آپریشن امرتسر میں گولڈن ٹمپل کمپلیکس کا قبضہ چھڑانے کیلئے کیا گیا ، ہندئوں اور سکھوں میں اس واقعہ کی خلیج آج تک حائل ہے۔
لاہور: آپریشن بلیو سٹار یکم جون سے 10 جون 1984 ء تک بھارتی پنجاب کے شہر امرتسر میں گولڈن ٹمپل (ہرمندرصاحب) کمپلیکس کا قبضہ چھڑانے کیلئے کیا گیا ، اس آپریشن کو آج 33 سال بیت چکے ہیں لیکن ہندئوں اور سکھوں میں اس واقعہ کی خلیج آج تک حائل ہے ، سکھ مذہبی رہنما سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ نے اپنے پیروکاروں کے ہمراہ گولڈن ٹمپل کا کنٹرول سنبھال لیا تھا اور اکال تخت میں مورچہ زن ہوگئے جسے خالی کرانے کے لئے بھارتی فوج نے وزیراعظم اندراگاندھی کے حکم پر آپریشن کیا جسے آپریشن بلیو سٹار کا نام دیا گیا ، آپریشن کے دوران بھارتی فوج نے گولڈن ٹمپل کا محاصرہ کر کے ٹینکوں کا استعمال بھی کیا اور فوج 5 جون کو ٹمپل میں داخل ہوگئی اور 6 جون کو بھنڈرانوالہ کو بھی اکال تخت کے قریب ہلاک کر دیا گیا ، 10جون تک فوج نے ٹمپل کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا ، ہلاکتوں کے بارے میں سکھوں اور بھارتی فوج کی طرف سے متضاد اعلانات کئے گئے۔
سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کون تھا ؟
سنت بھنڈرانوالہ کا تعلق بھارتی پنجاب کے شہر موگا کے ایک گائوں روڈ سے تھا ، ان کا والد ایک سکھ مذہبی رہنما تھا ، مذہبی تنظیم دمدمی ٹکسال کے رہنما کے طور پر انہوں نے سکھوں کی نئی نسل کو مکمل سکھ بن کر زندگی گزارنے کی تلقین کی ، اس مقصد کیلئے انہوں نے نوجوانی میں ہی پنجاب کے شہر شہر جا کر سکھ نوجوانوں کو سکھ مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی مہم چلائی ، انہوں نے اپنی تبلیغ کے دوران کہا کہ “سکھ ایک وکھری قوم اے”۔ ان کے بارے میں یہ خیا ل عام ہے کہ وہ خالصتان ریاست بنانا چاہتے تھے لیکن وہ خالصتان کے حمایتی نہیں تو مخالف بھی نہیں تھے ، ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت اس طرح کی ایک الگ ریاست بنانا چاہتی ہے تو وہ انکار نہیں کرینگے۔
آنند پور قرار داد اور بھنڈرانوالہ کے مطالبات
آنند پور قرار داد 1973 ء میں پہلی مرتبہ منظر عام پر آئی جس میں بھارتی پنجاب کو زراعت کیلئے پانی کا زیادہ حصہ دینا اور چندی گڑھ کو پنجاب سے دوبارہ منسلک کرنے کا مطالبہ شامل تھا ، تاہم اس قرار داد کو 1980 میں زیادہ شہرت ملی جب سکھوں کی تنظیم اکالی دل اور سکھ مذہبی رہنما سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ نے دہلی حکومت سے اسے نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ، اس کے علاوہ ان کا مطالبہ تھا کہ سکھوں کو ان کے مذہبی عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیں۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بھنڈرانوالہ کا مطالبہ یہ بھی تھا کہ اگر سکھوں کو بھارت میں ان کے حقوق نہیں دیئے جانے تو پھر خالصتان کے نام سے الگ ریاست تشکیل دے دی جائے جہاں سکھ اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزار سکیں۔
ہرچرن سنگھ لونگووال
اس وقت اکالی دل کے صدرہرچرن سنگھ لونگووال تھے ، شروع میں آنند پور قرار داد پر عملدرآمد کروانے کیلئے انہوں نے سنت بھنڈرانوالہ کا ساتھ دیا اور دونوں نے اس کے لئے باقاعدہ تحریک چلائی ، یہاں تک کہ لونگووال نے 3 جون 1984 کو مطالبات کی منظوری نہ ہونے پر سول نا فرمانی کا اعلان کر دیا اور سکھ عوام سے کہا کہ وہ بجلی کے بل ، لینڈریونیو اور اناج کو پنجاب سے باہر نہ جانے دیں ، بھنڈرانوالہ کے ساتھ وہ بھی گولڈن ٹمپل میں ہی رہے لیکن وہ بھنڈرانوالہ کی نسبت زیادہ مطالبات کے منوانے میں متشدد رویہ نہیں رکھتے تھے ، جب آپریشن شروع ہوا تو انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور گرفتاری دیدی جبکہ بھنڈرانوالہ نے لڑائی کا فیصلہ کیا ، لونگووال کو ہتھیار ڈالنے اور بھنڈرانوالہ کا ساتھ چھوڑنے پر آپریشن کے ایک سال بعد ایک انتہاپسند سکھ نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔
