تحریر: فیصل اظفر علوی
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی کامیاب سیاسی چالوں ‘پاکستان تحریک انصاف کی ناقص حکمت عملیوں اور مشیروں کی عمران خان اور جماعت کو گڑھے میں دھکیلنے کی سازشوں نے ملکی سیاست میں ایک بار پھر ن لیگ کی حکومت کو دوام بخش دیا ہے’ یہ بات ٹھیک ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ مکمل غیر جانبدار نہیں بلکہ اس رپورٹ پر بہت سے سوالیہ نشان اٹھائے جا رہے ہیں لیکن پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ کا اپنے وعدے کے مطابق جوڈیشل کمیشن کی مذکورہ رپورٹ کو تسلیم کر لینا تحریک انصاف کی اخلاقی شکست کا بھی باعث بنا’۔
پاکستان مسلم لیگ ن نے جہاں دھرنے میں پی ٹی آئی کے ساتھ معاملات کو سیاسی سمجھ بوجھ کے ساتھ ہینڈل کیا وہیں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری بڑے ہی طریقے سے راستے سے ہٹا دیا جس کی وجہ سے عمران خان اور ان کی جماعت تنہاہ رہ گئی’ جلد بازیاں اور غیر مناسب زبان پاکستان تحریک انصاف کو بہت مہنگی پڑی’ عمران خان جوڈیشل کمیشن کے قیام کا فیصلہ لیتے وقت یہ کیوں بھول گئے تھے کہ یہ جوڈیشل کمیشن حکومت وقت سے زیادہ با اختیار اور طاقتور نہیں’ جوڈیشل کمیشن نے جو فیصلہ کرنا تھا وہ سب کے سامنے آ ہی گیا ہے’ عدلیہ کی جانبداری سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ پاکستان میں چڑھتے سورج کی پوجا ہی کی جاتی ہے۔
ملکی سیاست میں اس وقت سیاسی پنڈت سر جوڑ کر بیٹھیں ہیں اور آنے والے سیاسی حالات پر پیشین گویا کرتے نظر آ رہے ہیں’ سابق چیف جسٹس آف پاکستان اور پاکستان کے ایک متنازعہ جج افتخار چوہدری کی اپنی ریٹائرمنٹ کی مدت پوری ہونے کے بعد سیاسی پارٹی کے اعلان سے ”آنکھیں” رکھنے والے حلقوں پر یہ بات واضح ہو گئی ہے آئندہ دنوں میں کیا کھچڑی پکائے جانی کی تیاری کی جا رہی ہے؟ ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ افتخار چوہدری سیاسی جماعت بنا کر کون سا تیر مار لیں گے اور ان کی پہلی ترجیحات کیا ہوں گی، قارئین کرام لکھ لیں کے بعید نہیں کہ مسلم لیگ (نوازشات) کی نوازشات کا صلہ اتارنے کیلئے افتخار چوہدری سیاسی پارٹی بنانے کے بعد سب سے پہلے پاکستان مسلم لیگ (نوازشات) سے اتحاد کریں’ عدالتی آمریت کو پروان چڑھانے اور پاکستان میں بذریعہ عدالت راج کرنے والے افتخار چوہدری کی نظریں اس وقت کسی اور ہی منزل پر گڑی ہوئی ہیں’ سابق چیف جسٹس شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ سیاسی پنڈال میں پاکستانی عوام کے نجات دھندہ بن کر اتریں گے۔
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (نوازشات) پاکستان تحریک انصاف کو مکمل طور پر مفلوج کرنے اور دیوار کے ساتھ لگانے کیلئے لانگ ٹرم پلاننگ کرتی دکھائی دے رہی ہے جس کے مقابلے کیلئے اگر تحریک انصاف نے بروقت فیصلے نہ کئے تو سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے’پاکستان مسلم لیگ (نوازشات)کے مد مقابل حقیقی معنوں میں اس وقت ایک ہی اپوزیشن موجود ہے اور وہ ہے تحریک انصاف’ پیپلز پارٹی اپوزیشن ڈیسکوں پر بیٹھ کر فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے لیکن تحریک انصاف نے حکومت کو مسلسل ٹف ٹائم دیئے رکھا ہے لیکن اب تحریک انصاف کیلئے اس ٹف ٹائم والی سچویشن کو برقرار رکھنا ممکن نظر نہیں آ رہا کیونکہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے بعد فرنٹ فٹ پر کھیلنے والی تحریک انصاف دفاعی پوزیشن میں آ گئی ہے اور مزید یہ کہ جماعت اندرونی انتشار کا شکار بھی ہو گئی ہے۔
