counter easy hit

اللہ کے محبوب نمازی

اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں میں انبیائے کرام ،صحابہ کرام اور اولیاءاللہ پیں ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی رحمت خاص سے نوازا بلکہ ان پر اپنا آپ ظاہر کیا اور انہیں مقام عبدیت سے سرفراز کیا ۔ ان محبوب ہستیوں نے اللہ تعالیٰ کی بے حد عبادت کی ان کی نماز میں بے پناہ محویت اور خشوع و خضوع تھا ان مقربان خدا کی نمازوں اور عبادت کی کیفیت کا مختصر تذکرہ حسب ذیل درج ہے ۔

God's Beloved worshiper

God’s Beloved worshiper

رسول خدا ﷺ کی نماز :رسول اکرم ﷺ اعلان نبوت سے پہلے بھی غار حرا میں کافی عرصہ عبادت الہٰی میں مصروف رہے ۔مگر جب آپ ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا تو آپ کو نماز پڑھنے کا حکم ہو گیا۔ نماز کا حکم پاتے ہی آپ ﷺ اس پر کار بند ہو گئے ۔شروع شروع میں آپ ﷺ چھپ کر نماز ادا کیا کرتے تھے ۔نبی کریم ﷺ کی نماز مثالی ہے آپ ﷺ کی نماز میں حد درجے کی محویت تھی گویا کہ آپ ﷺ کا نماز پڑھنا ہر طرح سے کامل تھا ۔بعض اوقات آپ ﷺ نفلی نمازوں میں خشیت الہٰی سے اشکبار ہو جاتے اور نماز میں اللہ تعالیٰ کی طرف اتنی لگن اور محبت سے متوجہ ہوتے کہ دنیا کے ہر خیال سے بے نیاز ہو جاتے اور حالت نماز آپ بارگاہ رب العزت کے بالکل قریب ہو جاتے ۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور آپ ﷺ جیسی کامل اور مقبول نماز نہ کوئی پڑھ سکا اور نہ کوئی پڑھ سکے گا۔
ابتداءمیں آپ ﷺ رات کے وقت نماز تہجد پڑھا کرتے تھے اور شروع میں آپ ﷺ پر نماز تہجد فرض تھی ۔ اس کے کچھ عرصہ بعد صبح و شام آپ نے دو رکعتیں پڑھنا شروع کر دیں ۔اس کا ذکر قرآن پاک میں یوں ہوا ہے ۔:”صبح و شام اپنے پروردگار کا نام یاد کیا کرو اور رات کے وقت دیر تک اس کو سجدہ کیا کرو اور اس کی تسبیح کیا کرو۔“
مفسرین کا کہنا ہے کہ رات کو اٹھ کر دیر تک نماز پڑھنے کا حکم ایک سال تک باقی رہا اس کے بعد رات کی نماز فرض کی بجائے نفل ہو گئی کیونکہ سورہ¿ مزمل میں ہے ۔”اے میرے محبوب تمہارا پروردگار جانتا ہے تم دوتہائی رات سے کم اور ا ٓدھی رات اور تہائی رات تک نماز پڑھا کرتے ہو ،اور لوگوں کی ایک جماعت بھی نماز میں تمہارے ساتھ ہوتی ہے ،خدا ہی رات دن کا اندازہ کرتا ہے ،اس نے جان لیا کہ تم اس کو گن نہیں سکتے ۔اس لئے تم پر مہربانی کی ،اب تم سے جتنا ہو نماز میں اتنا ہی قرآن پڑھا کرو۔“
تہجد کے نفل ہو جانے کے بعد بھی حضور اکرم ﷺ شب میں کثرت سے نماز پڑھا کر تے تھے اور بڑی بڑی قرا¿ت کیا کرتے تھے ۔بعد میں جب پانچ نمازیں با جماعت فرض ہو گئیں تو آپ نے آخری دم تک اس فریضے کو بڑے احسن طریقے سے سر انجام دیا مکہ شریف سے جب آپ ہجرت کر کے مدینہ شریف میں قیام پذیر ہوئے ۔ تو یہاں آپ نے نظام الصلوة کا مکمل اہتمام کیا ۔
آپ کی نماز میں اتنی عاجزی اور خضوع و خشوع ہوتا کہ اس کی مثال نہیں اس کے متعلق حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت رسول اللہ ﷺ شب میں اس قدر نماز پڑھا کرتے تھے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟
