“جب میں نے اپنے بچے کی میّت کے ہاتھ چومنے کے لئے تھامے تو ان کی ہڈیاں ایسے تھیں جیسے ٹوٹ کر سُرما بن چکی ہوں۔ ”مشال کی ماں نے سسکتے ہوئے اینکر کو بتایا۔
13 اپریل، بروز جمعرات کی شب ایک خبر چل رہی تھی مردان کی یونیورسٹی میں ایک طالبعلم کو قتل کر دیا گیا اور کسی چینل نے یہ بتانے کی جرات نہیں کی کہ وجہ کیا تھی۔ ہمارے ہاں اکثر اس طرح کے واقعات ہوتے رہتے ہیں اور ہم ان کے عادی ہو چکے ہیں، اسی لیے اس خبر کو بھی اتنا سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ اصل وبال اس وقت اٹھا، جب سوشل میڈیا پر حقائق بتائے گئے اور مشال کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی۔ وہ ویڈیو دیکھ کر میں کئی منٹ تک ساکت رہ گیا تھا۔ کوئی اِتنا وحشی بھی ہو سکتا ہے؟ کوئی اتنا گرا ہوا بھی ہو سکتا ہے؟ اس ویڈیو میں منظر کچھ اس طرح کا تھا، “ایک خون کے تالاب میں برہنہ زخمی لاش پڑی تھی اور لوگ اس پر لاٹھیاں برسا رہے تھے۔ کوئی لاش پر تھوک رہا تھا، کوئی ڈنڈے برسا رہا تھا۔ کوئی لاش پر اچھل رہا تھا۔ نہ کوئی اس کے باپ کے بوڑھے چہرے کا سوچ رہا تھا، نہ کوئی اس کی ماں کی آہوں سے ڈر رہا تھا، جس طرح کر سکتے تھے ویسے ہی سب اپنی نفرت کا اظہار کر رہے تھے اور رحمت العالمین کے نام پر کر رہے تھے اور سرِ عام کر رہے تھے۔ وہ ویڈیو دیکھنے کے بعد میں کئی دنوں تک سو نہیں پایا۔ اِک کرب و اذیت ذات کا اِک مستقل سا حصہ بن گئی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ وہ کون سا مذہب ہے جو اجازت دیتا ہے کسی کے کمرے کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوں، اندر موجود شخص پر تشدد کریں ، اسے برہنہ کر کے اسے اس کی ہی نظروں میں گرا دیں، اس کے بعد اس کے جسم میں دو گولیاں اتار کر اس سے اس کی زندگی کا حق چھین لیں، پھر اس کی لاش کو دوسری منزل سے نیچے پھینکیں اور اس کی لاش کے ساتھ بےحرمتی کی وہ وہ داستانیں رقم کریں جو ناقابلِ بیاں ہوں۔
سوشل میڈیا پر معاملہ اٹھائے جانے کے بعد حکام حرکت میں آئے، گرفتاریاں ہوئیں، عدالت میں کیس چلا، جے۔آئی۔ ٹی نے رپورٹ دی اور کل بالآخر فیصلہ سنا دیا گیا۔ فیصلے میں فائرنگ کرنے والے عمران کو سزائے موت، پانچ کو 25 سال قید اور پچیس لوگوں کی پانچ پانچ سال قید سنائے گئی جب کہ چھبیس افراد کو عدم ثبوت کی بناء پر رہا کر دیا گیا۔ اس پوری کارروائی کا سہرا جے۔ آئی۔ ٹی کے سر جاتا ہے، جس نے اپنی نوکریوں کو خطرے میں ڈال کر محنت کی۔ جے۔ آئی۔ ٹی میں شامل پولیس سربراہ کا رپورٹ پیش ہونے فوراََ بعد تبادلہ کر دیا گیا (خان صاحب کی دباؤ سے آزاد پولیس)، ملٹری انٹیلی جنس کے اہلکار کا بھی تبادلہ کر دیا گیا اور ایف۔ آئی۔ اےکے رکن کا بھی تبادلہ کیا گیا۔ جس کے خلاف ایف۔ آئی۔ اے رکن جب عدالت گئے تو ان کے خلاف ایک جھوٹا مقدمہ دائر کر دیا گیا۔ ان سب کے باوجود ان سب نے پوری ہمت و ایمانداری سے مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ اسی طرح کے لوگوں کی بدولت یہ ملک چل رہا ہے۔
