تحریر : حافظ محمد فیصل خالد
نائن الیوا کے بعد دنیا بھر میں دہشتگردی کے خلاف چھری جنگ میں پاکستان نے فریقِ ثالث کی حیثیت سے جتنا نقصان اٹھایا اتنا نقصان دنیا ک کسی بھی ملک کے حصے میں نہیں آیا۔اغیار کی اس جنگ میں ہم اتنے آگے نکل چکے ہیں کہ دہشتگردی اور انتہاء پسندی کا یہ ناسور دوسروں کے گلے سے اتر کر اب ہمارے گلے کا طوق بن چکا ہے۔مگر ہم ہیں ابھی تک اس لعنت سے نمٹنے کیلئے عملی اقدامات کی بجائے حکمتِ عملیاں وضع کرنے میں مصروف ہیں۔ دہشتگردی کی اس لعنت سے نمٹنے کیلئے سابقہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت نے بھی اپنی کمر باندہی ۔اور اکیسویں ترمیم کے ذریعے دہشتگردی پر قابو پانے کیلئے قانون سازی تو کردی جو کہ ایک انتہائی احسن قدم ہے مگر اس قانون سازی میں دہشتگردوں سے برابری کی سطح پر نمٹنے کی بجائے مذہبی اور سیاسی انتہاء پسندوں میں تفریق کر کے اس احسن قدم کو بھی متنازعہ کر دیا۔
اس حکومتی ترمیم کے مطابق مذہبی و مسلکی بنیادوں پر ہونے والی دہشتگردی کے خلاف مقدمات کی سماعت آرمی عدالت میں ہو گی جو کہ دہشتگردی کی روک تھام کیلئے ایک مثبت پیش رفت ہے ۔ مگر مذہب و مسلک سے ہٹ کر ہونے والی انتہا پسندی اس زمرے میں نہ آئے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو دہشتگردی سیاسی بنیادوں پر ہو رہی ہے اسکو کون روکے گا؟مثلاََ آج کل اجمل قادری کو قانونی سزا دینے کا مبالبہ کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب آسیہ بی بی جو کہ قانونی طور پر عدالت سے سزا یافتہ ہیں انکو انسانیت کے نام پر چھوڑنے کی درخواست کی جا رہی ہے۔
سزا دونوںکو عدالت نے دی ہے مگر دہرے معیار کا یہ عالم ہے کہ عدالت سے سزا یافتہ ایک مجرم کی سزا کا مطالبہ کیا جارہا ہے کیونکہ اس کا تعلق مذہبی جماعت سے ہے اور دوسرے کی معافی کاکا مطالبہ کیا جا ہا ہے کیونکہ اس کا تعلق کسی مذہبی جماعت سے نہیں ہے۔حاصلِ کلام یہ کہ اگر کوئی شخص داڑہی رکھ کر، ٹوپی پہن کر جرم کرتا ہے تو اسکو آرمی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ جبکہ اگر کوئی بغیر داڑہی اور مغربی کلچر پر یقین رکھنے والا اسی جرم کا مرتکب ہو تا ہے تو اس کے لئے سزا کا معیار کچھ اور ہو گا۔کیا اسے انصاف کہتے ہیں؟کیا ایسے متنازعہ اقدامات سے ہم دہشتگردی کی لعنت پر قابو پا لیں گے؟کیا ایسے اقدامات سے ہم مکمل طور پر انتہا پسندی سے چھٹکارہ پا سکیں گے؟
نہیں! بالکل نہیں۔ کیونکہ وزیرِ اعظم صاحب اور انکے ہم نوا یقیناََ اس حقیقت کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ ایسے اقدامات سے ہم دہشتگردی پر پوری طرح قابو نہیں پا سکتے کیونکہ یہ اقدامات مذہبی انتہا پسندی کے خلاف تو کافی ہو سکتے ہیں مگر جو انتہا پسندی سیاسی سطح پر ہو رہی ہے اس پر کون قابو پائے گا؟ ہماری حکومت اس حقیقت کو جھٹلا رہی ہے کہ کراچی میں لوگوں کو بوری بند لاشوں کے تحفے کسی مذہبی جماعت کی طرف سے نہیں بھیجے جا رہے۔ بھتہ خوری اور غنڈہ گردی کوئی مذہبی جماعت نہیں کر رہی۔ کراچی میںرینجرز اہلکاروں پر حملے کہئی مذہبی جماعت نہیں کر رہی۔ بلکہ ایسے سب گھنائونے اقدامات آپ ہی کی کمپنی کی ایک سیاسی جماعت کر رہی ہے جسے ہم متحدہ قومی موومنٹ کے نام سے جانتے ہیں۔
آئے دن لیاری میں ہونے والے گینگ وار میں کوئی مذہبی جماعت ملو ث نہیں بلکہ یہ لوگ سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہیں۔ عزیر بلوچ جیسے عالمی سطح پر مطلوب دہشتگرد کسی مذہبی جماعت سے متعلق نہیں ہے۔بلوچستان میں پنجاب کا شناختی کارڈدیکھ کر قتلِ عام کوئی مذہبی جماعت نہیں کر رہی بلکہ یہ لوگ اپنی الگ سیاسی وابستگی رکھتے ہیں۔ زیارت میں قائد اعظم ریزیدینسی پر حملہ میں کوئی مذہبی جماعت ملوث نہیں تھی بلکہ یہ وہاں کے سیاسی شدت پسندوں کا کارنامہ تھا۔
لہذا مہر بانی فرما کر اپنی حکمتِ عملی پر نظرِ ثانی کیجئے اور دہشتگردوں میں مذہب و سیاست کی بنیاد پر تفریق نہ کرتے ہوئے دہشتگردوں کو دہشتگرد ہی رہنے دیں کیونکہ دہشتگردی کے خلاف اس جنگ میںساری قوم افواجِ پاکستان کے شانہ مشانہ کھڑی ہے اوربلا شبہ ہماری عسکری قوتیں ہر قسم کی شدت پسندوں کو نیست و نعبود کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اور خدانخواستہ اگر آپ اب بھی اسی ڈگر پر چلتے رہے توشاید ہم مذہبی انتہا پسندی پر تو قابو پا لیں مگر یاد رکھئے سیا سی انتہا پسندی کی تلوار پھر بھی ہمارے سروں پر لٹکتی رہے گی۔
تحریر : حافظ محمد فیصل خالد