بخاری شریف میں ہے کہ ایک بار ایک شخص نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے درخواست کی کہ حضرت رسول اللہ ﷺ کی کوئی عجیب بات جو آپ نے دیکھی ہو بیان کیجئے۔ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا حضور اکرم ﷺ کی کون سی بات عجیب نہ تھی سب ہی باتیں عجیب تھیں ، چنانچہ ایک شب کا واقعہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور لیٹ گئے پھر فرمایا مجھے چھوڑ دو میں اپنے رب کی عبادت کروں یہ فرما کر نماز کےلئے کھڑے ہو گئے اور رونا شروع کیا ۔ یہاں تک کہ آنسو بہہ کر سینہ مبارک تک آگئے ،پھر رکوع کیا اور رکوع میں بھی اسی طرح روتے رہے ، پھر سجدہ میں بھی گر یہ جاری رہا ۔ اس کے بعد سجدے سے سر اٹھایا تو اس وقت بھی روتے ہی رہے ،یہاں تک کہ بلال رضی اللہ عنہ نے آکر فجر کی نماز کےلئے آواز دی ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ اس قدر روتے ہیں حالانکہ آپ معصوم ہیں حضور ﷺ نے فرمایا تو کیا میں شکر گزاربندہ نہ بنوں۔
حضرت داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب نماز پڑھا کرتے تھے تو ان کے باطن میں دیگ کی طرح جوش ہوتا تھا جس کے نیچے آگ جل رہی ہو۔
آپ نے نماز کے لئے بہت سی تکالیف بھی برداشت کیں ۔بخاری شریف میں ہے کہ ایک دن آپ حرم میں نماز پڑھ رہے تھے اور روسائے قریش بیٹھے تمسخر کر رہے تھے ابو جہل نے کہا کاش اس وقت کوئی جاتا اور اونٹ کی اوجھ نجاست سمیت اٹھالاتا اور محمد ﷺ جب سجدہ میں جاتے تو وہ ان کی گردن پر ڈال دیتا چنانچہ عقبہ نے ابو جہل کی خواہش کے مطابق ایک بڑے اونٹ کی اوجھ لا کر آپ ﷺ کے اوپر ڈال دی اور آپ کو سخت تکلیف اٹھانا پڑی۔
مسلم شریف میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک رات مجھ کو حضور اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا ، حضور اکرم ﷺ نے سورہ بقرہ شروع کی ،میں نے سمجھا آپ سو آیتوں تک پڑھیں گے لیکن جب آپ اس کو پڑھ کر آگے بڑھے تو میں نے دل میں کہا شاید آپ پوری سورہ ایک ہی رکعت میں ختم کرنا چاہتے ہیں چنانچہ جب آپ نے اس سورہ کو ختم کیا تو میں نے خیال کیا اب آپ رکوع کریں گے لیکن آپ نے فوراً سورہ آل عمران شروع کر دی اور وہ بھی ختم ہو گئی تو سورة نساءشروع کر دی ۔حضور اکرم ﷺ بہت ٹھہر ٹھہر کر نہایت سکون و اطمینان سے قرا¿ت فرما رہے تھے ۔ اور ہر آیت کے مضمون کے مطابق درمیان درمیان میں تسبیح اور دعا کرتے جاتے تھے ۔اس کے بعد حضور اکرم ﷺ نے رکوع کیا ۔ رکوع میں بھی قیام کے برابر توقف فرمایا ۔پھر کھڑے ہوئے اور اتنی ہی دیر کھڑے رہے ۔پھر سجدہ کیا اور سجدے میں بھی اسی قدر دیر فرمائی ۔
حضرت عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک رات میں حضرت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا ۔حضورﷺ نے مسواک کی ، وضو فرمایا اور نماز کےلئے کھڑے ہو گئے میں بھی حضور ﷺکے ساتھ نماز میں شریک ہوا ۔حضور اکرم ﷺ نے ایک رکعت میں پوری سورہ بقرہ پڑھ ڈالی ،جہاں رحمت کی آیت آتی ٹھہر جاتے اور دیر تک رحمت کی دعا مانگتے رہتے ۔سورہ کے آخر پر رکوع کیا اور اتنی دیر تک رکوع میں رہے جتنی دیر سورہ بقرہ کی قرا¿ت میں لگی تھی اور رکوع میں سبحان ذوالجبروت والملکوت والعظمة پڑھتے تھے ۔رکوع کے بعد اتنا ہی طویل سجدہ کیا ،دوسری رکعت میں سورہ آل عمران پڑھی اسی طرح ہررکعت میں پوری ایک سورہ پڑھتے رہے ۔
تہجد میں حضور اکرم ﷺ کی قرا¿ت اتنی بلند ہوتی تھی کہ آواز دور تک جاتی اور لوگ اپنے بستروں پر پڑے حضور اکرم ﷺ کی قرا¿ت سنتے ،کبھی کبھی ایسی آیت آجاتی کہ آپ اس کے کیف و اثر میں محو ہو جاتے ۔حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک بار حضور اکرم ﷺ نے نماز میں یہ آیت پڑھی۔”اگر تو ان کو سزا دے تو وہ تیرے بندے ہیںاگر تو ان کو معاف کر دے تو غالب اور حکمت والا ہے۔ “