جماعتِ اسلامی کے مردان کے امیر عطاءالرحمان نے رہا ہونے والے “غازیوں” کے لئے ایک ریلی کی کال دی، جس میں رہا ہونے والوں کو پھول پہنائے گئے اور سب نے اپنے عمل پر فخر کا اظہار کیا۔ وہی جماعت اسلامی، جس کے امیر سراج الحق کا وضو مشال پر بات کرتے ہوئے ٹوٹ جاتا ہے۔ وہی جماعت اسلامی جس کے امیر منوّر حسن نے فوج کی شہادتوں پر فتوے دئیے تھے۔ جب تک ایسے عناصر ہمارے معاشرے میں موجود لوگوں کی ہم حوصلہ شکنی نہیں کریں گے تب تک امن و سکون کا تصور بھی حرام ہے۔
مشال کا واقعہ شاید پیش نہ آتا اگر ہم سلمان تاثیر کے قاتل کو گلے سے نہ لگاتے۔ وہ شخص جس کو اس ملک کی سب سے بڑی عدالت نے دہشت گرد کہا، ہمارے وفاقی وزیر جا کر اس کا ماتھا چومتے رہے۔ وہ تو شکریہ مشال کا، جس کی بدولت ہمارے ہاں لوگوں میں اتنی جرات آئی کہ حق کے لئے بولیں، انتہا پسندی کی کھل کر مخالفت کریں کہ کہیں یہ آگ ہمارے گھر تک نہ پہنچ جائے۔
میرے شفیق استاد عدنان محسن کی ایک نطم جو انہوں نے مشال کے نام لکھی تھی، آپ کی خدمت میں پیش ہے!
ہجوم ہٹ نہیں رہا۔ ۔ ۔ ۔
ہجوم جس کی ٹھوکروں کی ضرب سے
ہوا میں ہانپتا ہوا غبار چھٹ نہیں رہا۔ ۔ ۔
غبار میں جو خاک ہےزمین سے اُڑی ہے یا
کسی کے سرد جسم سے۔ ۔ ۔خبر نہیں
(خبر بھی ہو تو کیا بگاڑ لے کوئی)
ہجوم ہٹ نہیں رہا۔ ۔ ۔
ابد کی شاخِ سبز پر کھلا ہوا
شباب کا گُلاب پتیوں میں بٹ نہیں رہا۔ ۔ ۔
ہجوم بے سکون ہے۔ ۔ ۔ سوال مر نہیں رہا
سوال کا زبان سے جڑا ہوا جو تار ہے
وہ تار کٹ نہیں رہا
ہجوم ہٹ نہیں رہا
وہ مر گیا۔ ۔ ۔
ہجوم اس کی ماں کی بد دعا سے ڈر نہیں رہا
ہجوم اسے چٹختی پسلیوں کے بل گھسیٹتا چلا گیا
کسی نے اس کے زخم کو لعاب کا کفن دیا
کوئی بدن کو لاٹھیوں سے پیٹتا چلا گیا
قریب چند لوگ عکس بند کر رہے ہیں
کیمروں میں ایسے کھیل کو
کہ جس میں سب کھلاڑیوں کی آستیں پہ خون ہے
ہجوم کو جنون ہے۔ ۔ ۔ ہجوم ہٹ نہیں رہا
میں منتظر ہوں اک طرف۔ ۔ ۔
مرے عقب میں چُپ کھڑی ہے اک محافظوں کی صف
ہجوم ہٹ نہیں رہا۔ ۔ ۔
ہجوم سے کہو ہٹے۔ ۔ ۔ غبار جانے کب چھٹے!
میں اس کے درد سے بھنچے شکستہ ہاتھ کی گرفت سے
ذرا سی نظم کھینچ لوں
محافظوں کا ترجماں۔ ۔ ۔ دعائے خیر میں مگن؟
نہیں نہیں!وہ پہلے سے رَٹا ہوا بیان رَٹ نہیں رہا۔
مشال خان!خیر ہو!
تماشا گاہ سے تُو رائیگاں پلٹ نہیں رہا۔ ۔ ۔
ہجوم ہٹ نہیں رہا۔