counter easy hit

الوداع جنرل راحیل شریف

آج پاکستان میں جمہوریت اپنی جڑیں مضبوط کررہی ہے۔وزیراعظم نوازشریف کی جمہوری حکومت میں جنرل راحیل شریف ریٹائر ہونے والے دوسرے آرمی چیف ہیں۔اس سے قبل پیپلزپارٹی کے دور میں تین سال کی توسیع حاصل کرنے والے جنرل(ر) اشفاق پرویز کیانی بھی مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں ریٹائر ہوئے تھے۔جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ریٹائر منٹ سے قبل بھی مختلف حلقوں کی جانب سے مدت ملازمت میں توسیع کی بھرپور مہم چلائی گئی مگر ضروری نہیں کہ ہر خواہش حقیقت کا روپ دھار سکے۔سابق آرمی چیف جنرل کیانی کی وزیراعظم نوازشریف سے آخری الوداعی ملاقات کے بعد تک سیاسی و سماجی حلقوں میں تاثر تھا کہ اگر جنرل کیانی کو توسیع نہیں دی گئی تو ان کا تجویز کنندہ آرمی چیف ضرور بنے گا۔مگر وقت نے ثابت کیا کہ ایسا نہ ہوسکا۔حالانکہ مسلم لیگ ن کے سینئر رہنماؤ ں نے جنر ل راحیل شریف کی تقرری کے بعد مختلف ٹاک شوز میں کہا کہ ان کو اطلاعات تھیں کہ جنرل کیانی کی خواہش کے مطابق فلاں کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ ہوگیا ہے ۔لیکن جب جنرل راحیل شریف کا نام سامنے آیا تو تمام چہ میگوئیاں دم توڑ گئیں۔پاکستان کی جمہوری تاریخ میں یہ پہلی بار ہوگا کہ ایک منتخب حکومت اپنی آئینی مدت کے دوران مقررہ وقت پر دوسرا آرمی چیف لگانے جارہی ہو۔اس حوالے سے یہ منفرد اعزاز بھی وزیراعظم نوازشریف کے ورثے میں آیا ہے کہ وہ پانچ آرمی چیف تعینات کرنے والے ملکی تاریخ کے پہلے وزیراعظم ہونگے۔حالیہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے متعلق بھی موثر تاثر ابھر کر سامنے آیا کہ مدت ملازمت میں توسیع دی جانی چاہئے۔اس حوالے سے متعدد مرتبہ بینرز اور اشتہاری مہم بھی شروع کی گئی”جانے کی باتیں جانے دو”اور”خدا کے لئے اب آجاؤ”جیسے نعرے بھی سامنے آئے۔مگر آرمی چیف نے اپنی ریٹائرمنٹ سے 10ماہ قبل مقررہ وقت پر ریٹائر ہونے کا بیان دیدیا۔جس نے افواہوں کو کم ضرور کیا مگر ختم نہیں کیا۔اس حوالے سے وزیراعظم نوازشریف نے بھی ٹھوس اور واضح موقف اپنائے رکھا کہ “ادارے کی ساکھ کے لئے ضروری ہے کہ آرمی چیف کو مقررہ مدت پر ریٹائر ہونا چاہئے‘‘

