counter easy hit

تو حکومتی امور کون سنبھالے گا

Trading

Trading

تحریر : محمد فہیم شاکر
جناب اگر آپ بھی تجارت کریں گے تو حکومتی امور کون سنبھالے گا ، یہ الفاظ تھے ایک صحابی رسول کے، اس وقت جب سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مسند خلافت پر جلوہ افروز ہوئے، اور پھر جب ان کی تنخواہ کا معاملہ اٹھا تو آپ نے تاریخی الفاظ ادا کرتے ہوئے کہا کہ” میں اسی قدر تنخواہ لوں گا جس قدر ایک مزدور لیتا ہے” تو ایک کہنے والے نے کہا کہ مزدور کی تنخواہ میں
آ پ کا گزارا مشکل سے ہی ہوگا تو آپ نے ارشاد فرمایا” تو پھر میں مزدور کی تنخواہ بڑھا دوں گا۔

یہ وہ سنہری دور تھا جب مسند خلافت کے جانشین کو مزدور طبقہ کی فکر لاحق تھی اور عامة الناس پر کوئی بھی ایسا ٹیکس لاگو نہ تھا جس کو ادا کرنے سے وہ محروم تھے۔جبکہ پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 25ملین لوگ PTCLانٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں جبکہ اس انٹرنیٹ پر ود ہولڈنگ ٹیکس 220روپے فی کس لگایا گیا ہے جو کہ 5ارب50کروڑ بنتا ہےبجلی پر حکومت نے دو نئے سرچارج، فنانشل کاسٹ سرچارج اور ٹیرف ریشنلا ئزیشن سرچارج عائد کئے ہیں جس کے بعد بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 3روپے کا اضافہ ہوا ہے۔

آزاد ذرائع کے مطابق اس سرچارجز سے رواں سال 130ارب روپے کی آمدن ہوگی جبکہ وزارت پانی و بجلی کے مطابق گھریلو صارفین پر اس کا کوئی اثر یا بوجھ نہیں ہوگا، کیسے نہیں ہوگا یہ تو وزارت ہی بتا سکتی ہےاور سننے میں آیا ہے کہ ڈیجیٹل میٹرز پرانے میٹرز کی نسبت 35فیصد تیز چلتے ہیں ، یعنی کم بجلی کھاتے لیکن یونٹس زیادہ دکھاتے ہیں ، چند طبقے تو دھوکہ باز تھے ہی، اب میٹرز بھی یہ کام کرنے لگیں گے، حیرت ہے۔

گھریلو صارفین کو پانی کا بل جو کہ پہلے فی گھر 60روپے تین ماہ کے لئے تھا اب بڑھا کر یکدم سے 300روپے فی مہینہ کر دیا گیا ہے اور یوں100گھروں پر مشتمل گاوں جو پہلے تین ماہ کا بل 6000روپے بل ادا کرتا تھا اب ایک ماہ کا بل 30000ادا کرے گا چلو پھر بھی شکر ہے پانی تو ملتا ہے نا، احتجاج کرنے والے رک جائیں ورنہ پانی سے بھی جائیں گے۔عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمت خاطر خواہ کم ہونے کے باوجود ملک میں پٹرول پر روپیہ دو روپے کم کرکے عوام پر احسان جتانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

لیکن گاڑیوں کے ٹیکس کی مدمیں جو رقم وصول کی جا رہی ہے وہ تین گنا زیادہ ہے شاید اسے ہی کہتے ہیں دائیں کی دکھا کر بائیں کی مارنا۔بھٹہ خشت پر ود ہولڈنگ ٹیکس کے نام پر 3فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے، کون سا طبقہ ہے جو اس ظالمانہ ٹیکس کے نفاذ سے محفوظ رہ سکا ہے اوراس قدر ٹیکسز لگا کر حکومت کون سا خسارا پورا کر رہی ہے، خسارا پورا ہوتا تو نظر نہیں آتا البتہ حکومتی شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ ساری عوام دیکھ رہی ہے۔

وزراء کے پاس اربوں روپے کی گاڑیاںتو ہیں لیکن غریب کے بچے کے پاس کھانے کو روٹی نہیں ہے۔ سیاست جائے بھاڑ میں ،اس کی بلا سے ۔حکومت کو عوام کی فلاح و بہبود کی بجائے ہمسائیوں سے تجارت کی فکر لاحق اور شدت سے لاحق ہےتو ہم بھی حکومتی سے یہی کہیں گے کہ جناب اگر آپ بھی تجارت کریں گے تو حکومتی امور کون سنبھالے گا؟

تحریر : محمد فہیم شاکر
faheemshakir83@gmail.com