وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے خوش خبری سنائی ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے کراچی سرکلر ریلوے کو دوبارہ فعال کرنے کے منصوبے کو پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں شامل کرلیا ہے۔ وفاقی حکومت نے کراچی اربن ٹرانسپورٹ کارپوریشن کا انتظام صوبائی حکومت کے حوالے کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور ریلوے کے وزیر خواجہ سعد رفیق کے درمیان ایک ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ سی پیک منصوبے میں یہ منصوبہ شامل کیا جائے گا مگر پہلے مرحلے میں ڈرگ روڈ سے الٰہ دین پارک تک سرکلر ریلوے چلے گی۔
یہ فاصلہ تقریباً 5 کلومیٹر کے قریب ہوگا۔ پھر دوسرے مرحلے میں یہ ریل سٹی اسٹیشن سے اسٹیل ملز تک جائے گی اور اس کا دائرہ کارسپر ہائی وے تک اور ٹاور تک بڑھایا جائے گا۔کراچی والوں کے لیے ڈرگ روڈ سے الٰہ دین پارک تک ریل چلانے کا اعلان محض مذاق ہی سمجھا جائے گا۔ وزیراعظم کی زیرِ نگرانی سی پیک کے منصوبے کے تحت لاہور میں اورنج ٹرین کا منصوبہ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا منصوبہ کب شروع ہوگا اربابِ اختیار اس بارے میں خاموش ہیں۔
وفاقی حکومت بورڈ آفس سے گرومندر تک گرین لائن بس منصوبے کی تعمیرکررہی ہے۔ جب وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اس منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھا تھا تو سابق وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے گذارش کی تھی کہ یہ منصوبہ ٹاور تک کردیا جائے۔ حکومت سندھ نے اورنگی سے بڑابورڈ تک گرین لائن منصوبے کی توسیع کا وعدہ کیا تھا جس پر عملدرآمد اب شروع ہوگیا ہے۔ شہری ماہرین کہتے ہیں کہ اب کراچی میں ماس ٹرانزٹ اسکیم ہی کراچی کے شہریوں کو باعزت ٹرانسپورٹ فراہم کرسکتی ہے۔
کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے کی بھی عجیب داستان ہے۔ جب 60ء کی دہائی میں کراچی میں صنعتیں لگنے لگیں، مزدوروں کی نئی بستیاں آباد ہونے لگیں اور شہر ایک طرف سائٹ اور دوسری طرف لانڈھی تک پھیل گیا اوراطراف میں مزدور بستیاں آباد ہوگئیں تو ایوب خان کی حکومت نے ریلوے کو شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔اس منصوبے کے تحت پشاور سے آنے والی مرکزی ریلوے لائن پر قائم ہونے والی بستیوں پر ریلوے اسٹیشن قائم کیے گئے۔ اس کے ساتھ ہی وزیرمینشن سے سائٹ، ناظم آباد، لیاقت آباد، گلشن اقبال اور ڈرگ روڈ تک ریلوے لائن تعمیر کی گئی۔
یہ ریلوے لائن ناتھا خان گوٹھ پر مرکزی لائن سے منسلک ہوگئی۔ 60ء کی دہائی میں متوسط اورنچلے متوسط طبقے کی بیشتر بستیوں کو سرکلر ریلوے نے مرکزی ریلوے لائن سے منسلک کردیا۔ صبح کے اوقات میں پپری سے سرکلر ریلوے کے فلیٹ سٹی اسٹیشن،کیماڑی اور وزیر منشن سے آنے لگے۔ اسی طرح وزیرمینشن سے سائٹ، ناظم آباد اور گلشن اقبال جانے اور واپس آنے کے لیے ریل گاڑیاں میسر آنے لگیں۔ لانڈھی، ملیر اور ڈرگ کالونی سے صبح کے وقت ٹاور آنے کے لیے ہزاروں مسافرآدھے گھنٹے سے 45 منٹ کی مدت میں منزل تک پہنچ جاتے تھے۔
