تحریر : شہزاد حسین بھٹی
جب بھی کسی کی دم پر پاوں آتا ہے تو وہ یوں تلملا اٹھتا ہے جیسے وہ تو فرشتہ ہے اور کرپشن اور بدعنوانی میں ملوث نہیں ہے۔پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم عرصہ دراز سے یہ واویلا کرتی آر ہی ہیں کہ سندھ میں تمام وفاقی ایجنسیاں بشمول رینجرز کاروائیاں کر رہی ہیں جبکہ پنجاب جسکی آباد ی تیرہ کروڑ ہے کیا وہاں کوئی کرپشن نہیںہو رہی ؟کیا پنجاب میں سماج دشمن عناصر موجود نہیں ہیں؟ پنجاب میں میڑو، اورنج لائن ٹرین منصوبہ اورنندی پور جیسے میگا پراجیکٹوںمیںاربوں روپے کی کرپشن ہو رہی ہے۔ رانا مشہود کی کرپشن زبان زد و عام ہیں لیکن وہاں قانون کی آنکھوں پر کالی پٹی بندھی ہے۔ احتساب کا عمل پورے ملک میںیکساں نہیں ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے دبائو پرآخر کار پنجاب میں بھی سماج دشمن عناصر اور میگا کرپشن میں ملوث حکومتی وزراء کے خلاف گھیرا تنگ ہونے کے عندیے ملنے شروع ہو گئے ہیں۔بلکہ نیب نے رانا مشہود کی کرپشن پر تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
ملکی معیشت میں بہتری کے دعوئے تو عرصہ دراز سے کئے جا رہے ہیںجبکہ اپوزیشن کا موقف اسکے برعکس رہا ہے اُن کا کہنا یہ ہے کہ معیشت میں بہتری کے اشاریئے غلط ہیں اور حقیقت میں ملک کو بھاری قرضے لے کر گروی رکھا جا رہا ہے اور اس قرضے کی واپسی کے لیے آئی ایم ایف کو ملک کے اہم اداروں کی نجکاری کی گارنٹی دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی پی آئی اے کو بیچنے کی تیاری کی جاتی ہے تو کبھی اسٹیل مل کو ،عالمی منڈی میں پیٹرول 30 بیرل سے بھی سستا ہو نے کے باوجود عوام کو ریلیف دینے کے بجائے حکومت یہی پیسہ میگا پراجیکٹوںکی نذر یا اپنے خسارے پورے کرتی دیکھائی دے رہی ہے۔وزیر اعظم ہیں کہ انکے غیر ملکی دورے ہی ختم نہیں ہوتے۔ اکتیس ماہ کے دور حکومت میں وزیر اعظم نواز شریف نے چھ ماہ بیرونی دوروںمیں گزار دئیے۔
قومی اسمبلی کو بتائے جانے والے اعداد و شمار نے تو موجودہ حکومت کے بلند بانگ دعوئوںکی جیسے کلی ہی کھول دی۔ اپوزیشن نے قومی اسمبلی کو بتا یا کہ موجودہ حکومت نے کشکول توڑنے کے بجائے امریکی کانگریس میں قرضہ کی منظوری پر واہ واہ کر رہے ہیںجبکہ گذشتہ ڈھائی سالوںمیں 4600ارب روپے قرض لیاگیا جبکہ برآمدات میں 25 فیصدکمی آئی تو پھر معیشت کیسے بہتر ہو گئی؟ سید خورشیدشاہ کے چشم کشا حقائق نے تو موجودہ حکومت کو جیسے کرنٹ لگا دیا ہو ۔ انہوں نے قومی اسمبلی کوبتایا کہ حکومت عوام سے سچ بولنے کے بجائے بداعتمادی پھیلا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت بتائے کہ قرض اتاروملک سنوارو مہم کا پیسہ کہاں گیا۔حکومت عوام کو 250 ارب کا انجکشن لگا رہی ہے جبکہ سرکلر ڈیٹ 300 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔شیخ رشید نے بھی حکومت کو آڑھے ہاتھوں لیا اور کہا کہ قومی ایئر لائن کو باربی کیو والے نہیں بلکہ اچھی ٹیم کی ضروت ہے جبکہ فاروق ستار نے کہا کہ حکمران پاکستان کو” میرا سلطان “ڈرامے کی طرح چلا رہے ہیں۔
