تحریر: محمد عتیق الرحمن
ایک ٹرین اسٹیشن پرآکر رکتی ہے ۔ اس میں سے جوان فوجی وردی پہنے ہوئے باہر نکل کر اپنی اپنی پوزیشنیں سنبھال کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اتنے میں ایک بچہ اپنی ماں کا ہاتھ چھڑا کر ایک فوجی کی طرف بھاگ کر آتا ہے اور اس فوجی کو السلام علیکم کہتاہے اور ہاتھ سلام کے لئے بڑھا دیتا ہے۔ فوجی اسے سلام کرتاہے اور پیار کرتا ہے۔ یہ آج سے کوئی 18 سال پہلے کی بات ہے اور وہ بچہ کوئی اور نہیں وہی تھا جس کی تحریر آج آپ کے ہاتھ میں ہے ۔ اور وہ فوجی کسی اور ملک کا نہیں بلکہ پاکستانی فوج کا ہی سپاہی تھا۔ آج جب پاک فوج کے کارناموں کو دیکھتا ہوں تو وہ بچہ یاد آجاتا ہے جو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر فوجی سے صرف سلام لینے کے لئے دوڑ پڑتا تھا۔ جمعہ کے دن آئی ۔ایس۔پی۔آر کی جانب سے 97 دہشت گردوں کی گرفتاری کے اعلان نے مجھے میرے بچپن میں پہنچا دیا تھا جب میں لاشعوری طور پر ان فوجیوں کو اپنے پاس دیکھ کر سکون واطمینان محسوس کیا کرتا تھا کہ اب دنیا کی کوئی طاقت مجھ پرحاوی نہیں ہوسکتی۔
پاکستان ایک لمبے عرصے سے دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔پاک فوج کی قربانیاں ا س سارے عرصے میں بے مثال رہی ہیں ۔آج بھی ’’ضرب عضب ‘‘ میں پاکستانی سرحدوں کے محافظ پاک دھرتی کے مخالفین کے قلع قمع میں اپنی سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں ۔جس کی حالیہ مثال 97 دہشت گردوں کو گرفتار کرناہے ۔یہ کوئی عام گرفتاریاں نہیں تھیں بلکہ اس میں القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان اور لشکر جھنگوی کے رہنما تھے ۔ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق ’’عمر شیخ سمیت 100 دہشت گردوں کو حیدرآباد جیل سے رہا کروانے اور 35 کو مارنے کا منصوبہ تھا۔
جسے پاکستانی خفیہ اداروں نے ناکام بنادیا۔ دہشت گرد مناواں پولیس اسٹیشن،آئی ایس آئی ہیڈکوارٹر،مہران نیول،کامرہ ائیربیس جیسے حملوں میں ملوث تھے ۔حیدرآباد جیل کو توڑنے کا 90فی صد منصوبہ مکمل ہو چکاتھا ۔اس منصوبے میں القاعدہ،ٹی ٹی پی اور لشکرجھنگوی تینوں دہشت گرد تنظیمیں شامل تھیں ۔ گرفتار شدہ دہشت گردوں میں سے 26دہشت گردوں کی گرفتاری پر کروڑوں کی انعامی رقم تھی ۔ان میں القاعدہ برصغیر کا نائب امیر مثنیٰ،جس کے سر کی قیمت ڈیڑھ کروڑ روپے تھی اور لشکرجھنگوی سندھ کے امیرنعیم بخاری کے سر کی قیمت دوکروڑ روپے تھی شامل ہیں ۔یہ دہشت گرد کراچی کو بیس کیمپ بناکر پاکستان میں 2009ء سے اب تک مختلف بڑے بڑے حملے کرچکے ہیں ۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ 15 جون 2014ء کو جب آپریشن شروع کیا تو فاٹااور شمالی وزیرستان کے علاقوں میں دہشت گردوں نے اپنی مارکیٹیں بنائی ہوئی تھیں جنہیں پاک فوج نے تباہ کر دیا۔
کراچی میں جب رینجرز نے آپریشن شروع کیا تو وہاں بھی ابتر حالات تھے ۔کراچی میں ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور اغواء برائے تاوان عام تھے۔ لیکن رینجرز نے حساس اداروں کے ساتھ مل کر 7ہزار سے زائدآپریشن کئے جس میں 12 ہزار سے زائدافراد کوحراست میں لیاگیا جن میں سے 6 ہزار سے زائد کو پولیس کے حوالے کیا گیا۔ اس آپریشن کی وجہ سے کراچی میں اب حالات بہت بہتر ہوچکے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ میں 70 فیصد،بھتہ خوری میں 85 فیصداور اغوابرائے تاوان میں 85 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے جو کہ اہل پاکستان اور کراچی والوں کے لئے اطمینان بخش بات ہے ۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ کراچی شہر کی روشنیاں واپس لائیں گے اور پاک فوج امن کی بحالی تک کراچی میں آپریشن جاری رکھے گے ‘‘۔
