تحریر : مدیحی عدن
کسی گاؤں میں چور ڈاکوؤں کا ایک گروہ رہتا تھا ، ان کا کام ہوتا تھا شہر جا کر لوٹ مار کرنا ، ڈھیر سارا مال حاصل کرنا اور گاؤں آ کر اس مال سے یتیم بچیوں کی شادی کروانا ، غریبوں مسکینوں کو کھانا کھلانا۔ کیا آپ کی نظر میں انکا یہ عمل نیکی میں آتا ہے …؟؟؟
ہمارے معاشرے میں آپ نے یقینا جسم فروش عورتوں کے بارے میں تو سن رکھا ہو گا . یہ عورتیں عمرہ، حج ، زکو’ة کے کام کرتی نظر آئیں گی ، زکو’ة اور صدقات کے کاموں میں یہ پیش پیش ہونگی . اور سب نیک کام اس پیسے سے کر رہی ہوں گیئں۔ کیا آپ کی نظر میں ان کا یہ کام نیکی کے عمل میں آتا ہے ؟ آپ نے اس معاشرے میں بہت سے پانچ وقت نمازی ، روزہ اور دیگر فرائض پابندی سے ادا کرتے لوگ دیکھیں ہوں گے ، لیکن عام دنیاوی معاملات میں انتہا درجے کے جھوٹے بد اخلاق ، لین دین میں انتہائی چور۔۔۔ کیا آپ کی نظر میں ان کا یہ عمل نیکی میں آتا ہے ؟
اوپر ایک ہی سوال کو میں نے تین طرح کے طبقات کی مثال دے کر پوچھا . اصل میں ہمارے معاشرے میں ہر طبقے کے لوگوں میں نیکی کی اپنی ہی ایک تعریف پائی جاتی ہے . ہر کسی نے نیکی کی اپنی ایک درجہ بندی کر رکھی ہے ، آپ کے خیال میں کیا یہ ٹھیک ہے …؟؟؟ اگر جواب “ہاں” ہے تو مطلب آپ ٹھیک سمجھتے ہیں چور ڈاکوؤں کی لوٹ ما ر کو ، کیوں کہ اس پیسے سے کام تو وہ نیک ہی کر رہے ہوے نا . آپ ٹھیک سمجھتے ہیں جسم فروش عورتوں کو۔ اور اگر جواب “نہیں ” ہے تو پھر نیکی ہے کیا..؟؟؟
کیا تعریف ہے نیکی کی ؟ نیکی کا معیار انسانوں یا طبقات نے ترتیب دینا شروع کر دیا ہے۔ ایک طبقہ اٹھ کے کہتا ہے میری نظر میں نیکی صرف نماز ، روزہ اور حج ہے۔ ایک کہتا ہے میری نظر میں نیکی اپنے لوگوں کی مدد کرنا ہے ، نماز وغیرہ بندے اور الله کا ذاتی معاملہ ہے۔ ایک طبقہ کہتا ہے فلاحی کام کررہے ہیں نہ کیا ہوا جو نماز نہ پڑھی۔ ایک کہتا ہے کہ میں پکا سچا مسلمان باکی سب کافر۔
اگر اسی طرح ہر انسان یا ہر طبقہ نیکی کی ایک حد مقرر کرنے لگ گیا تو وہ نیکی تو اس طبقے میں ان کی سوچ کی بنائی ہوئی نیکی ہو گی۔ اب سمجھ آیا مسلمان یا خاص طور پر پاکستانی مسلمان اتنی الجھنوں کا شکار کیوں ہیں۔ اصل میں نیکی ہے کیا ..؟؟ یہ سوال اب سب کے دلوں میں پیدا ہو رہا ہو گا ، تو میری بات یاد رکھئے اگر آپ واقع مسلمان ہیں تو نیکی وہ نہیں جو آپ کے ذہن نے سوچی یا میرے ذہن نے اسکو نیکی سمجھ لیا۔اصل نیکی الله نے بتائی ہے انسانوں کو۔۔۔
نیکی کا معیار الله نے مقرر کیا ہے انسانوں کے لئے ، اس میں انسانوں کو الجھنے کی ضرورت نہیں . یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ آپ کسی ملک میں رہیں ، تو وہاں کے کچھ قوانین ہیں جن کی پیروی کرنی ہی کرنی ہے ، ورنہ آپ کو اچھا شہری نہیں ما نا جاے گا . اب کبھی ایسا ہوا ہے کہ اُس ملک میں رہ کر بستی والوں نے اپنے قوانین نکال لئیے ہوں اور کہا ہو کہ ملک کے قوانین کو ماننے کی ضرورت نہیں ، بس ھمارے قوانین مان لو .ساتھ والی ایک اور بستی نے اپنے قوانین بنا لئے ہوں . اگر ایسا ہونے لگ جائے تو سب اپنے مفاد کے لیے اپنی اپنی حد مقرر کر لیں ، پھر فائدہصرف خود کو ہو یا دو چار لوگوں کی ذات کو ہو ، بیشک پوری قوم کو نقصان ہو ، ظلم ہوتا ہے تو ہو۔۔یہ ٹھیک نہیں ہے۔۔۔
ساری اچھائی مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں بلکہ حقیقتا ً اچھا وہ شخص ہے جو الله پر ، قیامت کے دن پر ، فرشتوں پر ، کتاب الله پر اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو . جو مال سے محبت کرنے کے باوجود قرا بت داروں ، یتیموں ، مسکینوں ، مسافروں، اور سوال کرنے و الوں کو دے . غلاموں کو آزاد کرے، نماز کی پابندی اور زکوۃ کی ادائیگی کرے ، جب وعدہ کرے تبھی اسے پورا کرے۔
تنگدستی ، دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے . یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔ یہاں پہ الله نے سب سے پہلے “ایمان ” کو بنیاد بنایا ہے . انسانی دل سے معاملہ شروع ہوا . دل جو کے بہت بڑا محور ہے انسانی سوچ اور عمل کا ، اس میں ایمان پیدا اور مضبوط کرنے کی بات آئی . پھر بات فورا ًً معاشرے پر آئی۔
دوسروں کی مدد ، معاشرتی نظام جس میں غریبوں ، مسکینوں، ضرورت مندوں کی مدد ، پھر بات عبادت پر آئی یعنی ذا تیات پہ آئی، یعنی ایک فرد پر کہ اب نماز ، روزہ بھی صبر بھی، مطلب اپنا معاملہ بھی اپنے الله کے ساتھ صحیح رکھنا اور اور لوگوں کی بھی حق تلفی نہ کرنا . انسانوں کے ساتھ بھی معاملات درست ہوں٫ الله نے کتنا متوازن رکھا سب کا معاملہ ، کیا انسانوں سے ایسا ہو سکتا تھا ، یا ہوا …؟؟؟؟ ذرا سوچیں اور خود فیصلہ کریں آپ۔
تحریر : مدیحی عدن