جن لوگوں کو صدر اور اطراف کے علاقوں میں جانا ہوتا وہ کینٹ اسٹیشن سے اترکر ٹرام میں سوار ہوکر چلے جاتے۔ سٹی اسٹیشن پہنچنے والے مسافر بسوں میں بیٹھ کر صدر اور ایم اے جناح روڈ چلے جاتے اور یوں شام کو پھر سرکلر ریلوے کے ذریعے واپس اپنی منزل تک پہنچ جاتے۔ یہی سہولت لانڈھی اور ملیر سے سائٹ جانے اور واپس آنے والوں کو میسر ہوتی۔ اس زمانے میں سرکلر ریلوے میں سفر کرنے والے معمر افراد بتاتے ہیں کہ ہر ماہ رعایتی پاس بنانے کی سہولت موجود ہوتی تھی اور ریلوے کا عملہ وقت کی پابندی کرتا تھا، مسافروں کے لیے ہر 15 منٹ بعد آنے والی سرکلر ریل کی سہولت موجود تھی، مسافر ریلوے پر اعتماد کرتے تھے۔ پھر کراچی میں ٹرانسپورٹ مافیا نے اپنے پنجے جمانے شروع کیے۔
ریلوے کے ٹائم ٹیبل میں گڑبڑ ہونا شرع ہوئی اور ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اس مافیا نے پہلے ٹرام وے سروس کو ختم کرنے کی مہم شروع کی۔ کراچی میں ٹرام ممبئی سے پہلے چلنا شروع ہوئی تھی، یہ اندرونِ شہر سفرکی بہترسہولت تھی۔کراچی پولیس حکام نے یہ واویلا شروع کیا کہ ٹرام کی پٹری سے سڑک پر ٹریفک میں خلل پڑتا ہے، اس بناء پر ٹرام کو ختم کیا جائے۔ حکام کے پاس ٹرام کے متبادل چھوٹی منی بسیں تھیں جس میں مسافر مرغا بن کر سفر کرتے تھے۔ دنیا بھر میں الیکٹرک ٹرام پبلک ٹرانسپورٹ کا لازمی جز ہے۔
یہ ٹرام کبھی زیر زمین اورکبھی سڑک پر چلتی ہے۔ حکام نے ٹرام سروس کو دیگر بستیوں تک پھیلانے اور الیکٹرک ٹرام چلانے کے بجائے مجموعی ٹرام وے سروس کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا، پھر سرکلر ریلوے کے نظام میں رخنہ اندازی شروع ہوئی۔ ٹرانسپورٹ مافیا نے ریلوے کی بدعنوانی اور بیوروکریسی سے ساز بازکرکے ریلوے کے اوقات کار میں گڑبڑ پیدا کرنا شروع کی۔ مسافروں کو وقت پر ریل گاڑی میسر ہونا مشکل ہوگئی۔ انجن کا خراب ہونا، ریل کے ڈبوں کے کھڑکی دروازوں اور روشنی پھیلانے والے بلب کا غائب ہونا معمول بن گیا۔ یوں ریل گاڑیوں کے لیٹ ہونے کا سلسلہ دراز ہوا۔ مسافروں کی تعداد کم ہونے لگی اور ریلوے کا خسارہ بڑھ گیا۔ حکام نے ریلوے کی سروس کو بہتر بنانے کے بجائے گاڑیوں کی تعداد کم کرنے کی حکمت عملی استعمال کی۔
70ء کی دہائی میں لانڈھی سے اپنے بیمار والد کا علاج کرانے کے لیے جناح اسپتال جانے والے نیوی کے سابق کمانڈر ایوب ملک ذکرکرتے ہیں کہ سرکلر ریلوے جناح اسپتال آنے اور جانے کا اس وقت سستا ترین ذریعہ تھا لیکن سرکلر ریلوے بند ہوگئی۔کراچی میں لینڈ مافیا ہمیشہ سے مضبوط ہے۔ پولیس، بیوروکریسی، سیاستدان، مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے بااثر افراد اس مافیا کے ذریعے سرکاری اور غیر سرکاری زمینوں پر قبضہ کرتے ہیں۔ لینڈ مافیا نے سرکلر ریلوے کی زمینوں پر قبضہ کرلیا اور پلاٹ بنا کر لوگوں کو فروخت کردیے، یوں کئی کالونیاں آباد ہوگئیں۔ ان بستیوں میں بجلی اور گیس کے میٹر لگ گئے۔ کے ڈی اے میں متحرک مافیا نے مکانوں کے مالکان اور مکانوں کو لیز کی دستاویزات تیارکردیں۔