دُوسری طرف ہمارے وزیر اعظم بھی خوب ہیںجو کسی کا احسان کبھی نہیں بھولتے اور احسان کا بدلہ ضرور چکاتے ہیں۔ آن لائن کی خبر کے مطابق اسلام آباد کے مئیر کے لیے اچانک ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا گیاجس نے مری میں کوٹھی بنا کر دی اور وزیر اعظم کی پسندیدہ ڈش” اڑیسہ”انہیں اپنے ہاتھوں سے بنا کر کھلاتے رہتے ہیں۔یاد رہے کہ اس پہلے دہی بھلے کھلانے والے کو اس ملک کے سپریم منصب پر فائز کر دیا۔پاکستان کے دورے پر آئے ہمارے وزیر اعظم کا عوام کی حالت زار کا مکمل ادراک یہ ہے کہ آلو کا ٹھیک بھائو بھی انہیں معلوم نہیں۔اسٹیل ملز کے معاملات میں بہتری لانے کے لیے پاکستانی عوام نے یہاں تک کہنا شروع کر دیا ہے کہ حکومت پاکستان جو اسٹیل ملز کو بیچنے پر تلی ہوئی ہے وہ اُسے بیچنے کے بجائے اس کے معاملات حسین نواز کے سپرد کر دئیے جائیں تاکہ انتظامی معاملات میںبہتری آئے اور وہ دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑی ہو سکے جیسے اتفاق فائونڈری کو چلا یا جا رہا ہے۔
دوسری طرف پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف ہڑتال اور سیاسی جماعتوں کی مداخلت پراسکی نجکاری چھ ماہ کے لیے ملتوی کی گئی ہے اور حکومت کی طرف سے پی آئی اے کے معاملات کو بہتر کرنے کے لیے ایک کیٹرنگ والے کو جو اٹک جیل میںنواز شریف کو باربی کیو پہنچاتا تھا اسے پی آئی اے کاایم ڈی لگا دیا گیا جیسے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے خاص دوست کو نوازنے کے لیے جو کہ صرف میڑک پاس تھا ، اوجی ڈی سی ایل کا چیرمین لگا دیا تھا۔
دوائوں کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ بھائی ایسا کیا ہو گیا جو دوائوں کی قیمتوں میں اضافہ کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ عالمی منڈی میںپیڑول تاریخ کی کم ترین سطح پر ہونے کے باوجود حکومت نے اپنے منافع کو بڑھانے کے لیے اس پر 51 فیصد،مٹی کے تیل پر 62 فیصداور ڈیزل پر 98 فیصد ٹیکس لگا دیا گیا ہے جو کہ اس ملک کے غریب عوام پر ظلم عظیم ہے جسکے لیے عوام کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کو سڑکوں پر آنا چاہیے تاکہ اس حکومت کے عوام مخالف اقدامات پر اسے روکا جا سکے۔ اسی طرح بجلی پر تین نئے ٹیکس لگا کرعوام سے اربوں روپے وصول کیے جا رہے ہیں جبکہ بجلی کی پیداوار میں اضافے کی کوئی نوید بر نہیں آئی ہے اور موسم گرما آنے والا ہے پھر لوڈ شیڈنگ ہو گی اور حکومت اپوزیشن مناظرے۔ حکومت نے اپنے پراجیکٹ چلانے کے لیے پارلیمان کی مرضی کے بغیر 400 ارب کے ٹیکس لگا دئیے ہیں۔ ایمنسٹی اسکیم متعارف کروائی گئی ہے تاکہ پانچ کروڑ سے زائد کا کالا دھن رکھنے والے اپنے خاص لوگوں کو نوازا جاسکے۔