میجر جنرل شاہ بیگ سنگھ
لمبی سفید داڑھی ، چہرہ دبلا اور ذہانت سے بھرپور میجر جنرل شاہ بیگ سنگھ جس نے گولڈن ٹمپل میں قلعہ بندی کروائی تھی اور جس نے کمپلیکس پر چڑھائی کرنے والی فوج کے خلاف مزاحمت کی قیادت کی ، اس نے ہی بھنڈٖرانوالہ کی تحریک میں شامل ہو کر ہراول دستے کا کردار ادا کیا تھا ، 1971 ء میں پاک بھارت جنگ میں شاہ بیگ سنگھ نے نام نہاد مکتی باہنی کی تربیت اور قیادت کی تھی ، یہ ایک خفیہ کردار تھا جسے شاہ بیگ نے ادا کیا ، اس نے ان گوریلا حملوں میں بھی شرکت کی تھی جس نے پاکستانی فوج کو بنگال کے نم ڈیلٹا میں نو ماہ تک پریشان کئے رکھا ، جنرل اروڑہ کے مطابق ان دنوں شاہ بیگ اتنا کٹر سکھ نہیں ہوا کرتا تھا ، وہ اپنے سر کے بال اور داڑھی منڈوانے کے لئے تیار رہا کرتا تھا تاہم وہ پگڑی پہنتا تھا ، بنگلا دیش بننے کے بعد شاہ بیگ کو ایریا کمانڈر کے طور پر تعینات کیا گیا ، مختلف تعیناتیوں کے دوران اس پر دیھرا دون میں اپنا گھر تعمیر کرنے اور وسائل نہ بتانے کے علاوہ فوجی ٹرک حاصل کر کے بیچنے کے الزامات تھے ، میجر جنرل شاہ بیگ سنگھ کو ریٹائرمنٹ سے ایک دن قبل کورٹ مارشل کے بغیر ملازمت سے برخاست کردیا گیا اور اسے پنشن بھی نہ دی گئی۔اس برخاستگی نے اسے سیخ پا کردی اور وہ حکومت مخالف ہوگیا ، اس کے مطابق سکھ ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ یہ رویہ رکھا گیا۔ اس کے بیٹے پراب بل سنگھ کے مطابق زندگی کے آخری دو تین سالوں سے پہلے وہ اتنا مذہبی نہیں تھا ، یہ وہ وقت تھا جب وہ بھنڈرانوالہ کے سحر میں گرفتار ہوا۔ شاہ بیگ کی سنت بھنڈرانوالہ سے پہلی ملاقات 1982 ء میں اکالی مورچہ کے دوران ہوئی ، جب بھارتی فوج نے جون کے مہینے میں آپریشن کا آغاز کیا تو وہ بھی ہرمندر صاحب کمپلیکس میں بھنڈرانوالہ کے ساتھ مزاحمت کرتے ہوئے مارا گیا۔
آپریشن بلیو سٹار کے بعد سکھوں کی اکثریت آپریشن بلیو سٹار کا ذمہ دار اس وقت کی وزیر اعظم اندراگاندھی کو سمجھتی تھی کیونکہ اس کے براہ راست احکامات انہوں نے ہی دیئے تھے ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ردعمل کے طور پر آپریشن کے چار ماہ بعد 31 اکتوبر 1984 کو اندراگاندھی کو اس کے دو سکھ باڈی گارڈز (ستونت سنگھ اور بنت سنگھ ) نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا ، اس کے بعد سے لے کر اب تک کئی ہندو سکھ فسادات ہوئے جس میں سینکڑوں لوگ مارے گئے اور یہ خلیج اب تک حائل ہے ، بھارتی فوج کے اس وقت کے آرمی چیف کو بھی نشانہ بنایا گیا ، چند روز قبل بھی آپریشن بلیو سٹار کی برسی کے موقع پر ڈسٹرکٹ کپورتھلہ کی تحصیل بھگوارا میں اس وقت تنائو کی کیفیت پیدا ہوگئی جب آپریشن بلیو سٹار کے 33 سال مکمل ہونے پر ایک ہندو لیڈر نے سوشل میڈیا پر سنت بھندرانوالہ کے پیروکاروں کو کہیں بھی مقابلے کا چیلنج کیا ، اس کے بعد اکال سٹوڈنٹ فیڈریشن نے سنت بھندرانوالہ کی تصویر والا بڑا ہورڈنگ بورڈ نصب کر کے چیلنج کیا کہ اگر ہمت ہے تو اسے اکھاڑ کر دکھائو ، اس ساری صورت حال سے واضح ہوتا ہے کہ بھارت میں مختلف اقلیتیں ابھی بھی اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتیں۔