ان حالات میں پاکستانی سیاست کے وہ بڑے نام جو تحریک انصاف میں شمولیت کیلئے تقریباََ تیار بیٹھے تھے انہوں نے فی الوقت خاموشی اختیار کر لی ہے اور آئندہ کی سیاست اور حکمت عملی کا جائزہ لینے کیا فیصلہ کیا ہے’ پاکستان مسلم لیگ (نوازشات) کی اضی میں اعلیٰ عدلیہ سے ”رشتے داری” کچھ اچھی نہیں رہی جس کی مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے ‘ لیکن آنے والے دنوں میں ایک بات صاف دکھائی دے رہی ہے کہ ن لیگ عدلیہ کے ساتھ اپنی ”رشتے داری” کو مزید مستحکم کرنے جا رہی ہے جس کے نتیجے میںآنے والے چند دنوں میں صدر مملکت ممنون حسین سے استعفیٰ طلب کر لیا جائے گا اور ان کے منصب صدارت چھوڑنے کے بعد افتخار چوہدری کو صدر پاکستان بھی بنایا جا سکتا ہے۔۔۔۔ جس کے نتیجے میں عدلیہ اور ن لیگ قریبی رشتے داری کو مزید مستحکم کرتے ہوئے ”پھوپھی” کی بیٹی تحریک انصاف کو شدید مشکلات سے دو چار کر سکتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (نوازشات) کی خواہش ہے کہ وہ اگلے الیکشنز میں اپنی راہ کو مزید ہموار کرنے کیلئے صدر ممنون حسین سے استعفیٰ دلوانے کے بعد نئے صدر کو اگلے پانچ سال کیلئے منتخب کروائیں تا کہ بوقت ضرورت ان سے ”استفادہ” حاصل کیا جا سکے اور اس استفادے کیلئے آئین میں ترمیم بھی ممکن ہے’ سب سے بڑی بازگشت یہ ہے کہ صدر ممنون حسین کے بعد وزیر اعظم نواز شریف وزارت عظمیٰ چھوڑ کر خود صدارت کی کرسی پر بھی براجمان ہو سکتے ہیں اور اسلام آباد میں بلدیاتی الیکشن کے بار بار لیٹ ہونے کی وجہ سے بھی سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری ہی ہیں تا کہ ان کے سیاست میں با ضابطہ آنے کا انتظار کر لیا جائے اور اس کے بعد بلدیاتی الیکشن کروائے جائیں۔
اب پاکستان مسلم لیگ (ن) کون سی سیاسی چالیں چلتی ہے یہ وقت آنے پر ہی معلوم ہوگا لیکن ایک بات طے ہے کہ آنے والے دنوں میں تحریک انصاف کو مزید شدید نقصانات اٹھانے پڑیں گے’ یقینی طور پر پاکستان تحریک انصاف بھی اس بات سے بے خبر نہیں ہو گی اور موجودہ سیاسی حالات کا جائزہ ضرور لے رہی ہو گی لیکن تحریک انصاف کیلئے اس وقت سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ وہ اندرونی دشمنوں یعنی ”کالی بھیڑوں” سے پیچھا چھڑوائے’ مخلص سیاستدانوں کے ساتھ ایک پالیسی ساز تھنک ٹینک بنائے اور ادھر اُدھر کے مشوروں پر کان دھرنے کی بجائے عقل سے کام لے’ اس میں کوئی شک نہیں کہ آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف جیسے سیاستدان کا مقابلہ کرنا نہایت مشکل کام ہے لیکن اسے نا ممکن نہیں کہا جا سکتا’ قوم کے پاس عمران خان سمیت اس وقت کوئی بھی ایسا لیڈر موجود نہیں جو عوام کو ایک سمت میں گامزن کر سکے’ عمران خان شدید محنت اور کوشش کے بعد یہ سب کر سکتے تھے اور کر سکتے ہیں لیکن ان کی ماضی کی غلطیوں نے انہیں بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔
اگلے پانچ سال حکومت قائم کرنے کیلئے مسلم لیگ ن نے ابھی سے تیاریاں تیزی کیساتھ شروع کر دی ہیں جو ن لیگ سیاسی سمجھ بوجھ کا نتیجہ ہے اگر ایسا ہوا کہ پاکستان میں اگلے پانچ سال کیلئے ایک بار پھر مسلم لیگ ن کی حکومت آ گئی تو یہ ملک کیلئے شدید ترین گھاٹے کا سودا ہوگا’ تحریک انصاف کو آنے والے دنوں کیلئے شدید محنت کی ضرورت ہے’ تحریک انصاف بلاشبہ ایک بڑی سیاسی قوت ہے جس سے کروڑوں لوگوں کی امیدیں وابستہ ہیں اور ان امیدوں کو پورا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ”سیاست” کا مقابلہ ”سیاسیت” سے کیا جائے نہ کہ زبانی کلامی بصورتِ دیگر اگلے پانچ سال بھی پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت تشکیل پاتی نظر آ رہی ہے۔
تحریر: فیصل اظفر علوی