گڈ گورنس کا یہ حال ہے کہ عام آدمی آج بھی دو وقت کی روٹی کو محتاج ہے۔سکولوں کی فیسیں دن بدن بڑھا ئی جا رہی ہیں۔انسان اور جانور آج بھی ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے دیکھائی دیتے ہیں۔رشوت کے بغیر کسی بھی سرکاری ادارے سے کام نہیں کروایا جا سکتا۔حوس اقتدار ہے کہ اس کا ٹھہرائو کہیں دیکھائی نہیں دیتا،ظلم وزیادتی کا بازار گرم ہے، طاقت ور کمزور کو روند رہا ہے۔ خوف اور دہشت کی ایک ایسی نہ ختم ہونے والی فضا بنا دی گئی ہے کہ جہاں روز بچوں کو سکو ل بھیج کر جب تک وہ واپس نہیں آ جاتے والدین سکون سے نہیں بیٹھ سکتے۔ سائینسی ترقی کے عروج اورجدید سہولیات کے باوجود آج جانور تو محفوظ ہے لیکن انسان نہیں ہے۔ عوام کوجانور وں کی طرح بیچا جا رہا ہے اور ہر پانچ سال بعد اسکی بولی لگائی جاتی ہے اور پھر پانچ سال اسے زندہ درگور کر دیا جاتا ہے۔گڈ گورنس میں حکومت کا اوڑھنابچھونا عوام کی خدمت ہوتا ہے ترقی یافتہ ممالک میں انسان قیمتی ہوتا ہے اور جو ں ہی وہ پیدا ہوتا ہے وہ حکومتی پے رول پر چڑھ جاتا ہے۔ اشیاء ضروریہ سے لے کر مفت تعلیم، رہائش، علاج اور وظیفہ حکومت کے ذمہ ہوتا ہے اور جب وہ ریٹائرڈ ہو جاتا ہے تو اسے سینئر سیٹزن قرار دے کر اسکی باقاعدہ پنش مقرر کر دی جاتی ہے تاکہ اسے کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانے پڑیں۔
لیکن ہمارے ہاں وہ پیدا ہوتے ہی ایک لاکھ روپے کا مقروض ہو جاتا ہے،مہنگی تعلیم ، رہائش ، علاج کے بعد بوڑھا ہوتے ہی پہلے اسے پنشن لینے کے لیے کئی سال مختلف سرکاری محکموں کے دھکے کھانے پڑتے ہیں اور بعض اوقات اسکی نوبت بھی نہیں آتی اوروہ سرکاری اداروں کے درمیاں فٹ بال بنتے بنتے اس دنیا سے چھ فٹ کی قبرمیں جا پہنچتا ہے۔لیکن گڈ گورنس برقرار رہتی ہے۔سوئس بنکوں میں 200 ارب ڈالر کسی غریب کے نہیں انہی سماج سیوا لیڈروں کے ہیں جو اس بھولی بھالی عوام کے خون کو نچھوڑ کر ان کے جسموں کو بیلنے میں ڈال رہے ہیں تاکہ پھوک سے بھی کچھ نکالا جا سکے۔ نیب کے متحرک ہونے اورپنجاب کے کرپٹ وزراء ، بیوروکریٹوں کے خلاف گھیرا تنگ ہونے پر ان کرپٹ مافیا کے درمیان کھلبلی مچ گئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم بھی انکے دفاع میں میدان عمل میں کود پڑے ہیں۔ پہلے انہوں نے چیرمین نیب کو ایوان وزیر اعظم طلب کیا جیسے پرویز مشرف نے سابق چیف جسٹس کو طلب کیا تھا۔
لیکن چیر مین نیب نے وزیر اعظم ہائوس جانے سے انکار کیا جس پر بادشاہ سلامت نے چیرمین نیب پر دبائو بڑھانے کے لیے نیب کودھمکی دے ڈالی ہے کہ اگر نیب نے اپنا قبلہ درست نہ کیا تونیب میں کمیشن بنایا جائے گا تاکہ چیرمین نیب کے اختیارات کو کم کیا جاسکے اور اس سلسلے میں کمیشن بنانے کی تیاریاں حکومت کی طرف سے کی جا چکی ہیں۔اس طرح اپوزیشن جماعتوں کا ردعمل بھی سامنے آیا ہے کہ اگر نیب کے اخیتارات سلب کرنے کی کوشش کی گئی تو اپوزیشن اس کی بھر پور مخالفت کرئے گی اور اپوزیشن کو ایسا کرنا بھی چاہیے ۔ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میںروکاٹ بھی یہی کرپشن مافیا ہے ۔ ویسے بھی اپوزیشن جماعتوں کا مطالبہ تھا کہ احتساب کراس دی بورڈ ہونا چاہیے تاکہ کسی کو اس پر تحفظات نہ ہوںپنجاب میںفرشتے نہیں ہیں۔ وزیر اعظم کو اب یہ فکربھی لاحق ہو گئی ہے کہ جوکرپٹ عناصر جو آج انکے ساتھ کھڑے ہیں کل کہیںانکے خلاف وعد ہ معاف گواہ ہی نہ بن جائیں۔
تحریر : شہزاد حسین بھٹی