں تک کہ دو اُنگلیاں بھی اسے مسل کے رکھ دیتی ہیں مگر گھاس کے تنکے جب باہم مل کر ایک رسی بن جاتے ہیں تو اس رسی کو توڑ نے میں بسا اوقات انسانی طاقت بھی بے بس ہو جا تی ہے یہ باہمی اتفاق کا کرشمہ ہے کہ گھاس کے بے جان تنکے بھی اتفاق کی بدولت استحکام اور قوت کا ایک مظہر ہو جاتے ہیں اور خیال کرنا چاہیے کہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے۔
اگر اتفاق ایسی دولت ہے تو وہ بہرہ ور ہو گا تو پھر اس قوت بازو اور قوت یقین کا اندازہ کون کر سکے گا وہ ایک فولادی دیوار ہوگا جس سے ٹکرانے والا خود بکھر جائے گا۔ دور حاضر میں مہذب ملک جس قدر ترقی کر رہے ہیں اور عالمی سطح پر ہمیں تہذیب و ارتقاء کی جو بلندی نظر آرہی ہے اس کی تہہ میں اتفاق کا یہی جذبہ کارگر ہے ۔ بد قسمتی سے ہمارے دشمن ہمارے اندر سے اتحاد و یگانگت ختم کر کے ہمیں پارہ پارہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
ہمارے ہاں لسانی بنیادوں پر مذہبی بنیادوں پر رنگ و نسل کی بنیادوں پر تقسیم کر دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارا اتحاد عملاً ختم ہو چکا ہے اور ہم ہر طرف بکھرے بکھرے نظر آرہے ہیں ہمارے ملک میں دہشت گردی چاہے وہ مذہبی ہو یا سیا سی سب کے پیچھے ایک ہی نقطہ ہے کہ ہم آپس میں تقسیم ہیں اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو چکے ہیںاپنی بات پر ڈٹ کر کسی دوسرے کا نقطہ نظر سننے کے لیئے تیارنہیں ہیںیہ سب نفاق ہمارے دشمن کے ساتھ ساتھ ہمارے اپنوں کا پیدا کردہ ہے۔ہم اپنے دشمنوں سے تو باخبر ہیںلیکن ہمارے صفوں میں چھپے ہوئے منافق ہمیں جو نقصان پہنچا رہے ہیںہم ان سے بے خبر ہیں۔
شاکر شجاع آبادی نے سرائیکی میں کیا خوب فرمایا ہے کہ
خُدا نہ شاکر او ڈین دکھاوے
نصیب ساتھوں چامکھ وٹاوے
شیطان کولوںمیں آپ بچساں
منافقاں تو ں خُدا بچاوے
ترجمہ : میرا خدا شاکر کو وہ دن نہ دکھلائے جب میرا نصیب مجھ سے روٹھ جائے شیطان سے تو میں خود کو محفوظ کر لوں گا مگر میرا خدا مجھے منافقوں سے محفوظ رکھے۔ہمیں ہماری صفوں میں چھپے ہوئے منافقوں کو بے نقاب کرنا ہوگا جو ہمارے اتحادکاشیرازہ بکھیر رہے ہیںاور درپردہ سازشوں کے جال بن کر ہمارے وطن عزیز کو کمزور سے کمزور تر کر رہے ہیں۔
پاک و ہند کی تاریخ میر جعفر اور میر صادق جیسے غداروں سے بھری پڑی ہے ۔آج بھی کراچی کی صورتحال میں ایسے منافق شامل ہیںجو ہمارے ملک کے خلاف بیرونی طا قتوں کا آلہ کار بنے ہوئے ہیںایسے ضمیر فروشوں کو اپنی صفوں سے نکالنا ہو گا ایسے سیاسی پنڈتوں کا صفایا کرنا ہوگا جو بظاہر پاکستانی عوام کو خاص کر کراچی کے عوام کو گمراہ کیے ہوئے ہیںاور دہشت گردی کے ذریعے ملک دشمن بد نام زمانہ ایجنسی راء سے مدد کے طلب گار ہو رہے ہیںاب تو ان کے مکروہ چہرے سے پردہ ہٹا دینا چاہیے ۔یہ حکومت وقت کا کام ہے کہ وہ سیاسی مصلحتوں سے باہر آکر ان بڑے بڑے معزز دہشت گردوں کے خلاف گھیرا تنگ کر دے جو کراچی میں امن و اتحاد کے دشمن ہیں اور لسانی بنیادوں پر مسلمان کو مسلمان سے لڑا رہے ہیں۔
تحریر : شہزاد حسین بھٹی