حضور اکرم ﷺ پر اس آیت کا ایسا اثر ہوا کہ صبح تک یہی آیت پڑھتے رہے ۔ حضور اکرم ﷺ ارکان نماز خوب سکون و اطمینان سے ادا کیا کرتے تھے ۔ نماز کے ارکان میں سب سے کم وقفہ رکوع کے بعد قیام میں ہوتا ہے لیکن حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ رکوع کے بعد اتنی دیر قیام کرتے کہ ہم لوگ سمجھتے کہ حضور ﷺ سجدے میں جانا بھول گئے ۔
خشوع نماز کی روح ہے اور حضور ﷺ سے زیادہ خاشع کون ہو سکتا ہے ؟ حضرت عبد اللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں ایک روز سرکاررسول اللہ ﷺ کے ہاں گیا اس وقت حضور اکرم ﷺ نماز پڑھ رہے تھے اور فرط گریہ سے حضور اکرم ﷺ کے اندر سے ایسی آواز نکل رہی تھی جیسے دیگ کے جوش کرنے کی آواز۔
حضرت مطرب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے دیکھا حضور اکرم ﷺ نماز میں ہیں اور آپ پر گریہ طاری ہے اورسینہ میں گرمی کی وجہ سے ایسی آواز آتی تھی جیسے ہانڈی جوش مارتی ہو۔
شمائل ترمذی میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ایک شب حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر تھے جو ان کی خالہ تھی ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں بستر کے عرض میں لیٹا اورسرکار رسول اللہ ﷺ اس کے طول میں لیٹے اور سو گئے ۔ آدھی رات یا اس سے کچھ پہلے یا اس سے کچھ دیر بعد آپ بیدار ہوئے اور چہرہ مبارک پر ہاتھ مل کر نیند کے اثر کو زائل کیا اس کے بعد آپ نے سورہ¿ آل عمران کے آخر کی دس آیتیں پڑھیں اس کے بعد آپ کھڑے ہوئے اور لٹکی ہوئی مشک کے پاس گئے ۔اس سے خوب اچھی طرح وضو کر کے آپ نماز کے لئے کھڑے ہو گئے یہ دیکھ کر میں بھی اُٹھ بیٹھا اور وضو کر کے آپ کے بائیں پہلو پر کھڑا ہو گیا ، آپ نے اپنا دائیاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور بائیں ہاتھ سے میرا دایاں کان پکڑ کر مجھے (بائیں جانب سے دائیں جانب)پھیر لیا ۔ پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی ۔پھر دو رکعت ،پھر دو رکعت ،پھر دورکعت ،پھر دو رکعت اور پھر دو رکعت (کل بارہ رکعتیں) پھر نماز وتر پڑھی ۔ اس کے بعد آپ لیٹ گئے ۔اس کے بعد مو¿ذن (نماز فجر کی اطلاع دینے آیا تو آپ نے دو ہلکی رکعتیں پڑھیں اور نماز فجر کےلئے باہر تشریف لے گئے ۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت رسول اللہ ﷺ شب میں کچھ دیر سوتے پھر اُٹھ کر نماز پڑھتے پھر سوجاتے ،پھر اٹھ کر نماز پڑھتے پھر سو جاتے ،پھر اُٹھ کر بیٹھتے اور نماز میں مصروف ہو جاتے غرض صبح تک یہی حالت قائم رہتی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے کبھی کسی حالت میں تہجد کی نماز ترک نہیں فرمائی جب کبھی بیمار ہو تے تو بیٹھ کر تہجد کی نماز پڑھتے ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ غزوہ بدر میں سوائے رسول اللہ ﷺ کے رات میں ہر شخص سو تا رہا مگر حضور اکرم ﷺ ایک درخت کے نیچے رات بھر نماز پڑھتے رہے اور روتے رہے یہاں تک کہ آپ نے صبح کر دی۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نماز:آپ کی نماز کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ آپ ابتدائی زمانہ میں بھی اس سوز و گداز کے ساتھ نماز پڑھتے اور تلاوت کرتے کہ قریش کے بیوی بچے متاثر ہو کر آپ کے گرد جمع ہو جاتے اور قریش کو اندیشہ ہو تا کہ کہیں ان کے متعلقین اپنے دین سے منحرف نہ ہو جائیں اس لئے آپ کو نماز پڑھنے سے روکتے اور اذیت پہنچاتے ۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اپنی نمازاور تلاوت اس درجہ عزیز تھی کہ آپ نے قریش کے مظالم سے تنگ آ کر مکہ سے حبشہ کو ہجرت کرنے کےلئے سوچا مگر آپ کو یہ گوارانہ ہوا کہ نماز اور تلاوت ترک کر دیں ۔ آپ حضور اکرم ﷺ سے اجازت لے کر حبشہ جا رہے تھے کہ راستہ میں قارہ کے رئیس ابن دغنہ سے ملاقات ہو گئی ۔وہ آپ کو مکہ واپس لایا اور آپ کے فضائل بیان کر کے قریش کو ملامت کی کہ تم نے ایسے شریف اور نیک دل انسان کو ترک وطن پر مجبور کر دیا ۔اس کے ساتھ ہی ابن دغنہ نے اعلان کر دیا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ میری امان میں ہیں ۔قریش نے اس شرط پر امان قبول کر لی کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کھلے طور پر نماز اور قرآن نہ پڑھیں۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے دروازے پر ایک مسجد بنا لی اس میں نماز اور قرآن پڑھنے لگے ۔ اب پھر وہی حال تھا کہ آپ نماز پڑھتے اور تلاوت کرتے تو قریش کے بیوی بچے فرط اثر سے کھینچ کر آپ کے پاس جمع ہو جاتے قریش نے ابن دغنہ سے شکایت کی کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنے دروازے پر مسجد بنالی ہے اس میں بلند آواز سے نماز اور قرآن پڑھتے ہیں ۔ ہمیں اپنے متعلقین کے گمراہ ہو جانے کا اندیشہ ہے یا تو ابو بکر شرائط کی پابندی کریں یا پھر تم ان کی ذمہ داری سے علیحدہ ہو جاﺅ۔
ابن دغنہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ معاملہ پیش کیا تو آپ نے جواب دیا تم میری حفاظت کی ذمہ داری سے بری ہو ۔ میں اللہ کی حفاظت میں راضی اور خوش ہوں۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نماز کے ساتھ یہ ذوق و شغف تمام عمر قائم رہا ۔ اکثر دن کو روزے رکھتے اور راتیں نماز میں گذارتے خشوع و خضوع کا یہ حال تھا کہ نماز میں لکڑی کی طرح بے حس و حرکت نظر آتے روتے اتنے کہ ہچکی بندھ جاتی۔
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے نماز سیکھی اور انہوں نے حضور اکرم ﷺ سے یعنی جس طرح حضور اکرم ﷺ نماز پڑھتے تھے اسی طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھا کرتے تھے ۔نماز پڑھتے وقت حددرجے کی انکساری ہوتی ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نماز:حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بڑے با رعب جلیل القدر صحابی تھے ۔آپ کی نماز کے متعلق کہا جاتا ہے کہ آپ رات بھر جاگ کر بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھتے جب صبح ہو تی تو اپنے گھر والوں کو جگاتے اور یہ آیت پڑھتے :”اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور خود بھی اس پر جمے رہو۔“(القرآن سورہ طٰہٰ)
آپ نماز میں ایسی سورتیں پڑھتے جن میں قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر یا خدا کی عظمت و جلالت کا بیان ہوتا اور ان چیز وں سے آپ اس قدر متاثر ہوتے کہ روتے روتے ہچکی بندہ جاتی چنانچہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ ایک بار نماز پڑھ رہے تھے جب اس آیت پر پہنچے :اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ لَوَاقِعµ مَّالَہ¾ مِن± دَافِعٍ ۔”بلا شک و شبہ تیرے رب کا عذاب واقع ہو کر رہے گا ۔اس کا کوئی دفع کرنے والا نہیں۔“ تو اس قدرروتے رہے کہ آنکھیں ورم کر آئیں کنز الاعمال میںہے کہ ایک نماز میں آپ نے یہ آیت پڑھی۔وَاِذَا اُل±قُو±امِن±ھَا مَکَانًا ضَیِّفًا مُقَرَّنِی±نَ دَعَو±ا ھُنَالِکَ ثُبُو±رًا۔”جس روز گناہگار لوگ زنجیروں میں جکڑے ہوئے دوزخ کی ایک تنگ جگہ میں ڈال دئےے جائیں گے تو موت موت پکارینگے۔“
