لاہور;قومی انتخابات میں تحریک انصاف کے لیڈر عمران خان کو ملنے والے واضح مینڈیٹ کے باوجود حکومت سازی کا عمل ایک نئے بحران سے دوچار ہوتا نظر آ رہا ہے ۔ مرکز میں تحریک انصاف اور پنجاب میں مسلم لیگ ن اکثریتی جماعت بننے کے باوجود وزیراعظم اور وزیراعلٰی کیلئے
معروف تجزیہ نگار سلمان غنی اپنی تحریر میں لکھتے ہیں۔۔۔ مطلوبہ اکثریت حاصل کرتی دکھائی نہیں دے رہیں اور بالآخر ان جماعتوں کو آزاد ارکان پر انحصار کے ساتھ دیگر جماعتوں سے بھی بات چیت اور مدد لینا پڑے گی۔ خصوصاً عمران خان جن کے وزارت عظمٰی کے حوالے سے کوئی دو آرائنہیں لیکن ان کے اتحادیوں اور آزاد ارکان کو ملانے کے ساتھ خصوصی نشستیں ملنے کے باوجود ان کیلئے 172 ووٹوں کا ٹارگٹ ممکن نہیں بن رہا جبکہ پنجاب کی سطح پر مسلم لیگ ن کے اکثریتی جماعت ہونے کے باوجود آزاد ارکان کو ساتھ ملا کر تحریک انصاف اب اکثریتی جماعت میں تبدیل ہوتی نظر آ رہی ہے ۔ مرکز میں اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو اب تک الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق تحریک انصاف 116 نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر پر مسلم لیگ ن 64 کے ساتھ دوسرے نمبر پر پیپلز پارٹی 43 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر کھڑی ہیں۔ ان دو جماعتوں کے بعد ملک بھر سے آزاد جیتنے والے امیدواروں کی تعداد 13 اور متحدہ مجلس عمل نے 12 قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے ۔ اس سارے منظر نامے میں ایم کیو ایم پاکستان
کے 6 کامیاب امیدواروں، ق لیگ کے 4 ارکان اور بلوچستان سے بی اے پی کے 4 ارکان کا ووٹ نہایت فیصلہ کن ہو چکا ہے ۔ اس سارے معاملے میں مزید تحریک انصاف کیلئے پریشانی یہ ہے کہ ان کے کئی ارکان 2 یا اس سے زائد نشستوں پر بیک وقت جیت چکے ہیں۔ اور وزیراعظم کے انتخاب کے مرحلے پر ان ارکان کا صرف ایک ایک ووٹ گنا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تحریک انصاف کی جیتی ہوئی 116 نشستوں میں سے 8 ووٹ مزید کم ہو جائیں گی اب وہ جیتی ہوئی نشستیں جو تحریک انصاف کی طاقت بننی تھیں اب وزیراعظم کے انتخاب کے مرحلے پر ان کی سیاسی دشواری کا باعث بن چکی ہیں۔ اگر آزاد امیدواروں کی اکثریت 13 میں سے 10 جیتے ہوئے لوگ تحریک انصاف میں شامل ہو جائیں، مسلم لیگ ق کے 4 ارکان بھی عمران خان کو ووٹ دے دیں اور بلوچستان کے بی اے پی کے چار ارکان بھی عمران خان کا کیمپ جوائن کر لیں، شیخ رشید کا ایک ووٹ، جی ڈی اے کے دو ووٹ اور بلوچستان کی جمہوری وطن پارٹی کا بھی ایک رکن عمران خان کو ووٹ کر دے تو
بھی یہ تعداد مطلوبہ سادہ اکثریت کو نہیں پہنچتی۔ ایم کیو ایم نے بظاہر یہ لائن لی ہوئی ہے کہ وہ تحریک انصاف کی حکومت کا حصہ نہیں بنے گی مگر ایم کیو ایم پارلیمانی سیاست کے حوالے سے ہمیشہ کچھ بھی کر سکتی ہے اور کسی بھی وقت یوٹرن لینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ المیہ یہ ہو گا کہ ایم کیو ایم بھی اگر پارلیمانی سیاست میں عمران خان کے ساتھ کھڑی ہو جائے تب بھی سادہ اکثریت کا حصول ناممکنات میں شامل ہے ۔ اس تمام خرابی سے نکلنے کا نسخہ پاکستانی سیاست کے گرو آصف علی زرداری کی جیب میں پڑا ہوا ہے ۔ جو پراسرار خاموشی میں کھوئے ہوئے ہیں۔اس وقت حالات عمران خان کو پیپلز پارٹی کی جانب کھینچ رہے ہیں۔ اگر اس صورتحال میں پیپلز پارٹی سے ہاتھ نہ ملایا گیا تو حکومت سازی کے پہلے مرحلے میں جب وزیراعظم کا انتخاب شروع ہو گا تو 172 سیٹوں کا حصول ناممکن ہو گا۔ اس صورتحال میں سپیکر قومی اسمبلی دوبارہ وزیراعظم کا انتخاب آئین کے آرٹیکل 91/4 کے تحت کرائیں گے ۔ اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کی شخصیت کی کامیابی کا اعلان کر دیں گے ۔ یہ اصول ہمیں ذہن میں رکھنا ہو گا کہ یہ
حکومت اور اس کا وزیراعظم اس فارمولا کے مطابق سادہ اکثریت کا حامل بھی نہیں ہو گا۔ ایسی حکومت، قانون سازی، سینٹ میں ووٹنگ، نئے صدر کا انتخاب اور دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں تحریک انصاف کی حکومت نہایت دباؤ اور دفاعی پوزیشن میں ہو گی۔ جبکہ دوسری جانب پنجاب کے محاذ پر تحریک انصاف آزاد ارکان کی شمولیت کے بعد اکثریتی جماعت بن رہی ہے ، ق لیگ کی واضح حمایت کے بعد حکومت سازی کیلئے اس کے پاس فیصلہ کن اکثریت حاصل ہو چکی ہے ۔ اب یہاں تحریک انصاف کیلئے اصل مسئلہ اپنی صفوں میں وزیراعلٰی کے امیدوار کا انتخاب ہے اور تحریک انصاف اندرونی طور پر انتہائی چپقلش اور گروپنگ کا شکار ہو چکی ہے ۔ اس کے کئی چوٹی کے لیڈر وزیراعلٰی پنجاب کے منصب کیلئے آپس میں باہم دست و گریبان ہیں۔ بہرحال یہاں بھی حتمی فیصلہ عمران خان نے کرنا ہے جو موجودہ صورتحال میں کسی ایسے شخص کو پنجاب کی وزارت اعلٰی کا امیدوار بنانے کے متحمل نہیں ہو سکتے جس پر کرپشن، قومی خزانے کی لوٹ مار کے الزامات کے ساتھ ساتھ لازمی ہے کہ وہ نیب زدہ نہ ہو۔ اسی بنیاد پر قومی اسمبلی کا الیکشن ہارنے والی ڈاکٹر یاسمین راشد کا نام خواتین کی مخصوص نشستوں پر آنے کے بعد وزارت اعلٰی کے امیدوار کے طور پر زیر بحث ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ میاں اسلم اقبال، میاں محمود الرشید اور میجر (ر) طاہر صادق کا نام لیا جا رہا ہے ۔