گزشتہ چند ماہ کے دوران بطور وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے سربراہ کی حیثیت سے بھی ان پر کافی دباؤ رہا۔پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے بھی آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا مشورہ دیا۔ایسی خبریں بھی زبان زد عام رہیں کہ توسیع میں صرف نوازشریف رکاوٹ ہیں۔یہ خاکسار کچھ معاملات کا عینی شاہد ہے۔اگر آج بھی میں نے سچ چھپایا تو شاید مورخ مجھے کبھی معاف نہ کرے اور مجھ سمیت کسی کا بھی حقائق چھپانا تاریخ دان کو گمراہ کرنے کے مترادف ہوگا۔حقائق یہ ہیں کہ مدت ملازمت میں توسیع لینے کی اس مرتبہ بھی ٹھوس کوششیں کی گئیں مگر وزیراعظم نوازشریف اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔انتہائی ذمہ داری سے آج گوش گزار کررہا ہوں کہ وزیراعظم نوازشریف پر مدت ملازمت میں توسیع دینے کے حوالے سے تمام سیاسی و سماجی حلقوں کی طرف سے شدید دباؤ تھا۔مگر پوری مسلم لیگ ن میں وہ واحد شخص ہے ۔جو اپنے فیصلے پر ڈٹا رہا۔ترکی میں بغاوت سے قبل وزیراعظم نوازشریف کے ارادے بھی متزلزل ہوئے تھے مگر بغاوت کی ناکامی کے بعد وزیراعظم نوازشریف کے موقف میں مزید پختگی آئی۔اگر آج کوئی بھی اپنے مقررہ وقت پر گھر جارہا ہے تو اس کا کریڈٹ ملک کے چیف ایگزیکٹو وزیراعظم پاکستان کو جاتا ہے۔
جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ میں جب چند دن باقی ہیں تو کچھ تذکرہ ان کی کامیابیوں کے حوالے سے کرنا انتہائی ضروری ہے۔ملک میں آپریشن ضرب عضب کے بعد شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے آرمی چیف کا دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے کردار قابل تعریف رہا ۔مگر یہ کہنا بھی مناسب نہیں ہوگا کہ صرف اسی سپہ سالار کے دور میں تمام فتوحات نصیب ہوئیں۔آپریشن راہ راست،آپریشن جنوبی وزیرستان سمیت متعدد کارروائیوں میں ہمارے فوجی بھائی شہید ہوئے۔2006سے 2013تک شہید ہونے والے بہادر فوجی جوانوں کا تذکرہ کئے بغیر دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ مکمل نہیں ہوسکتی ۔ہاں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اس مرتبہ آئی ایس پی آر نے ضرورت سے زیادہ اخباری خبروں ،ٹی وی چینلز کی ہیڈ لائنز اور سوشل میڈیا پر رہنے کو ترجیح دی۔جس کی وجہ سے پورے ملک میں دیگر آرمی چیف کے مقابلے میں جنرل راحیل شریف کی مقبولیت کا گراف زیادہ نظر آیا۔جہاں تک ضرب عضب کی بات ہے تو بطور سپہ سالار آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے جانفشانی سے اگلے مورچوں پر وقت گزار کر دہشت گردوں کی کمر توڑنے میں اپنے جوانوں کا ساتھ دیا۔مگر آپریشن ضرب عضب شروع کرنے کا فیصلہ بھی سیاسی حکومت کا تھا اور سیاسی حکومت کی سربراہی وزیراعظم نوازشریف کررہے تھے۔اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کسی فرد واحد نے آپریشن ضرب عضب کا فیصلہ کیا تو حقائق کو مسخ کرنے والی بات ہے۔کبھی بھی اتنا حساس فیصلہ کوئی سرکاری افسر نہیں لے سکتا۔ایسے فیصلے ہمیشہ منتخب سیاسی حکومت ہی لیتی ہے۔کیونکہ آپریشن سے قبل کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ملکی افواج کو اتنے بڑے پیمانے پر کامیابی نصیب ہوگی۔بلکہ آپریشن سے قبل ناکامی کے خطرات بھی موجود رہتے ہیں۔اس لئے یہ سیاسی حکومت کی ہی جرات تھی کہ اس نے اتنا غیر مقبول حساس فیصلہ کیا ۔مگر اللہ بڑا رحیم ہے۔جس نے پاک فوج کے جوانوں کو کامیاب کیا۔اسی آپریشن کے بعد کئی دہشت گردوں کو مارا بھی گیا۔ملک کے علاقوں میں دہشت گردی کم بھی ہوئی تاہم یہ کہنا غلط ہوگا کہ ضرب عضب کے بعد دہشت گردی بالکل ختم ہوگئی ہے۔کیونکہ ضرب عضب شروع ہونے کے بعد ہی ملک میں سانحہ آرمی پبلک اسکول،سانحہ کراچی ائیر پورٹ،سانحہ اقبال ٹاؤن لاہور،سانحہ وکلاء کوئٹہ،بلوچستان کے بڑے بڑے دہشت گردی کے واقعات ہوئے۔اس لئے آپریشن ضرب عضب نے دہشت گردوں کی صفوں میں کھلبلی مچائی مگر دہشت گردی صفر کرنے میں ابھی لمبا سفر باقی ہے۔
آج پھر وہی لمحہ قریب آچکا ہے ۔جو ٹھیک تین سال پہلے سب کے سامنے تھا۔کھلاڑی بدل چکے ہیں مگر کپتان اب بھی نوازشریف ہیں۔ماضی کی طرح اس بار بھی کہا جارہا ہے کہ موجود سربراہ کی سفارش پر فلاں آرمی چیف ہونگے۔مگر درست معلومات یہ ہیں کہ فوج کے نئے آرمی چیف کا فیصلہ صرف ایک شخص نے کرنا ہے اور اس کا نام نوازشریف ہے۔وزیراعظم نوازشریف کو جو لوگ قریب سے جانتے ہیں وہ بخوبی آگاہ ہونگے کہ انہوں نے ابھی تک دائیں بازو کو بھی ہوا نہیں لگنے دی ہوگی کہ نیا آرمی چیف کون ہوگا؟ عین ممکن ہے قریبی رفقا نے حالات و واقعات کو دیکھ کر اندازہ لگا لیا ہو مگر سو فیصد یقین سے کوئی بھی نہیں کہہ سکتا ۔اس لئے اگر یہ تاثرہے کہ وزیراعظم نوازشریف کسی سیاسی و سماجی دباؤ میں آکر نیا چیف لگادیں گے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔جس نے مسلسل چند ماہ کے دباؤ کے باوجود مدت ملازمت میں توسیع نہیں دی تو وہ نیا چیف بھی اپنی مرضی کے مطابق لگائیں گے۔

 

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website