یہ آیت پڑھ کر آپ پر ایسا خوف و خشوع طاری ہوا اور آپ کی حالت اتنی غیر ہوئی کہ اگر لوگوں کو یہ معلوم نہ ہوتا کہ آپ پر اس طرح کی آیتوں کا ایسا ہی اثر ہوا کرتا ہے تو سمجھتے کہ آپ واصل ہو گئے ۔
ایک بار فجر کی نماز میں سورہ¿ یوسف شروع کی جب اس آیت پر پہنچے ۔وَاب±یَضَّت± مِنَ ال±حُز±نِ فَھُوَ کَظِی±مµ۔”روتے سفید پڑگئیں اور وہ جی ہی میں گھٹنے لگے۔“
تو زار زار رونے لگے یہاں تک کہ قرا¿ت جاری رکھنا دشوار ہو گیا ۔مجبور ہو کر رکوع میں چلے گئے ۔حضر ت عبد اللہ بن صائب کہتے ہیں کہ ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو عشاءکی نماز میں کسی وجہ سے دیر ہو گئی اس لئے میں نے نماز شروع کی آپ بعد میں آئے اور نماز میں شریک ہو گئے ۔میں سورہ¿ ذاریات پڑھ رہا تھا ۔جب میں نے یہ آیت پڑھی۔وَفِی السَّمَآئِ رِز±قُکُم± وَمَا تُو±عَدُو±نَ۔”تمہارا رزق آسمان میں ہے اور تم سے اس کا وعدہ کیا گیا ہے ۔“(القرآن سورہ زاریات )
آپ کی زبان سے بے اختیار انا اشھد (میں اس پر گواہی دیتا ہوں) نکل گیا اور آواز اتنی اونچی تھی کہ مسجد گونج گئی ۔
صائب بن یزید اپنے باپ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ قحط کا زمانہ تھا ۔میں نے آدھی رات کو دیکھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے اور دعا میں بار بار کہہ رہے تھے ۔اے اللہ ہم لوگوں کو قحط سے ہلاک نہ کر اس بلا کو ہم سے دور کر دے ۔
آپ کی نماز کے متعلق ایک صحابی فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہ چادر سے ڈھانپ دئےے گئے تھے میں نے دریافت کیا کہ تم لوگ ان کو کس حالت میں دیکھ رہے ہو؟ لوگوں نے کہا جس طرح تم دیکھ رہے ہو میں نے کہا انہیں نماز کےلئے ہوشیار کرو ۔اس لئے کہ نماز سے زیادہ ان کو گھبراہٹ سے نجات کی چیز نہیں ،تم ہوشیار نہ کرو گے ؟لوگوں نے کہا اے امیر المومنین !نماز تیار ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں میرے اللہ !اس وقت میں نے اٹھنا ہی ہے اور اس شخص کا اسلام میں کوئی حق نہیں جس نے نماز ترک کر دی ۔ اس کے بعد آپ نے نماز پڑھی اور آپ کے زخم سے خون بہہ رہا تھا۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی نماز:حضرت عثمان رضی اللہ عنہ دنیاوی معاملات میں توجہ دینے کے باوجود بڑی انکساری اور خضوع سے نماز پڑھتے جب آپ نماز میں ہوتے تو دنیا کی ہر چیز سے بے نیاز ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے۔ آپ کے متعلق حضرت عثمان بن عبد الرحمن تیمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے باپ نے کہا کہ میں آج تمام رات مقام ابراہیم پر عبادت کروں گا میرے باپ نے کہا کہ جب میں نے عشاءکی نماز پڑھ لی تو میں اس جگہ تنہا چلا گیا اور اس میں کھڑا ہو گیا فرمایا اس حال میں کہ میں کھڑا ہوا تھا اچانک ایک شخص نے اپنا ہاتھ میرے دونوںکندھوں کے درمیان رکھا تو وہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے میرے باپ نے کہا انہوںنے ام القرآن (یعنی سورہ فاتحہ ) کے ساتھ ابتدا کی آیات پڑھنا شروع کیں پھر دوسری رکعت میں سارا قرآن ختم کر دیا اس کے بعد رکوع کیا اور سجدہ کیا پھر اپنے دونوں جوتے لئے تو مجھے علم نہیں کہ اس سے پہلے بھی کچھ پڑھایا نہیں۔ محمد بن سیرین کی روایت میں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ساری رات عبادت کرتے پس قرآن کو ایک رکعت میں ختم کر دیتے ۔
