لاہور (ویب ڈیسک) وزیراعظم کے ’’خوشخبری‘‘ والے ٹویٹ نے ہمارے دوست ’’طرم خان‘‘ کی خوشیوں میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔گزشتہ روز سے ایک ٹانگ پر اچھل اچھل کے پشتو میں نجانے کون کون سے ’’سندرے‘‘ گاتا پھرتا ہے۔پہلے اس کے پس منظر سے آگاہ ہونا اپنا ’’مسلکی‘‘ فریضہ سمجھتی ہے۔ اس سے پہلے کہ نامور کالم نگار محمد افضل عاجز اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’طرم خان‘‘ مائی کے مونہہ میں برفی کی ڈلی ڈال دیتا ۔ حاجن بی بی نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے پوچھا۔۔۔ پہلے یہ بتاؤ کس خوشی میں بانٹ رہے ہو ’’طرم خان‘‘ نے اپنی ٹوپی میں مونہہ چھپاتے ہوئے کہا: ’’اللہ نے ہمیں بھتیجے کی خوشی دکھائی ہے‘‘ اماں ہم چاچا بننے والے ہیں طرم خان کے جواب پر ’’مائی حاجن‘‘ نے دائیں ہاتھ کی دوسری انگلی ماتھے پر رکھتے ہوئے کہا طرم خان تمہارا تو کوئی بھائی ہی نہیں ہے تو پھر تم چاچا کیسے بن سکتے ہو۔ اس بار ’’طرم خان‘‘ کو منہ چھپانے کی کوئی جگہ نہ ملی تو اُس نے مائی حاجن کی چادر میں مونہہ چھپاتے ہوئے کہا۔۔۔ اماں جماعت کا لیڈر بھی تو بھائی ہی ہوتا ہے۔آگے آپ خود سمجھدار ہیں، میرا مطلب ہے عمران خان کے گھر سے اچھی خبر آنے والی ہے، جواباً مائی حاجن نے ’’طرم خان‘‘ کو باقاعدہ کوستے ہوئے کہا، کم بخت پہلے بات کی تصدیق کر لیا کر، پھر اس کے بعد بھنگڑے ڈالا کر۔۔۔! اب اگر دیکھا جائے تو طرم خان کا بھی کوئی قصور نہیں ہے۔وزیراعظم نے تین ہفتوں کے حوالے سے جو ٹویٹ کیا ہے، اس کا زیادہ سے زیادہ یہی مطلب نکالا جا سکتا ہے جو ’’طرم خان‘‘ نے نکالا۔۔۔کیونکہ جس حکومت نے سات ماہ میں ملکی ترقی کے حوالے سے کوئی کارکردگی نہ دکھائی تو تین ہفتوں میں کیا دکھائے گی۔ مجھے نہیں معلوم کہ وزیراعظم ہر بات پر ’’ٹویٹ‘‘ کیوں کرتے ہیں،ابھی گزشتہ روز انہوں نے ہندوستان کے وزیراعظم کے پیغام کے بعد ’’ٹویٹ‘‘ دے مارا۔۔۔ مودی نے یوم پاکستان کے حوالے سے جو پیغام دیا ہے وہ ایک روایتی پیغام ہے، جو کہ کسی بھی ملک کے قومی دن کے موقع پر ہر ملک جاری کرتا ہے، اس طرح کے پیغام سے زبانی خیر سگالی کا اظہار ضرور کیا جاتاہے،مگر عملی طور پر تعلقات کے حوالے سے کوئی خوشخبری نہیں ہوتی۔۔۔مودی کے پیغام کے جواب میں زیادہ سے زیادہ وزارتِ خارجہ یا پھر وزارتِ داخلہ کے کسی ’’اہلکار‘‘ کے ذریعے ’’میڈیا پریس ریلیز‘‘ جاری کرانی چاہئے تھی۔۔۔ کہ مودی نے خیر سگالی کا پیغام دیا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مودی کے پیغام کو سمجھا بھی نہیں گیا۔۔۔ مودی کے پیغام میں خیر سگالی سے زیادہ ’’وارننگ‘‘ یا دوستی بڑھانے کی ’’شرط‘‘ موجود ہے۔اس نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ علاقے میں امن قائم کرنے کے لئے ’’دہشت گردی‘‘ کی روک تھام ضروری ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس نے ’’دہشت گرد‘‘ کسے کہا ہے ظاہر ہے ہندوستان میں مسلمانوں پر تشدد کرنے والے ہندوؤں کے بارے میں تو نہیں کہا اور نہ انہوں نے کشمیر میں کشمیریوں پر ظلم ڈھانے والی ہندوستانی فوج کے بارے میں کہا ہے،وزیراعظم کو چاہئے تھا کہ وہ مودی کے پیغام پر ٹویٹ کرنے سے پہلے وزارتِ خارجہ کے اہلکاروں سے رابطہ کرتے اور ان سے پوچھتے کہ مودی نے جو بیان دیا ہے،اس پر ’’سفارتی‘‘ حوالے سے کیا جواب بنتا ہے،مگر ہمارے وزیراعظم کے پاس الٰہی مشاورت کرنے کا وقت نہیں۔