تحریر : ڈاکٹر عفت بھٹی
وزیر اعلی قائم علی شاہ کی کرسی صدارت اب مراد علی شاہ کو تفویض کییجانے والی ہے ۔وزیر خزانہ مراد علی شاہ سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا پارٹی قیادت جو فیصلہ کرے گی انہیں منظور ہو گا ۔یہ بات انہوں نے دبئی سے کراچی پہنچنے پر بتائی ۔ادھر دوسری طرف قائم علی شاہ نے سیاست کی سیاحی سے اپنا بوریا بستر باندھنے کی تیاری کر لی اور اب وہ الوداعی ملاقاتوں میں مصروف ہیں ۔ویسے جس طرح گورنمنٹ کی ملازمت کی عمر ہوتی ہے کیا سیاست کی بھی عمر ہوتی ہے؟۔
میری ناقص رائے کے مطابق شاید نہیں کیونکہ کرسی بوڑھوں کو بھی جوان بنائے رکھتی ہے گذشتہ دنوں ایک اجلاس کی کاروائی دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔سائیں نے جوش جذبات میں شعر کا مصرعہ پڑھا ۔مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے ۔۔اگلے مصرعے پہ اٹک گئے بولے کچھ نہیں ہوتا جو منظور خدا ہوتا ہے،کہنے کو کہہ گئے سب نے لاکھ ہنسی ضبط کی۔
مگر سائیں کو احساس ہی نہ ہوا کہ کچھ غلط ہوا ۔مگر قارئین مصرعہ لاکھ گلط سہی بات درست ہے اس مملکت خداداد میں کچھ بھی ہو کچھ نہیں ہوتا ۔ایک غلغلہ اٹھتا ہے ہا ہا کار مچتی ہے تبدیلیوں کے نعرے۔خون کا حساب ،مارشل لاء کے خواب ،احتساب ،پانامہ لیکس ،سب ہوتا ہے مگر کچھ نہیں ہوتا ۔خیر اب تو سائیں جا ہی رہے تو ہمیں ان خوشدلی سے خدا حافظ کہنا چاہیے بڑا دل لگائے رکھا۔
اب بات کرتے ہیں مراد علی شاہ کی وہ ٨نومبر١٩٦٢ کو کراچی میں پیدا ہوئے ۔١٩٨٦ میں این ۔ای۔ڈی یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی ۔پھر امریکہ اسٹینیفورڈ یونیورسٹی سے اکنامک سسٹم اور سول اسٹرکچر انجینئرنگ کی ۔ان کے والد بزرگوار سید عبداللہ شاہ سندھ کے مشہور سیاستدان تھے جو دور بینظیر بھٹومیں وزیر اعلی سندھ رہے۔
مراد علی شاہ٢٠٠٢ میں سیاست کے اکھاڑے میں اترے اور میدان مارتے ہوئے رکن اسمبلی منتخب ہوئے ۔اس کے بعد ٢٠٠٨ میں جامشورو سے صوبائی رکن اسمبلی منتخب ہوئے اور وزیر خزانہ کا عہدہ سنبھالا ٢٠١٣ کے انتخابات میں دوبارہ اپنی نشست پہ کامیابی کے بعد سندھ کابینہ میں وزیر خزانہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں ۔اب دیکھئے سندھ کی وڈیرا شاہی کیا رنگ لاتی ہے۔
ویسے تو صاحب اسی دشت کے سیاح ہیں اور نئے بھی نہیں ۔سیاسی حلقوں میں یہ بھی خبر ہے کہ قائم علی شاہ کو ناسازیء طبع کی وجہ سے تبدیل کیا جا رہا ہے مگر حقیقت سے ابھی پردہ اٹھنا باقی ہے۔سو انتظار فرمائیے۔۔۔۔۔
تحریر : ڈاکٹر عفت بھٹی