ان روایات سے معلوم ہوا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو نماز سے خصوصی دلچسپی تھی ،لہٰذا آپ پوری توجہ سے نماز ادا کرتے ۔
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی نماز:حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق ایک راوی کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فجر کی نماز پڑھا کر دائیں جانب رُخ کر کے بیٹھ گئے آپ کے چہرے سے رنج و غم کا اثر ظاہر ہو رہا تھا ۔طلوع آفتاب تک آپ اسی طرح بیٹھے رہے ۔اس کے بعد بڑے تاثر کے ساتھ اپنا ہاتھ پلٹ کر فرمایا خدا کی قسم میں نے حضور اکرم ﷺ کے صحابہ کو دیکھا ہے آج اُن جیسا کوئی نظر نہیں آتا۔ ان کی صبح اس حال میں ہوتی کہ ان کے بال بکھرے ہوئے ہوتے ،چہرے غبار آلود اور زرد ہوتے ،وہ ساری رات اللہ تعالیٰ کے حضور سجدے میں پڑے رہتے ،کھڑے کھڑے قرآن مجید پڑھتے رہتے ۔حتیٰ کہ جب تھک جاتے تو کبھی ایک پاﺅں پر سہارا دے لیتے اور کبھی دوسرے پاﺅں پر گویا کہ وہ خدا کا ذکر کرتے ہوئے اس طرح جھومتے جیسے ہوا میں درخت حرکت کرتے ہیں اور خدا کے خوف سے ان کی آنکھوں سے اتنے آنسو بہتے کہ ان کے کپڑے تر ہو جاتے تھے ۔مگر اب کے لوگ کیسے ہیں کہ غفلت میں رات گزار دیتے ہیں اور یاد الہٰی کی پروا نہیں ۔
نماز کا وقت آتا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کا رنگ متغیر ہو جاتا اور آپ پر لرزہ طاری ہو جاتا ۔ایک بار ان سے پوچھا گیا کہ اے امیر المومنین آپ کا یہ حال کیا ہو جاتا ہے تو آپ نے فرمایا کہ اللہ کی اس امانت کی ادائیگی کا وقت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین اور پہاڑ پر پیش کیا تو ان سب نے اس بار کے اٹھانے سے ڈرکر انکار کر دیا ۔اور انسان نے اسے اٹھالیا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک مرتبہ ران میں تیر گھس گیا لوگوں نے نکالنے کی کوشش کی مگر نہ نکل سکا ۔ آپس میں مشورہ کیا کہ جب آپ نماز میں مشغول ہوں اس وقت تیر نکالا جائے چنانچہ آپ جب نماز میں مشغول ہوئے اور سجدے میں گئے تو لوگوں نے اس کو زور سے کھینچ لیا جب نماز سے فارغ ہوئے تو آس پاس لوگوں کو دیکھا فرمایا کیا تم تیر نکالنے کے لئے آئے ہو لوگوں نے عرض کیا کہ وہ تو ہم نے نکال بھی لیا ہے ۔آپ نے فرمایا کہ مجھے خبر تک نہیں ہوئی ۔اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ حالت نماز میں اللہ تعالیٰ کی طرف اتنے متوجہ ہوتے کہ آپ کو ادھر اُدھر کی کچھ خبر نہ رہتی ۔
حضرت داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نماز کا قصد فرماتے تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے اور جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی نماز کا شغف اور اپنے اسلاف کی طرف نماز میں خضوع و خشوع عطا فرمائے ۔آمین

علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال پنجاب پاکستان

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website