لاہور (ویب ڈیسک) آج سے کئی ماہ پہلے کی بات ہے پاکستان کے سابق وزیر خزانہ کرائیڈن اسائلم اسکریننگ یونٹ میں پہنچے جہاں انہوں نے درخواست دی کہ حکومت پاکستان نے چونکہ ان کاپاسپورٹ منسوخ کردیا ہے اس لئے برطانیہ سے باہر جانے کےلئے انہیں ٹریول ڈاکومنٹس دئیے جائیں ۔ان کی صحت ٹھیک نہیں ہے انہیں اپنے نامور کالم نگار منصور آفاق اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔علاج کےلئے مختلف ممالک میں جانےکی ضرورت پڑتی رہتی ہے ۔درخواست مسترد کر دی گئی ۔کہا گیاکہ قانونی طور پرٹریول ڈاکو منٹس صرف اسے مل سکتے ہیں جسے برطانیہ کی طرف سے سیاسی پناہ دے دی گئی ہو۔ہوم آفس کی طرف سے انہیں مشورہ دیا گیاآپ سیاسی پناہ کی درخواست دیں ۔اگر وہ کامیاب ہو گئی تو آپ کو ٹریول ڈاکو منٹس ہی نہیں برطانیہ میں پانچ سال قیام کی اجازت بھی مل جائے گی ۔سابق وزیر خزانہ بدنامی کے ڈر سے سیاسی پناہ کی درخواست نہیں دینا چاہتے تھے ۔وہ مایوس ہو کر پلٹ گئے تھے۔ جہاں تک برطانیہ میں قیام کی بات تھی تو وہ ان کےلئے کوئی مسئلہ نہیں تھا کیونکہ اُن کے پاس برطانیہ کا پانچ سال کےلئے ملٹی پل ویزا موجود تھا۔البتہ یہ معاملہ بحث طلب ہےکہ پاسپورٹ منسوخ ہوجانے کی صورت میں اُس ویزے کی قانونی حیثیت کیا ہے۔زیادہ تروکلا کا خیال یہی ہے کہ جب تک وہ برطانیہ میں موجود ہیں ویزا valid ہےمگر پاسپورٹ منسوخ ہونےکی وجہ سےسفر نہیں کر سکتے۔برطانوی وزیر داخلہ ساجد جاوید اور وزیر اعظم کے مشیرشہزاد اکبر کے درمیان مجرموں کی حوالگی کے حوالے سے ایک یادداشت پر دستخط ہوئے تھے تو سابق وزیر خزانہ کو تھوڑی سی پریشانی ہوئی انہوں نے وکیل سے مشورہ کیا ۔وکیل کے مطابق ابھی تک اِس یادداشت کی قانونی حیثیت مرتب نہیں ہوئی اس لئے آپ کو کوئی پرابلم نہیں مگر جس روز برطانوی وزیر خارجہ نے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ ملاقات میں اس یادداشت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی پناہ کی درخواست دینے والے حوالگی کے معاہدے میں نہیں آتے توسابق وزیر خزانہ نے فوری طور پر کرائیڈن اسائلم سیکنگ یونٹ کا رخ کیااور سیاسی پناہ کی درخواست دے دی۔درخواست میں لکھا گیا کہ پاکستان میں کٹھ پتلی حکومت ہے اصل میں وہاں اسٹیبلشمنٹ کی حکومت ہے ، عدالتیں بھی اسی کے کہنے پر فیصلے کرتی ہیں اور اسٹیبلشمنٹ اس سے انتقام لینا چاہتی ہے کیونکہ اپنے دورِ وزارت میں اس نے بہت سے فیصلے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کئے تھے ،اسی نے نواز شریف کوقید کررکھا ہے وہ پاکستان جاتے ہی مجھے بھی گرفتار کرادے گی اور پھر جیل میں مجھ پر تشدد کیا جائے گا اور اپنی مرضی کے بیان مجھ سے لئے جائیں گے،پرویز مشرف کے دور میں بھی ایک بار میرے ساتھ ایسا ہو چکا ہے ۔ان کےدونوں ہاتھوں کے انگلیوں کے نشان بھی لئے گئے ان کی تصویریں بھی بنائی گئیں۔