مشتاق احمد قریشی
پاکستان یقیناً اللہ کی بڑی نعمت ہے لیکن افسوس کہ ہم اہل پاکستان اس نعمت کی نہ اہمیت سمجھتے ہیں نہ اس کی قدر کرتے ہیں، شاید یہی وجہ ہے اللہ کے حکم کے مطابق جیسے ہمارے اعمال ہوں گے ویسے ہی ہم پر حکمران مسلط کیے جائیں گے اللہ تو ہمیں بار بار تنبیہ کے طور پر مختلف طریقوں سے بتانے سمجھانے کے لئے مختلف حادثات و واقعات کے ذریعے سمجھا رہا ہے لیکن ہم ہیں کہ خواب غفلت سے بیدار ہونے کو تیار ہی نہیں اپنے اوپر ٹوٹنے والے ظلم وستم کے پہاڑوں کو بھی اپنی غیر فطری سستی، بے پروائی کے باعث نظر انداز کر رہے ہیں جیسے کانوں میں تیل ڈال رکھا ہو کچھ سننے کو کچھ کہنے کو تیار نہیں۔
تین سال پہلے وطن عزیز میں خصوصاً سندھ میں جو تباہ کن سیلاب آیا تھا جس نے بستیوں کی بستیاں تہس نہس کردی تھیں ہزاروں خاندان بے گھر ہوگئے تھے۔ دنیا میں ہاہا کار مچ گئی تھی بڑی تباہی و بربادی ہوئی تھی اس سے نہ ہمارے حکمرانوں نے کوئی سبق حاصل کیا نہ ہی عوام و خواص نے، خود غرضی لوٹ کھسوٹ اور ذاتی مفادات کے لئے قومی ملکی مفادات کو آگ لگائی جا رہی ہے۔ 2013ء میں آنے والے ہلاکت خیز سیلاب نے جو تباہی و بربادی کی اس سے حکومت وقت نے خود اپنے وسائل سے متاثرین کی مدد کرنے انہیں آباد کرنے کی اپنی ذمہ داری پورا کرنے کے بجائے دنیا بھر سے آئی امداد بھی بغیر ڈکار لئے ہضم کر گئے دنیا سے اپیلیں کیںجس کے جواب میں کئی برادر ممالک نے بڑی بڑی پیش کش کی خصوصاً ترکی کے صدر محترم طیب ایردوان نے تو بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کیا اور ان بے گھر ہونے والے ستم رسیدہ افراد کے لئے 2100 گھر تعمیر کر کے پوری ایک بستی ہر طرح کی ضروریات کے ساتھ تعمیر کردی اس میں نہ صرف دو ہزار ایک سو گھر بنائے گئے ساتھ اسکول اور مساجد بھی بنائی گئیں اور تعمیر مکمل ہونے پر سندھ کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ جناب قائم علی شاہ کو ایک پروقار تقریب میں سونپی گئی لیکن افسوس سندھ کے حکمرانوں نے اس عظیم بستی کو قبضے میں لینے کے بعد اس طرح بھلا دیا جسے وہ تعمیر ہی نہیں ہوئی جبکہ بے گھر بے در ہونے والے خاندان جو سب کے سب پیپلز پارٹی کے اپنے ہی ووٹر سپورٹر تھے ان کو آباد کرنے کے بجائے اسے چوروں لٹیروں کے لئے یونہی چھوڑ دیا گیا ہے ان گزرنے والے تین سالوں میں ترک حکومت کی ایک ارب سے زیادہ کی لاگت کو مٹی کردیا گیا ہے چور اس میں سے سامان نکال نکال کر لے جا رہے ہیں کوئی روکنے والا نہیں ہے یہاں تک کے بجلی کے لئے لگایا گیا پی ایم ٹی تک کو اکھاڑدیا گیا گھروں کی کھڑکیاں دروازے پر لگی جالیاں تک اتار لی گئیں۔
سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو اگر اتنی فرصت نہیں ملی تھی تو موجودہ وزیر اعلیٰ جناب سید مراد علی شاہ صاحب اس مسئلے پر خصوصی توجہ دیں اور ان تیار شدہ مکانات کی زبوں حالی دور کر کے ان میں مستحق خاندانوں کو آباد کریں یقیناً یہ ان کے لئے بڑا اہم اور موثر کارنامہ ہوگا۔ نہ ہینگ لگے گی نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے گا آنے والے الیکشن میں انہیں اس کا نتیجہ بھی مل سکے گا ایک اتنی بڑی بستی جو دوست ملک ترکی نے اپنی ہمدردی کے جذبات کے سبب تعمیر کردی ہے تو ہمیں اس کی قدر کرنا چاہئے اس کی حفاظت کرنا چاہئے نہ کہ اس دوست کی محبت و خلوص کو یوں برباد کر کے اپنی نا اہلی اور بد عنوانی کا مظاہرہ کرنا چاہئے تاکہ آئندہ کوئی دوست ملک ہماری کسی مصیبت کی گھڑی میں ہمارے کام نہ آسکے اس طرح کون مدد کرسکے گا کون احمق ہوگا جو اپنا سرمایہ اور وقت اس طرح ضائع کرے گا اگر اس بستی ترک آباد کا جو حشر نشر ہماری سرکار نے کیا ہے وہ اگر ترک وزیر اعظم دیکھ لیں تو شاید وہ ہماری طرف پلٹ کر بھی نہ دیکھیں آئندہ ایسے ہی عبرت ناک حادثہ (اللہ نہ کرے کہ ایسا حادثہ پھر کبھی ہو) کے بعد شاید ہی کوئی ہماری کچھ مدد یا ہمدردی کرے گا ہاں زبانی کلامی ہمدردی میں تو کچھ خرچ نہیں ہوتا لیکن ترکی کے وزیر اعظم نے تو اپنی تمام تر ہمدردی عملی طور پر ادا کی یا شاید یہ ترکی کے حکمرانوں سے یہ غلطی ہوئی کہ انہوں نے پاکستانی اہل سیاست کے مزاج کو نہ سمجھتے ہوئے ترک آباد کی تعمیر اپنے خرچے پر خود اپنی نگرانی میں کرائی اور اس کی تعمیر سے پاکستانی ٹھیکیداروں اور اہل سیاست حکمرانوں کو چونکہ کوئی مالی فائدہ حاصل نہیں ہوسکا اس لئے وہ ان کے لئے قطعی غیر اہم اور بے کار سرمایہ کاری ہوئی ہے اسی سبب کسی نے اس میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ سید مراد علی شاہ عوامی فلاح و بہبود کے کاموں میں دلچسپی رکھتے ہیں اگر وہ اس منصوبے کی طرف توجہ دیں جو ہر طرح سے مکمل ہوچکا ہے اسے بحال کر کے اس کے حقداروں کے حوالے ہی تو کرنا ہے اگر وہ اس تعمیر شدہ بستی پر کوئی پائی پیسہ خرچ نہ بھی کریں جیسی ہے ویسی ہی ضرورت مندوں کے حوالے کردیں تو ہر خاندان اپنی ضرورت کے مطابق اپنے ملنے والے گھروں کی ضروریات از خود پوری کرلے گا انہیں یہ مکانات دیں تو ان بے گھر بے یار و مددگاروں کو چھت تو میسر ہوگی ورنہ وہ وقت دور نہیں کہ وہ ترک آباد موہن جو دڑو کا نقشہ پیش کر رہا ہوگا بغیر آباد ہوئے ہی وہ بستی برباد ہو رہی ہے اگر یہی عالم رہا تو وہ وقت دور نہیں جب یہ بستی کھنڈر بن کر رہ جائے گی وزیر اعلیٰ سے اپیل ہے کہ وہ اس کار خیر کو ثواب کی نیت سے ہی ادا کریں یقیناً اس کا اجر و ثواب انہیں دنیا و آخرت دونوں جگہ ملے گا یوں اکیس سو بے گھروں کو گھر میسر آجائے گا ہاں محترم وزیر اعلیٰ کو یہ خاص طور پر خیال رکھنا ہوگا کہ کہیں مقتدر اور با اثر افراد تقسیم کے وقت اپنے نامزد افراد کے ذریعے قبضہ نہ حاصل کرلیںیا اپنے اپنے حواریوں کو جو مستحق نہ ہوں انہیں آباد کردیں ان نو تعمیر مکانات میں ان کے حقیقی حقداروں کو ہی آباد کیا جائے تاکہ ترک حکومت کا مقصد بھی پورا ہوسکے اور حقداروں کو ان کا حق بھی مل سکے۔