کے ایم سی نے گلشن اقبال میں اردو یونیورسٹی کے سامنے سرکلر ریلوے کی زمین پر اوورہیڈ برج تعمیر کردیا۔ جب پرویز مشرف حکومت نے سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے زور دینے پر سرکلر ریلوے کو فعال کرنے کا عزم کیا تو اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز نے سرکلر ریلوے کاافتتاح کیا مگر یہ ریل گاڑی چنیسر ہالٹ سے سٹی اسٹیشن تک جاتی تھی، یوں شہرکا بیشتر حصہ اس سے مستفید نہیں ہوسکا اورکچھ عرصے بعد یہ ریل گاڑی بند ہوگئی۔ یہی وہ وقت تھا جب ایم کیو ایم کے کارکنوں نے زمینوں پر قبضے اور پلاٹوں کی فروخت کے لیے چائنا کٹنگ رائج کی۔ چائنا کٹنگ والے پلاٹ سرکلر ریلوے کی زمینوں پر بنے۔
جاپان کی حکومت نے اس صدی کے آغاز سے کراچی سرکلر ریلوے کو بحال کرنے کی پیشکش کی۔ برسر اقتدار حکومتوں نے جاپانی ادارہ جائیکا کی پیشکش کا خیر مقدم کیا۔ اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ جائیکا والے پہلے تجاوزات کا خاتمہ چاہتے تھے مگر حکومت سندھ ان تجاوزات کو ختم کرانے میں ناکام رہی۔ ایک سینئر صحافی کاکہنا ہے کہ جاپانی حکومت نے اپنی موبائل انڈسٹری کی وجہ سے کراچی کے سرکلر ریلوے کے منصوبے میں بہت زیادہ دلچسپی نہیں لی۔ اسی زمانے میں سابق صدر آصف علی زرداری نے چینی ماہرین کو اس منصوبے کی طرف متوجہ کیا تھا مگر کراچی میں ایم کیو ایم کی نظر نہ آنے والی حکومت کی بناء پر ان کی یہ کوشش ناکام ہوگئی۔کراچی میں امن و امان کی صورتحال سے پبلک ٹرانسپورٹ براہِ راست متاثر ہوئی۔ بسوں اور منی بسوں کے مالکان نے سرمایہ لگانا چھوڑ دیا اور کئی ٹرانسپورٹر تاوان کے لیے اغواء کرلیے گئے، یوں کراچی شہر کا پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام تباہ ہوگیا۔ ایم کیو ایم کے سیکٹر انچارج صاحبان کی سرپرستی میں چین سے مال برداری کے لیے درآمد کیے جانے والے چنگ چی رکشہ ہر طرف چلنے لگے۔ یہ چنگ چی رکشہ پبلک ٹرانسپورٹ کی تعریف میں نہیں آتے۔ پھر سی این جی رکشے اس قطار میں شامل ہوگئے۔ چنگ چی رکشوں میں چوری کی موٹر سائیکلیں استعمال ہونے لگیں۔ کراچی پولیس کی ایماء پر چنگ چی رکشوں پر پابندی لگ گئی تو ایسی صورت میں عوام کے پاس ان رکشوں کا بھی کوئی متبادل نہ تھا، لہٰذا اب عام آدمی کے لیے مشکلات بڑھ گئیں۔ لوگوں نے موٹر سائیکل کو متبادل کے طور پر ذریعہ بنایا، یوں حادثات کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی۔ گزشتہ سال ایک ہزار کے قریب افراد حادثات میں ہلاک ہوئے جن میں سے بیشتر موٹر سائیکل سوار تھے۔
پبلک ٹرانسپورٹ کے ماہرین کہتے ہیں کہ دنیا کے جدید شہروں کی طرح کراچی کے پبلک ٹرانسپورٹ کے مسئلے کا حل ماس ٹرانزٹ اسکیم ہے۔ اس اسکیم کے تحت ریل گاڑی ، ٹرام اور بڑی بسیں شہر میں چلنی چاہئیں۔ ریل گاڑی اور ٹرام زیرِ زمین ، زمین پر اور اوورہیڈ برج پر چلنی چاہیے۔ سرکلر ریلوے اور گرین لائن بس سروس سے پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ جزوی طور پر حل ہوگا لیکن یہ مستقل حل نہیں ہے۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ لاہور میں میٹرو بس کو چلے کئی سال ہوگئے اور اب اورنج ٹرین تعمیر کے آخری مراحل میں ہے، جب کہ اسلام آباد میں بھی میٹرو نے شہریوں کی زندگی کو آسان کردیا ہے جب کہ کراچی کے لیے ابھی تک سفرکے لیے کوئی جامع منصوبہ نہیں ہے۔ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کو اس مسئلے پر بھی سوچنا چاہیے۔