پھر انہیں ایک لیٹر بنا کر دیا گیا جس پر ان کی تصویر بھی موجود تھی کہ اس سابق وزیر خزانہ نے اسائلم کےلئے اپلائی کیا ہے۔یہ لیٹر ہر اسائلم اپلائی کرنے والے کو دیا جاتا ہے ۔اس کے بعد ان کا ایک تفصیلی انٹرویو کیا گیا انہوں نے ہوم آفس میں اپنا پاکستانی پاسپورٹ جمع کرادیا ، اپنے وارنٹس کی فوٹو کاپی بھی دی اس کےعلاوہ کئی اور کاغذات بھی دئیے جن میں کچھ اخباری تراشے بھی تھے کہ کیا پاکستان میں ان کی زندگی کو واقعی خطرہ ہے یا نہیں۔سیاسی پناہ کےلئے بنیادی شرط یہی ہے کہ اپنے ملک میں آپ کی زندگی کو خطرہ لا حق ہو۔ اس کے بعد انہیں بتایا کہ آپ کی اسائلم کی درخواست پر فیصلے میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں ۔ابھی آپ کوساٹھ پونڈ ہفتہ وار دئیے جائیں گے اور رہائش کےلئے ایک اسٹوڈیو فلیٹ۔علاج کی مفت سہولت بھی آپ کو فراہم کی جارہی ہے ۔برطانیہ میں کام کرنے کی اجازت کےلئے بھی آپ کو علیحدہ درخواست دینی ہوگی۔ابھی آپ کوبرطانیہ میں کام کرنے کی اجازت نہیں تھی ۔ سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرانے کے بعد جب وہ واپس اپنے گھر پہنچے تو انہوں نے باقاعدہ بیان جاری کیاکہ میں نے سیاسی پناہ کی درخواست نہیں دی ۔میں بہت جلد واپس وطن جائوں گا ۔ میں توہوم آفس یہ بتانے گیا تھا کہ میں ا بھی واپس نہیں جا رہا ۔یہیں برطانیہ میں ہی مقیم ہوں،۔چونکہ میرا پاسپورٹ منسوخ ہو چکا ہے اس لئے مجھے ٹریول ڈاکو منٹس دئیے جائیں۔ یہ بات واضح رہے کہ حکومت پاکستان سابق وزیر خزانہ کی گرفتاری کے وارنٹ انٹر پول کے حوالے کر چکی ہے۔اگر وہ برطانیہ کے علاوہ کسی اور ملک میں جاتے ہیں تو انٹرپول کےلئے انہیں گرفتارکرنا اور زیادہ آسان ہو سکتا ہے ۔اس لئے اُن کا کسی اور ملک میں جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔سو یہ بات تسلیم کی ہی نہیں جا سکتی کہ انہیں صرف ٹریول ڈاکو منٹس کی ضرورت ہے ۔ ان پر الزام ہیں کہ انہوں نے پاکستان کولوٹ کر ذاتی جائیدادیں اور اثاثے بنائے ہیں۔حکمرانوں کو لوٹ کھسوٹ کے راستے دکھانے میں بھی انہیں کمال حاصل رہاتھا۔ عدالت ان کے اثاثے نیلام کرنے کا حکم صادر کر چکی ہے۔ان کے اثاثوں میں گلبرگ لاہور میں ایک کوٹھی ، الفلاح ہاؤسنگ سوسائٹی لاہور میں ان کی بیوی اور بیٹے کے نام تین پلاٹ، اسلام آباد میں چھ ایکڑ زمین اورپارلیمان انکلیو میں دو کنال کا پلاٹ، ایاز بلڈرز کے تحت دو کنال کا ایک اور پلاٹ، سینیٹ ہاؤسنگ سوسائٹی میں پلاٹ، تین لینڈ کروزر، دو مرسیڈیز اور ایک ٹویوٹا کرولا گاڑی۔ ہجویری ہولڈنگ اور سوئی نادرن گیس میں سرمایہ کاری ۔ دبئی کی تین کمپنیوں میں شیئر ہولڈر، وہاں بھی تین فلیٹوں اور ایک مرسیڈیز گاڑی کے بھی مالک ہیں۔ تحقیقات کے مطابق یہ تمام مال و دولت، جائیدادیں اور اثاثے ان کی آمدنی سے کہیں زیادہ ہیں جو جائز اور قانونی طور پر ان کے نہیں ہوسکتے