کراچی…….. ویلنٹائن ڈےمحبت کرنےوالوں کے لئے ایک مخصوص عالمی دن ہے جو ہر سال 14 فروری کوکچھ مغربی ،یورپی اور سیکولر ممالکمیں عاشقوں کےتہوارکے طور پر منایا جاتا ہے۔ اپنی آمد کے ساتھ یہ دن پوری دنیا میں مسکراہٹوں اور جذبات کا ایک نیا انداز پیش کرتا ہے۔لوگ اظہارمحبت کے لیے لفظوں کے بجائے پھولوں کاسہارا لیتے ہیں۔اس روز جہاں محبتیں سرخ گلاب کی صورت میں مہکتی ہیں وہیں چاکلیٹ کی شیرینی بھی لہجوں میں مٹھاس بھر دیتی ہے۔ماضی میں صرف امریکہ اور یورپ میں اس دن کو منانے والوں میں نوجوان لڑکےاورلڑکیاں پیش پیش تھے مگر اب ایشیا میں بھی نا صرف نوجوان بلکہ بڑی عمر کے لوگ بھی اس دن کے انتظار میں رہتے ہیں۔اسی وجہ سے ویلنٹائن ڈے کی مقبولیت ہر سال بڑھتی ہی جارہی ہے اور یوں یہ دن نہ صرف ایک جشن بلکہ بہت بڑے کاروبار کی شکل بھی اختیار کر گیا ہے۔ویلنٹائن ڈے کے متعلقکئی داستانیں بیان کی جاتیں ہیں کہ قدیم روم میں اس دن مرد اپنی محبوباؤںکے نام اپنی قمیصوں کی آستینوں پر کنندہ کرکےچلتےتھے۔ بعض اوقات یہ جوڑے تحائف کا تبادلہ بھی کرتے تھے، بعد میں لوگوںنےتحائف کی جگہ ویلنٹائن کارڈز کا سلسلہ شروع کردیا۔دنیا بھر میںاس دن کے حوالے سے مخصوص رسومات اور روایات بھی رائج ہیں جن میں سے کچھ برقرار ہیں اور کچھ نے ناپید ہوکر نئی روایات کو جگہ د ے دی ۔لندن میں اس موقع پر محبت کے متوالے ایک دوسرے کے لیے پیار بھری نظمیںاور گیت لکھتے ہیں ، ان کا ماننا ہے کہ لفظوں سے زیادہ محبت کے اظہار کااور کوئی طریقہ نہیں۔ڈنمارک میں لوگ محبت کا اظہار کرنے کے لیے سرخ پھول کی بجائے سفید پھول کا استعمال کرتے ہیں ۔اس کے علاوہ وہاں کچھ جگہوں پر عاشق اپنے محبوب کو رومانوی خطوط لکھنے کے بجائے مزاحیہ خطوط لکھتے ہیں۔برطانیہ میں ویلنٹائن ڈے کو علاقائی روایت مانا جاتا ہے۔یہاں سترہویں صدی میں یہ دن عام ہوا۔یہاں لکڑی کے چمچ14 فروری کو تحفے کے طور پر دیئے جانے کیلئے تراشے جاتے اور خوبصورتی کیلئے اِن کے اُوپر دل اور چابیاں لگائی جاتی تھیں جو تحفہ وصول کرنے والے کیلئے اِس بات کا اشارہ ہوتیں کہ تم میرے بند دل کو اپنی محبت کی چابی سے کھول سکتے ہو۔امریکا میں روایت مشہور ہے کہ 14 فروری کو وہ لڑکے لڑکیاں جو آپس میںشادیاں کرنا چاہتے ہیں، وہ اسٹیم ہائوس جاکر ڈانس کریں اور ایک دوسرے کے نام دہرائیں۔ جوںہی رقص ختم ہو گا اورجو آخری نام اُن کے لبوں پرہوگا، اُس ہی سے اس کی شادی ہوگی ۔ ایک امریکی سروےکے مطابق چودہ فروری کے دن دنیا بھر میں ایک ارب سے زائد ویلنٹائن کارڈبھیجے جاتے ہیں۔فِن لینڈ میں اس دن کو فرینڈ ڈے کہا جاتا ہے اور اسے خاص دوستوںکےلیے اور ان کی یاد میں منایا جاتا ہے۔مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں اس دن کو منانے پر پابندی ہے، جن میں ایران،سعودی عرب اور دوسرے کئی ممالک شامل ہیں خاص کرسعودی عرب میں ویلنٹائن ڈےپر تحائف کے طور پر دیے جانے والی چیزوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔جاپان میں اس دن خواتین مردوں کے لیے چاکلیٹس خریدتی ہیں اورٹھیک ایک ماہ بعد وائٹ ڈے منایا جاتا ہے جس میں مردوں کو اپنی گرل فرینڈزکے گفٹس کے مقابلے میں دگنا زیادہ خرچ کرکے تحائف خرید کردینے پڑتے ہیںتاکہ ثابت کرسکیں کہ وہ بھی محبت میں کسی سے کم نہیں۔کوریا میں لوگ صرف چودہ فروری کو ہی ویلنٹائن ڈے نہیں مناتے بلکہ وہ ہرماہ کی اسی تاریخ کو خصوصی رومانوی اظہار کرتے نظر آتے ہیں، کبھی انہیںمعافی کا دن کا نام دیا جاتا ہے تو کبھی گلے لگانے کا، مگر ہر ماہ کی چودہ تاریخ کو منفرد انداز میں محبت کا اظہار ضرور کیا جاتا ہے۔بھارت میں بھی اس دن کو بہت جو ش و خروش سے منایا جاتا ہے، لیکن کئی بھارتی تنظیمیں اسے منانے کے خلاف ہیں۔پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں بھی اس دن کو منانے کا رجحان بڑھ رہاہے۔ٹی وی چینلز پر اس دن خصوصی نشریات دکھائی جاتی ہیں۔ ایک دوسرےکوتحائف دینا، تفریحی مقامات پرجانااس دن عام ہوتا ہے۔ تما م پارکوں میںنوجوانوں کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے اور اِس دن کے لحاظ سے لڑکیوں نےسرخ لباس زیبِ تن کئے ہوتے ہیں۔جرمنی میں سال 2005 کے بعد سے نوجوانوں نے اس دن میں خاصی دلچسپی لیناشروع کر دی ہے اور اب آہستہ آہستہ یہ دن جرمن ثقافت کا حصہ بن رہا ہے۔اٹلی میںاس دن اکثر لڑکے اور لڑکیاں اپنے گھر والوں کو منگنی کی خوشخبری دیتے ہیں۔اٹلی کی یہ بھی قدیم روایت رہی ہے کہ اس دن لڑکیاں کھڑکی کے پاس بیٹھ جاتیں اور جو بھی مرد سب سے پہلے اسے نظر آتا اسی سے شادی کرنےکے سپنے سجا لیتی ۔اس کا ماننا ہے کہ سال کے اندر اندر وہ اس شخص کو اپنے شوہر کے روپ میں دیکھ لے گی۔اسکاٹ لینڈ میں اس دن ایک محفل سجائی جاتی جس میں جوان لڑکے اور لڑکیوں کوجوڑی کی شکل میںکھڑا کیا جاتا ہےاور ان کوٹوپی دی جاتی ہے جس میں سب کےناموں کے قرعے ہوتےہیںجو بھی جس کے نام کی پرچی اٹھائے گا وہ آئند ہ زندگی میں اس کا جیون ساتھی ہوگا۔