لاہور (ویب ڈیسک) لاہور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے نے نوُن لیگ کے گزشتہ 5 سالہ اقتدار سے پہلی حکومت کا دور یاد دِلا دیا۔ مقام ہے اسلام آباد کا پارلیمنٹ ہائوس۔ وقت ہے نیم شَب۔ انہی عدالتی مفروروں کی پارٹی نے سوات میں ایک ایسے مولوی کے خلاف پرجوش طریقے سے نامور کالم نگار بابر اعوان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ریاستی ایکشن کی منظوری دی‘ جس نے کہا تھا: نہ میں پارلیمنٹ کو مانتا ہوں اور نہ ہی سپریم کورٹ کو۔ سمدھی ٹولے کا عدالتی مفرور جو کچھ کہہ رہا ہے اور کر رہا ہے‘ یہ بھی سوچ لیجئے کہ اس کا معاملہ سوات کے مولوی صاحب سے کس طرح مختلف ہے‘ جس نے کہا تھا‘ میں پارلیمنٹ کو نہیں مانتا۔ سمدھی ٹولے کا یہ فرزندِ مفرور اور بیزارِ عدل 3 مارچ 2018ء کو ملک کے سب سے بڑے صوبے سے ایوانِ بالا کا رُکن منتخب کرایا گیا۔ ہائوس فیڈریشن کے باقی ارکان نے 12 مارچ 2018ء کو اپنے عہدوں کا حلف لیا۔ آج 402 دن گزر جانے کے بعد بھی سمدھی ٹولے کا یہ عدالتی مفرور سینیٹ آف پاکستان کو ماننے سے انکاری ہے۔ حلف اُٹھانے سے انکاری ہے۔ وطن واپس آکر اس کے اجلاس میں شرکت کرنے تک سے بھی انکاری ہے۔ یہاں کئی اہم آئینی سوال پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ شدہ عشروں پرانے جاوید ہاشمی کیس جس کی رو سے کوئی عوامی عہدہ خالی نہیں رکھا جا سکتا‘ خواہ اس کی وجہ پبلک آفس ہولڈر کی نا اہلی ہو، عہدے میں قانونی سقم یا پھر کوئی بھی اور تکنیکی صورتِ حال۔ عدالتِ عظمیٰ کے اس فیصلے کی بنیاد پاکستان کا آئینی ادارہ جاتی نظام ہے‘ جس پر کروڑوں، اربوں روپے خرچ کرکے وفاق کو ہائوس آف فیڈریشن میں مساوی نمائندگی دینے کے لیے سینیٹ کے الیکشن منعقد کروائے جاتے ہیں۔ یہ کوئی بے روح اور بے جان ایکسرسائز نہیں‘ بلکہ اس کے پیچھے آئین کا ایک پورا باب، خاص طور سے آرٹیکل 218 ہے‘ جس سے پیدا ہونے والے مباحث پر مبنی آئینی عدالتوں کے فیصلوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ دوسرے نمبر پر پاکستان میں ایڈمنسٹریشن آف کریمنل جسٹس سسٹم کا طے شدہ اصول ہے کہ جو شخص عدالتی مفرور (Proclaimed Offender) ہو جائے‘ وہ عام قانونی حقوق سے محروم ہو جاتا ہے۔ یہ قانونی نظام توازن پر مبنی ہے‘ جس میں شہری کو ملنے والا ہر حق ان کے لیے ریاست کی طرف فرض پر مبنی ہوتا ہے۔ عین اُسی طرح جو شخص خود قانونی ضوابط اور اس کی عمل داری کو تسلیم ہی نہ کرے‘ ریاستی نظام اس کے حقوق کو تسلیم نہیں کرتے۔ ایک دوسرا منظرنامہ بھی قابلِ توجہ ہے۔ کبھی ہم نے غور نہیں کیا؟ پاکستان کی سیاسی بدمعاشیہ کے کون سے بد عنوان کردار، کرپشن کیسز میں ڈوب کر سات سمندر پار جا پہنچے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ میگا کرپشن کے وکٹری سٹینڈ پر اس وقت تینوں پوزیشنیں سمدھی ٹولے کے پاس ہیں۔ یہ وہی ٹولہ ہے جو شہید بھٹو کے متنازعہ مقدمے سے لے کر سیف الرحمان کے منصفانہ احتساب تک‘ اپنے سیاسی مخالفین کو عدالتوں کے سامنے سر جھکانے‘ قانون کی بالادستی کے سامنے سرنڈر کرنے اور الزامات کا دفاع کرنے کے لیے سرکاری عہدے سے استعفیٰ دینے کا بھاشن دیتے آئے ہیں۔ اپنی باری آ جائے تو کبھی کمر درد، کبھی دردِ جگر اور این آر او کا کمر کَس نسخہ۔ میرا 4 عشروں کا وکالتی تجربہ کہتا ہے‘ اصل واقعات پر بنا ہوا مقدمہ کبھی شکست نہیں کھا سکتا‘ مگر سیاسی مقدمات کے فیصلوں کا اپنے ہاں وہی حال ہے جو موغادیشو، یوگنڈا، رونڈا اور برونڈی میں انگریزی کا۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پچھلے الیکشن اور اس کے بعد کئی سووموٹو ایکشن لیے۔ الیکشن کمیشن کو یہ اہم سوال طے کرنا باقی ہے اگر کوئی شخص عوامی عہدے پر انتخاب کے بعد حلف ہی نہ اُٹھائے تو کیا اس کی چھٹی سپیکر یا چیئرمین منظور کر سکتا ہے۔ نظام قانون و انصاف بعض مقدمات کی وجہ سے ان دنوں In The Line Of Question آیا ہوا ہے۔ کچھ سوال سیاسی ہیں‘ جن کا مقصد پوائنٹ سکورنگ کے سوا کچھ نہیں۔ کچھ سوال آئینی اور بنیادی حقوق سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایسے سوالوں کو کرکٹ کی اصطلاح میں”well left” نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان کا جواب متعلقہ فورم سے ہی آئے۔ ہمارے اس نظام پر سب سے بڑا سوال بے آسرا، بے سفارش، بے مال اور بے حیثیت قیدی اور حوالاتی ہیں‘ جو ہزاروں، لاکھوں کی تعداد میں مرغی چوری اور 150 روپے رشوت خوری والے مقدمے بھگت رہے ہیں۔ لاتعداد قیدی بیمار ہوئے، سلاخوں کے پیچھے مر گئے‘ مگر انہیں کسی نے ڈسپرین نہ پہنچائی۔ اسی لیے لوگ ایسے نظام پر چلنے والے سماج کو جہاں بندہ اور آقا کی تفریق ہو‘ تقسیمِ رزق سے تقسیمِ انصاف تک‘ قانون شکنوں کی جنتِ ارضی کہتے ہیں۔