تحریر : لقمان اسد
باکمال ہیں میاں نواز شریف بھی کہ تیسری مرتبہ وہ وزارت عظمی کیلئے منتخب ہوئے ہیں مگر حیرت اس امر پر ہے کہ تین مرتبہ یہ ذمہ داری سنبھالنے کے باوجود ابھی تک حکومتی امور نمٹانے کی صلاحیت یا تجربہ وہ اپنے اندر پیدا کرنے اور عوامی سطح پر متاثر کن کوئی کارکردگی دکھانے سے قاصر ہیں سنا ہے وہ عوامی ہمدردی کا اس قدر احساس اور درد اپنے اندر رکھتے ہیں کہ وہ اپنے وزراء کی کارکردگی کا جائزہ لینے کی خاطر باقاعدہ طور پر اجلاس بھی طلب کرتے رہتے ہیں۔
اس خواہش کے پیش نظر کہ کہیں ان کے وزراء کی کارکردگی عوامی فلاح کے حوالے سے بری تو نہیں جارہی۔ہمارے حکمران بھی کس قدر شاطر اور مکار ثابت ہوئے ہیں کہ وہ عوام کو دھوکہ دینے کیلئے نت نئے انداز اختیار کرتے،مزاحیہ ڈرامے بناتے اور ادا کاری کرتے رہتے ہیں تاکہ ہر صورت وہی عوام کی توجہ کا مرکز ٹھہرے۔ کارکردگی رپورٹ کا جائزہ کیا لینا ہے اور اجلاس کیا طلب کرنے ہیں سبھی وزراء پر اگر یہ بات واضح ہو کہ تھوڑی سے لاپرواہی کا نتیجہ ان کی چھٹی کا سبب ٹھہرے گا اور وزارت کے مزے ان سے چھین لیے جائیں گے تو بری کارکردگی یا اپنی ذمہ داریوں میں لاپرواہی برتنے کا سوال ہی ممکن نہیں۔مگر اس بات کا تو قطعی ہمارے ملک میں سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
جناب آصف علی زرداری کے دور حکومت میں پاکستان ریلوے کی وزارت کا قلمدان بلور صاحب کے پاس تھا میاں چنوں جب سکول بچوں کی وین ریلوے ٹریک پر پھاٹک نہ ہونے کے باعث ریلوے ٹرین سے جاٹکرائی اور اس حادثہ کے سبب کافی تعداد میں معصوم جانیں زندگی کی بازی ہار گئیں اس واقعہ کے فوری بعد فوراً ہی بلور صاحب نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس کا انتظام کیا اور اس پریس کانفرنس میں ارشاد فرمایا”اب اس حادثہ کا الزام مجھ پر نہ تھونپ دینا کہ ٹرین میں تو نہیں چلارہا تھا میں اس محکمہ کا وزیر ہو ریلوے ٹرین کا ڈرائیور نہیں”داد دینے کو دل کرتا ہے کیسی منطقیں اٹھالاتے ہیں یہ لوگ اور کیسی برہان اور دلائل؟اپنی ناکامی پر رنجیدہ ہونے اور ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے ہمارا حکمران طبقہ”اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے” اس ضرب المثل کے مصداق ہمیشہ غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیارکیے رکھتا ہے۔
اپنا گناہ دوسروں کے سر تھونپتا نظر آتا ہے۔عجیب غریب طرز عمل ن لیگ کی طرف سے پیٹرول بحران کے حوالے سے بھی سامنے آرہا ہے۔کچھ حکومتی وزراء اسے حکومت کے خلاف سازش قرار دے رہے ہیں۔ ”سازش”!کیسا جواز یہ تراشا جارہا ہے؟سازش تو محض ن لیگ کی انہی پالیسیوں کا تسلسل ہے کہ جن کے نتائج میں وہ منافع بخش قومی اداروں کی نجکاری کے درپئے ہیں جن کی ناکامی کے پہلے جواز تراشے جاتے ہیں اور بعد میں ملک پر بوجھ تصور کرتے ہوئے ان قومی اداروں کی نجکاری کرکے اپنے کسی چہیتے کو نیلامی کی طرز پر انتہائی نامعقول اور انتہائی معمولی رقم کے عوض گفٹ کردیے جاتے ہیں۔اب اس لسٹ میں شاید ن لیگی حکومت پی ایس اوکو بھی شامل کرنے کی شدید خواہش میں مبتلا ہے۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضوں کی مزید اقساط کو یقینی بنانے کیلئے حکومتی ٹیم بشمول اسحاق ڈار زرمبادلہ کے ذخائر 15ارب ڈالر سے زائد ظاہر کرنے کی غرض سے پی ایس او کو پیٹرولیم مصنوعات درآمد کرنے کیلئے مطلوبہ رقم مہیا نہیں کر رہی۔
اس باب میں رشک ہے ان عوامی نمائندوں پر جو بڑی تعداد میں ووٹ لیکر قومی اسمبلی پہنچتے ہیں اور پھر عوامی حقوق کی جنگ لڑنے کی بجائے کاسہ لیسی اور حکومتی خوشامد ہی محض ان کا وطیرہ ٹھہرتی ہے حکومت کے دن اپنے اختتام کو پہنچتے ہیں مگر وہ کسی قومی ایشو یا بڑے عوامی مسئلے پر اپنی زبان کو جنبش نہیں دیے پاتے۔حیرت ہوتی ہے اور آدمی سوچتا ہے اس جدید دور میں بھی ہمارا سابقہ کس قماش کے اُن حرص مند حکمرانوں سے آن پڑا ہے۔قوم ابھی تک سانحہ پشاور کے ناقابل یقین ،ناقابل برداشت اور ناقابل فراموش المیہ سے نکل نہیں سکی ابھی تک بے جرم مارے جانے والے ان معصوم شہداء کی قبروں کی مٹی گیلی ہے خشک نہیں ہوئی جبکہ دولت کی حرص و ہوس میں مبتلا ہمارے حکمران اپنی ذاتی نجی آئل کمپنیوں کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ایک مضبوط انفراسٹرکچر کے حامل قومی ادارے پی ایس او پر ہاتھ صاف کرنا چاہتے ہیں۔
اسے بھی ناکامی سے دوچار کرکے کسی منشاء ٹائپ گروپ کا حصہ بنانے کی آرزو اُن کے دل ودماغ میں ہر لمحہ تڑپ رہی ہے تاکہ اس کے بعد عوام سے وہ پوچھیں کہ تمہیں حکومت کے خلاف دھرنے دینے کا بڑا شوق ہے اب بتائو کتنے 20ملاکر پورا 100ہوتا ہے۔یہ ہے حکومتی گڈگورننس کی وہ اصل کہانی کہ دن رات جس پر حکومتی وزیر اور مشیر سردھنتے اور ترانے گاتے رہتے ہیں۔صد حیف ان پر بھی کہ جو عوام میں سے ہیں اور ان خواص کی طرف داری کا ڈھنڈھورا ہرپبلک مقام پر وہ پیٹتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ حکومتی کاسہ لیس اور وہ خوشامدیئے ہیں کہ جنہیں اس طرز کی حکومتی گڈ گورننس اور ایسے حکومتی کرداروں سے گھن تک نہیں آتی؟
تحریر : لقمان اسد