دوسری طرف ضرب عضب کے دوران اب تک 13 ہزار سے زائد آپریشن پاکستانی فوج کرچکی ہے جس سے پاکستان میں حالات پہلے سے کافی بہتر ہوچکے ہیں ۔دہشت گردوں کے بنیادی نیٹ ورک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکے ہیں ۔اب وہ چھوٹے چھوٹے گروہوں کی شکل میں بٹ کر پاکستان کا امیج دنیا کے سامنے خراب کرنے کی کوشش میں ہیں اور دوسرے دہشت گردوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔یہ دہشت گرد ظاہری شکل وصورت سے مسلمان لگتے ہیں اور اکثر میڈیا ان کو مسلمان ہی ثابت کرنے پرتلاہوتاہے میں اسے اسلاموفوبیا کہتاہوں۔حالانکہ اسلام میں انسانی جان کی بڑی قدروقیمت بتائی گئی ایک بے گناہ کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل سے تشبیہ دی گئی ہے اور اسلام کامعنیٰ سلامتی اورامنن ہے ۔جس مذہب کا نام ہی سلامتی وامن ہو اس میں ایسی غارت گری کہاجائزہوسکتی ہے ؟یہ پروپیگنڈہ ہے جو اسلام کے خلاف اسلام کے نام لیواؤں پر مسلط کرکے اسلام کی اجلی تصویر کو دھندلا کرنے کی سازش ہے۔
پاک فوج جس کا نصب العین ایمان،تقوی اور جہاد فی سبیل اللہ ہے ۔یہ صحیح معنوں میں اپنے نصب العین پراپنے آپ کو قائم رکھنے والے لوگ ہیں ۔چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے آتے ہی پاکستان کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کا جوسلسلہ شروع کیاہوا ہے وہ ہنوز جاری ہے ۔آج جب دنیا اسلام کے اکثر ممالک سیکیورٹی مسائل سے دوچار ہیں کسی کو داخلی مسائل کا سامناہے تو کسی کو خارجی مسائل کااور کہیں سنی شیعہ مسلکی بنیادوں پر مسائل کو کھڑا کرنے کی سازشیں ہیں ایسے میں پاک فوج کی سربراہی دونشان حیدر والے پانے والے خاندان میں آنا پاکستان کے لئے اللہ کی نعمت ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جب جنرل راحیل شریف نے ریٹائرڈمنٹ کے مطابق افواہوں کی تردید کرتے ہوئے جنوری میں بیان دیاتھاکہ مقررہ وقت پر ریٹائرڈ ہوجاؤں گا تو پاکستانی عوام نے جنرل راحیل شریف کے حق میں فلیکسز،اشتہارات اور تحریریں لکھنی شروع کر دیں کہ ’’خداکے لئے ،جانے کی باتیں جانے دو۔۔۔‘‘
ان فلیکسز پر جنرل راحیل شریف کی تصویرکے ساتھ یہ تحریر اسلام آباد،لاہور اور فیصل آباد کی مختلف شاہراہوں پر نظر آسکتی ہیں ۔یہ پاکستانی عوام کی پاک فوج پر اعتماد کی وہ فضاء ہے جسے میں نے بچپن میں دیکھا تھا ۔گو درمیان میں ایک ایسی فضا ء بھی میں دیکھ چکاہوں جب بھارتی میڈیا کے زیراثر اور دشمن عناصر کی شرارتوں کی وجہ سے کچھ عناصر نے سراٹھایا اور پاکستان کی عوام کو پاک فوج سے دور کرنے کی کوشش کی لیکن یہ سب نہ ہوسکا ۔آج دنیا پاکستان کی عسکری قوت کی قائل ہوچکی ہے ۔ضرب عضب کاصرف پاکستان کو ہی فائد نہیں پہنچ رہا بلکہ اس سے پوراخطہ مستفیذ ہورہاہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ اتنی کامیابیوں کے بعد بھی یہ دہشت گرد سر کیسے اٹھا لیتے ہیں ؟ اس جواب یہ کہ ہے ملٹری آپریشن ان کو ختم کرسکتاہے ،ان کو دباسکتاہے اور انہیں بھگاسکتاہے لیکن ان کے نظریات کو ختم کرنا یہ فوجیوں کاکام نہیں۔
ضرب عضب اور کراچی آپریشن تب کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک ان دہشت گردوں کے سہولت کاروں ،ان کو پناہ دینے والوں اور ان کی فنڈنگ کرنے والے افراد اورممالک کو سیدھانہیں کیا جاتا۔باچاخان یونیورسٹی میں ہونے والے حملے کے پیچھے بھی یہی عوامل کرفرماتھے ۔حکومت وقت کو چاہیئے کہ جہاں وہ پاک فوج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے وہیں وہ ان نظریات کو بھی ختم کرنے کی طرف توجہ دے تاکہ پاکستان میں نظریہ پاکستان کااحیاء ممکن ہوسکے اور پاکستان صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بن سکے ۔آج پھر میرادل کررہاہے کہ کسی جنرل کے ساتھ کھڑاہوکر سلام لوں اورہاتھ ملاؤں اور ایک عدد سیلفی لوں تاکہ سندر ہے اور ان کو کہوں کہ سر ! اللہ کے بعد آپ جیسے مجاہدین ہی ہماری حفاظت کرسکتے ہیں اور ان نام نہاد جہادیوں جنہیں اسلام کی بنیادی تعلیم کا نہیں پتہ بچا سکتے ہیں۔’’اس لئے خداکے لئے جانے کی باتیں اب جانیں دیں‘‘۔
تحریر: محمدعتیق الرحمن
Founder Member & Joint Secretary of PFCC
(Pakistan Federal Council of Columnist)
Cell # 03216563157