تحریر : راشد علی راشد اعوان
قرآن پاک میں اللہ کریم فرماتے ہیں جو شخص (وہاں) ایک نیکی لے کر آئے گا تو اس کے لیے دس گنا (ثواب) ہوگا۔ اور جو شخص ایک برائی لے کر آئے گا تو اسے بس اس کے برابر ہی سزا دی جائے گی۔ اور ان پر ظلم نہیں کیا جائیگا،اسی طرح سورة القصص میں ارشاد باری ہے کہ جو شخص نیکی لے کر آئے گا اس کے لئے اس سے بہتر (صلہ موجود) ہے اور جو برائی لائے گا تو جن لوگوں نے برے کام کئے ان کو بدلہ بھی اسی طرح کا ملے گا جس طرح کے وہ کام کرتے تھے امام احمد حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی حدیث کو بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہۖ نے فرمایاجو شخص نیکی کا ارادہ کرے، پھر اس عملی جامہ نہ پہنائے تو اس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے اور اگر اسے عملی جامہ پہنا دے تو اس کے لیے دس سے سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں اور جو شخص کسی بھی برائی کاارادہ کرے، پھر اسے عملی جامہ نہ پہنائے تو اس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے۔
اگر اسے عملی جامہ پہنا دے تو اس کے لیے ایک ہی برائی لکھ دی جاتی ہے یا اللہ اسے معاف فرما دیتا ہے، اس طرح اللہ تعالی کے ہاں صرف تباہ و برباد ہونے والا شخص ہی ہلاک ہوتا ہے۔نیکی میں تعاون اور بدی سے گریزیہ اسلام کی بنیاد ہے قران نے ایک انقلاب انگیز اصول دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے جس گروہ نے تمھیں مسجد حرام سے روک دیا تھا اس کی دشمنی تمھیں اس بات پر نا ابھار دے کہ اس سے زیادتی کرنے لگو تمھارا دستور العمل یہہونا چاہئیے کہ نیکی اور پرہیز گاری کی ہر بات میں ایک دوسرے کی مدد کرو گناہ اور ظلم کی بات میں ہرگز تعاون نا کرو اور اللہ کی نافرمانی سے ڈرو وہ پاداش عمل میں سخت سزا دینے والا ہے۔اللہ کے نبی محمد ۖ نے فرمایا کہ رب تعالیٰ فرماتے ہیں کہجو چل کر میرے پاس آیا میں دوڑ کر اس کے پاس آتا ہوں،یاد رہے کہ برائی کو چھوڑنے اور اسے عملی جامہ نہ پہنانے کی تین صورتیں ہوتی ہیں۔
کبھی تو انسان اسے اللہ تعالی کے لیے ترک کر دیتا ہے تو اس صورت میں برائی نہ کرنے کی وجہ سے اس کے لیے نیکی لکھ دی جاتی ہے جیسا کہ صحیح بخاری کی بعض روایات میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ اس نے میری وجہ سے اس برائی کو ترک کیا ، کبھی انسان نسیان کی وجہ سے اس برائی کو ترک کرتا ہے تو اس صورت میں نہ گناہ ہوتا ہے اور نہ ہی ثواب کیونکہ اس نے نہ نیک عمل کی نیت کی اور نہ برے عمل کو ترک کیا اور کبھی انسان برائی کے لیے پورا زور صرف کرتا ہے، اور اسی برائی کیلئے تمام اسباب و وسائل کو اختیار کرتا ہے مگر اسے عملی جامہ پہنانے سے عاجز و قاصر رہتا ہے تو ایسے ہی ہے جیسے اس نے برا کام کر لیا،حُسنِ نیت سے اور حصول ثواب کے لیے کیے جانے والا ہر عمل جس میں ہمدردی شامل ہو، نیکی کے زمرے میں آتا ہے ، نیکی اور بدی انسان ہی کی وجہ سے معاشرے میں فروغ پاتی ہیں۔
ہر مذہب ہر معاشرے میں نیکی کا تصور پایا جاتا ہے لیکن اسلام میں نیکی کو بہت زیادہ فوقیت حاصل ہے اور اسلام میں نیکی کے فروغ کے لیے بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے، اسلام بدی مٹانے کا درس دیتا ہے اس لیے اسلامی معاشرے کا فرد ہونے کے ناطینیکی ہماری شان بھی ہے اور ہمارے لیے ڈھال کا کام بھی کرتی ہے کیوں کہ نیکی کے عمل کو دھراتے رہنے سے انسان گناہ کی زد میں آنے سے محفوظ رہتا ہے ، نیکی ایک ایسا عمل ہے جو اپنے اندر خیر اور فلاح سمیٹے ہوئے ہے، نیکی ہمدردی بھی ہے نیکی مسیحائی بھی ہے، نیکی تن بدن کو مہکا دینے والے احساس کا نام ہے نیکی آخرت کی کامیابی کی خواہش کا نام ہے ، انسان کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا ہے اور پھراُسے فیصلہ کرنے کی قوت عطا کی ہے، نیکی اور بدی میں فرق کی تمیز عطا کی ہے مگر افسوس کہ آج کا انسان اندر سے اتنا کمزور اور ذہنی طور پر اتنا مفلوج ہو گیا ہے کہ وہ دنیا کی رنگینیوں اور حد سے بڑھتی ہوئی بے جا خواہشات کے آگے ڈھیر ہو گیا ہے ، نیکی کو بھلا کر بدی کو ترجیح دینے لگا ہے۔
نیکی کی افادیت کو یکسر نظر انداز کرنے لگا ہے ، آج کے انسان کا دل نیکی جیسے جذبے سے عاری نظر آنے لگا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں نیکی جیسے جذبے کا فقدان ہے ، نیکی او ربدی کا معرکہ ہمیشہ سے رہا ہے، بدی ایسا زہر ہے جو جسم میں داخل ہوتے ہی سیدھا دل میں سرایت کرتا ہے اور پھر دل میں ایسی جگہ مضبوط کر لیتا ہے کہ پھر اس دل پر بدی کا نشہ طاری رہنے لگتا ہے لہٰذا برائی کے زہر سے بچنا چاہیے۔
بحیثیت مسلمان یہ ہمارابنیاد فرض ہے۔گناہ کا ارتکاب کرنے سے پہلے اگر ہم سوچ لیں کہ اس کا انجام کیا ہو گا تو یقینا ہم گناہ سے بچنے کی سعی کرتے رہنے پر عمل پیرا ہو سکتے ہیں کیوں کہ نیکی یا برائی کا عمل غیر اختیاری نہیں ہے، یہ سب ہمارے اختیار میں ہوتا ہے ، اگر ہم نیکی کو رد کرکے برائی کی راہ اختیار کرتے ہیں تو سمجھ لیں کہ گناہ کا تسلسل ایک تاریک رات کی مانند ہے جسے ہم طول دے رہے ہیں اور یہ رات ختم ہونے کو نہیں آتی مگر ایسا نہیں ہے کیوں کہ ہر رات کی ایک صبح ہوتی ہے مگر ہم اس رات کی صبح سے محروم کیوں ہیں، ہم بھی اس رات کی صبح پاسکتے ہیں۔
تحریر : راشد علی راشد اعوان