تحریر : علی حسنین تابش
بچپن سے ہی کتابوں میں پڑھتے آرہے ہیں کہ ” جیسا کرو گے ویسا بھرو گے ۔ ” اُس زمانے میں تو ان الفاظ کو صرف رٹا لگایا کرتے تھے۔ آج شباب کے اِس دور میں یہ معلوم ہوا کہ یہ لفاظ ہماری روز مرہ زندگی کا ایک اہم پہلو ہیں مثال کے طور پر اگر آپکا اخلاق اچھا نہیں اور آپ کسی کو بلاوجہ گالی دیں تو لازم ہے کہ وہ بھی آپ پر بھڑکے گا ۔ بُرا بھلا کہے گا۔ اگر آپکا اخلاق اچھا ہے اور آپ حُسنِ اخلاق سے پیش آتے ہیں تو ہر کوئی آپکی عزت کرے گا ۔اچھے لفظوں میں یاد رکھے گا زندگی کے کسی بھی موڑ پہ اس شخص کا آپ سے سامنا ہو جائے تو وہ آپکو خوش دِلی سے ملے گا ۔ ازل سے یہی قانون چلا آرہا ہے ۔ ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔ انسان کی شخصیت کا اندازہ اسکے اخلاق سے لگایا جا سکتا ہے۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ہم یہ شکوہ کرتے ہیں کہ دعا قبول نہیں ہوتی ، مشکلات نے آن گھیراہے ، بے روزگاری ہے ، گھر سے لڑائی جھگڑے ختم نہیں ہوتے ، شوہر بیوی سے تنگ ،بیوی شوہر سے تنگ ، بچے ان کے روز روزکے جھگڑوں سے تنگ ، گھر میں امن و سکو ن کیسے آئے ، کبھی سوچا ہے ایسا کیوںہے؟ نماز میں کوتاہی ، سود کا کاروبار عام ، زنا کرنا تو دور نگاہوں سے شرم و حیا کا خاتمہ ، مغربی ممالک کا کلچر ، حجاب کا عدم اہتمام ، انڈین چینلز پر دکھائے جانے والے ڈراموں اور فلموں میں اداکاراؤں کا شارٹ اور غیر تہذیبی لباس ، ریم واک کرنے والی ماڈلز کا لبا س، کاروبار میں ناپ تول کا فرق، اصلی کو نقلی سامان میں مکس کر کے بیچنا ، پھل یا سبزی دیتے وقت ایک آدھ چیز خراب ڈال دینی ، دینا کچھ اور لیناکچھ اور، یہ سب کیا ہے۔
حضرتِ انسان کے لئے خسارہ ہی خسارہ ۔ رب ہم سے راضی کیسے ہوں؟ دعا کیسے قبول ہو؟ اس میں قصور کس کا ہے؟ انسان خود قصور وار ہے ۔ اﷲ پاک کی رحمت تو سب پر ہے۔ وہ تو یہودیوں ، عیسائیوں ، ہندوؤں کو بھی رزق دیتا ہے۔ انکی سب مرادیں پوری کرتا ہے۔ مگر ہمارے میں اور اُن میں بہت فرق ہے ۔ ہم مسلمان ہیں ۔ہم پہ اسلام کے اصولوں کی پیروی فرص قرار پائی ہے۔ لیکن ہمارے اعمال ہی کچھ ایسے ہیں جو ہماری پستی کا سبب بنے ہُوئے ہیں۔ عبادت کی بجائے رات گئے تک کلب میں رہنا ۔ مسجد ومدارس میں درس وتدریس سننے کی بجائے اڈوں پہ جوا کھیلنا ۔ دولت کے لالچ میں اتنا اندھا ہو جانا کہ حلال و حرام کی پہچان نہ رہے۔ جب لقمہ ہی حرام ہو تو زبان میں مٹھا س کہاں سے آئے ؟ لڑائی جھگڑا کیسے رُکے ؟ دعائیں کیسے قبول ہوں بات پھر وہیں آکہ رُکتی ہے”جیسا کرو گے ویسا بھرو گے ” ۔رب کی ذات تو رحیم ہے۔ وہ تو پھر بھی رزق عطا کرتا ہے ۔لیکن کچھ کام ہمارے ذمہ بھی تو اﷲ پاک نے لگائے ہیں ۔ جب صبح سویرے رزق تقسیم ہو تا ہے۔