سو وزیراعظم نے ٹویٹ دے مارا۔ اس سے پہلے بھی وزیراعظم نے ٹویٹ کیا۔۔۔ کہ وہ تین بار مودی سے رابطہ کر چکے ہیں،مگر مودی ان کا فون نہیں سُن رہا۔۔۔ وزیراعظم کا یہ بیان بیس کروڑ عوام کے نمائندے کا نہیں ہو سکتا۔ حیرت کی بات ہے کہ ایک ملک جس نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہمارے علاقے میں دخل اندازی کی۔۔۔ مزید حیرت کہ اس نے باقاعدہ ’’ہوائی حملہ‘‘ کیا، خوش قسمتی سے پاکستان ایئر فورس کے شاہینوں نے ان کے دونوں طیاروں کو فضا ہی میں راکھ کا ڈھیر بنا دیا اور ایک پائلٹ کو گرفتار کر لیا۔۔۔ اور پھر جلد بازی ایسی کہ دوسرے دن اس پائلٹ کو پورے احترام کے ساتھ اپنے ملک بھیج دیا۔۔۔ گو کہ پائلٹ کو زیادہ دیر تک قید نہیں رکھا جا سکتا تھا۔۔۔ مگر پھر بھی اتنی جلدی کی ضرورت نہیں تھی۔۔۔ جواباً کیا ہوا۔۔۔ ہندوستان بھر میں کہا گیا کہ پاکستان نے خوف کی وجہ سے ہمارے پائلٹ کو رہا کر دیا ہے، پائلٹ کی رہائی سے ہندوستان میں میرا نہیں خیال کہ مودی کی سیاست کو کوئی فرق پڑا ہے یا پڑے گا۔۔۔ لیکن اس رویئے سے ہندوستان کے مودی کی گردن میں مزید ’’سریا‘‘ آ گیا ہے۔ ہمارے وزیراعظم کو اب ٹویٹ کی دُنیا سے باہر نکلتے ہوئے زمینی حقائق کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے، ملک کے معاشی حالات ’’ٹویٹ‘‘ کے ذریعے نہیں بدل سکتے، اس کے لئے سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے،کیونکہ ملک کے معاشی حالات بگڑ چکے ہیں۔ جب سبز مرچ پانچ سو روپے کلو بک رہی ہو،اس ملک کے عوام بہتری کی امید رکھیں تو کس سے رکھیں۔وزیراعظم کو اب نواز شریف، آصف علی زرداری اور اپوزیشن کے دیگر لوگوں کے ’’سحر‘‘ سے باہر نکلنا چاہئے، انہیں عام لوگوں کی بھلائی کے لئے بھی کچھ کرنا چاہئے، لوگ ان سے بہت امیدیں لگائے بیٹھے ہیں اور اب بھی امید رکھتے ہیں کہ وزیراعظم قومی اور بین الاقوامی معاملات کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کریں گے اور عوام کے حقیقی مسائل کو سمجھنے کی کوشش کریں گے،اِس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ آپ کسی بھی ’’چیز‘‘ کو ہاتھ لگائیں جواباً دکاندار آپ کا ہاتھ کاٹنے کو تیار نظر آتا ہے۔۔۔ وہ نواز شریف جو کرپٹ تھا،اس کے دور میں آٹا ،گھی،چینی، پٹرول، تیل، کرائے کتنے تھے اور اب اس ’’ایماندار‘‘ حکومت کے دور میں کیا ہیں۔ وزیراعظم کو ان سب چیزوں کو درست کرنے کے لئے ٹویٹ، نہیں عوام کو سستی اشیاء کا ’’ٹربیوٹ‘‘ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ ’’ریاستِ مدینہ‘‘ کے امیر المومنین کو ہاتھ میں ’’موبائل‘‘ پکڑ کے ٹویٹ کرنے کی نہیں، ’’دُرا‘‘ پکڑ کے مارکیٹوں، بازاروں، سڑکوں، چوراہوں اور دکانوں پر چکر کاٹنے کی ضرورت ہے، لوگ جس بہتری کی امید کے ساتھ تحریک انصاف کی حکومت لائے تھے،اب ان کے ذہنوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے،لوگوں کی بڑھتی ہوئی بے چینی تحریک انصاف کے لئے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔وزیراعظم اپوزیشن کو للکارتے ہیں کہ وہ اگر احتجاج کرنا چاہتی ہے تو ’’کنٹینر‘‘ حکومت دینے کے لئے تیار ہے، وزیراعظم کو یاد رکھناچاہئے کہ اگر اس نے محض ’’ٹویٹ‘‘ کے ذریعے حکومتی اقدامات اٹھائے اور خوشخبرباں سنائیں تو پھر وہ دن دور نہیں، جب اپوزیشن سے پہلے عوام ’’کنٹینر‘‘ پر چڑھ دوڑیں گے، لہٰذا ٹویٹ نہیں عوام کو ’’ٹربیوٹ‘‘ پیش کریں۔