ہم لمبی تان کر سورہے ہوتے ہیں ۔ صبح صبح اگر سفرپہ جانا ہو تو ہمیں اس فکر میں نیند نہیں آتی کہ کہیں سوئے رہے تو گاڑی چھوٹ نہ جائے ۔لیکن نمازکے لئے ایسا فکر کیوں نہیں؟ روزے رکھنا فرض قرار پائے ۔ مگر آج کا دور ………؟ بھوک برداشت نہیں ، پیاس برداشت نہیں ، گرمی برداشت نہیں ۔۔کیوں؟ جب ربِ کریم کاحکم ہے کہ ” روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا ” تو صبر بھی تو وہی عطا کرے گا ۔ روزہ نہ رکھنا، کھلے عام بازاروں میں ظہرانے ، روزے دار عورتوں سے کھانا پکوا کر خود بھی کھانا اور چار دوستوں کو بھی بلا لینا ، دوپہر کے ٹائم سخت گرمی میں بھی عورت کھانا پکا کر دیتی ہے ۔ روزہ بھی ہے مگر وہ کیا کرے ؟ شوہر کا حکم ہے، دیور یا جیٹھ کا حکم ہے ، باپ کا حکم ہے ، بھائی کا حکم ہے ۔ خیال تو ہمیں کرنا چاہیے ۔ یہ سب کیا ہے ۔؟پھر بھی کہتے ہیںدعا قبول نہیں ہوتی۔؟ ہمارے اعمال ایسے رہے تو رب تعالیٰ کیسے راضی ہو سکتا ہے۔ ؟ اس کی رحمت کیسے ہم پر برسے گی رزق کی فراوانی کیسے ہو گی۔
لڑائی جھگڑے کیسے ختم ہونگے؟ ہم اولاد کی نافرمانی سے تنگ ہیں ۔کچھ پیچھے چلتے ہیں جب ہمارا بچپن تھا ۔ پھر جوان ہوئے ۔ والدین نے دن رات ایک کر کے محنت کی اور ہمیں پالا ،جوان کیا ۔ روزگار کے مواقع فراہم کئے ۔ اعلیٰ تعلیم کے زیور سے نوازہ ۔آج ہم اُن کے ہی وجود سے تنگ ہیں ؟ ان کے علاج کے لئے پیسے نہیں ۔ جوئے اور پارٹیوں میں لٹانے کو بہت پیسہ ہے۔ بیویاں رہیں اے سی کے نیچے اور بوڑھے والدین کی جگہ اولڈ ہاؤس میں ؟ جہاں پورے کمرے میں ایک ہی پنکھا اور وہ بھی خراب۔ ہماری اولاد نافرمان کیوں نہ ہو؟ ہمارے بچے ہمارا خیال کیسے رکھیں ہمارا کہا کیسے مانیں ؟ ہماری عزت کیسے کریں ؟ کہاں سے آئے انکے لہجے میں مٹھاس؟ ہم خود تو والدین سے گلا پھاڑ کر بات کرتے تھے۔تو پھر آج اپنی اولاد سے شکوہ کیسا ؟ اس بات سے رب تعالیٰ راضی کیسے ہو؟ جس باپ کے لئے رب کریم کا ارشاد ہے کہ:” ماں جنت ہے اور باپ جنت کا دروازہ ” ہم اسی باپ سے لڑتے جھگڑتے ہیں ۔اس کی عزت نہیں کرتے۔
باپ ناراض ہو تو جنت کا دروازہ بند ۔اگر ماں ناراض تو پوری جنت ہی ہاتھ سے گئی ۔ جن والدین کے بارے میں ارشاد ہے کہ ” والدین کا صبح صبح خوشی سے دیدار کرنے پہ حجِ اکبر کا ثواب ملتا ہے ” ان عظیم ہستیوں کو ہی اولڈ ہاؤس کی زینت بنا رکھا ہے صبح والدین کو ملے بنا کا م پہ چلے جانا اور رات گئے واپس لوٹنا جب والدین سو چکے۔ وجہ پوچھئے تو آسان بہانہ ” مصروفیت بہت ہے ٹائم نہیں ملتا ‘ یونہی کئی کئی دن گزر جاتے ہیں ۔ والدین اپنے بیٹے کی راہ تکتے تکتے سو جاتے ہیں ۔ پھر ایسا کیوں نہ ہو ہماریاولاد نافرمان کیوں نہ ہو؟ دوستوں سے خوش گپیوں میں فرصت نہیں ملتی اور والدین کا حال پوچھتے ہوئے منہ دکھتا ہے ایسا کیوں ہے یہ سب باتیں خدا کی ناراضگی کا سبب نہیں تو اور کیا ہیں؟ رب تعالیٰ ہم پہ راضی کیسے ہو؟ہم خوشحال کیسے ہوں۔
پُر امن زندگی کیسے گزرے ؟ گزرے وقتوں کی مثالیں غلط نہیں ہو سکتیں۔ ”جیسا کرو گے ویسا بھرو گے ” یہی بات ہے کہ جو ہم کرتے ہیں ویسا ہی اجر دنیا وآخرت میں ملے گا ۔ آج بھی سدھر جانے کا وقت ہے ۔ خود کو سنبھالنے کا ۔ کہیں یہ نہ ہو کہ زندگی کا خاتمہ ہو جائے .اور ہم توبہ سے بھی محروم رہ جائیں ۔ہاں سارے زمانے کو سدھارنا مشکل ہے ۔ہم خود کو تو سنوار سکتے ہیں ؟جب ہم سدھر گئے تو پورا معاشرہ سدھر جائے گا۔ ذرا سوچیں ! آج ہم جیسا کسی سے کریں گے کل کو ویسا ہی ہمارے ساتھ ہو گا ۔ چاہے وہ رب کا اور ہمارا رشتہ ہی کیوں نہ ہو۔
تحریر : علی حسنین تابش