پاکستان بننے سے لے کرآج تک بنیادی مسائل اور نکتوں پرایک صائب رائے تشکیل نہیں دے پائے۔غیرجذباتیت سے جذباتیت کے سفرتک، ٹھوس اورواضح سوچ تشکیل ہونے سے پہلے ہی لحدمیں اُتاردی گئی۔آہستہ آہستہ وہی ہوا، جو ناکام ریاستوں میں ہوتا ہے۔ ذہنی، فکری، سماجی، مذہبی اورمعاشی انتشار۔یہ تمام مسائل آج کی مملکت خدادادمیں اژدہے بنکرکھڑے ہوچکے ہیں۔ چار پانچ دہائیاں پہلے توپھربھی کچھ نہ کچھ بات ہوسکتی تھی۔مگرآج کل تومکالمہ کا امکان ہی نہیں ہے۔ ہرادارہ،دفتر،سیاستدان بلکہ ہرقابل ذکربندہ صرف اپنی بات کوسچ گردانتاہے۔باقی لوگ اس کے لیے دشمنِ عظیم بلکہ شیطان کادرجہ رکھتے ہیں۔
نام سے آغازکیجیے۔سمجھائیے کہ ہم اسلامک ریپبلک کیسے ہیں۔طنزنہیں کررہا۔معاف فرمائیے گا، ہم ایک مسلمان ملک ہیں۔اسلام کی ظاہری شکل کوہم اپنے اپنے مقاصدکے لیے استعمال کررہے ہیں۔مجھے اس ملک کا کوئی شعبہ دکھادیں جہاں ہمارے انقلابی دین کی اصولی عملداری ہو۔خیراس بحث سے گریز کرنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ یہ ایک مخصوص طبقے کے لیے قطعاً قابل بحث نہیں ہے۔ بہرحال آج اس مفروضہ پر بحث کرناچاہتاہوں جسے قانون کی حکمرانی کہا جاتا ہے۔ کسی فورم پر چلے جائیے۔
کسی کانفرنس میں شرکت کریں۔کسی بحث کا حصہ بن جائیے۔کوئی نہ کوئی اخلاقی سورمااُٹھے گااورسمجھائے گاکہ تمام مشکلات اورمصائب کاحل صرف اورصرف ایک ہے کہ مملکت خدادادپاکستان میں قانون کی حکمرانی کویقینی بنائیں۔ انتہائی قابل وکلاء،سول سوسائٹی کے فعال ارکان اوردانشورپورے وثوق سے پورے ملک کو بارہا سمجھاتے ہوئے نظر آئیں گے کہ جناب ہمیں صرف اورصرف ایک شے کی ضرورت ہے اور وہ ہے قانون کی حکمرانی۔
اگر یہ ہو جائے تو ملک منٹوں میں درست سمت میں چل پڑیگا اور ترقی کا دروازہ ہم سب پر کھل جائیگا۔ کسی کو بھی اجازت نہیں کہ اس مفروضہ کے خلاف کوئی رائے دے سکے۔ قانون کی حکومت کی عملداری کے تین فریق ہیں۔ عدالتیں، پروسیکیوشن اور پولیس۔ پولیس تفتیش کرتی ہے،مقدمہ، عدالت میں پیش کیا جاتا ہے اورعدالتیں فیصلہ کرتی ہیں۔ ویسے ایک فریق اور بھی ہے اور وہ ہے جیل۔ جہاں مجرموں اور ملزموں کو مقید رکھا جاتا ہے۔
ابھی عرض نہیں کر رہا کہ نظامِ قانون کی مشین سے کیا برآمد ہو رہا ہے۔ اس پر سنجیدہ بحث بہر حال اَز حد ضروری ہے۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ ہمیں چاہیے کیا۔ طالبعلم کی دانست میں کسی بھی معاشرہ، قوم،ریاست یاانسان کو دراصل تمام معاملات میں انصاف چاہیے۔ وضاحت سے گزارش کرنا چاہتاہوں کہ اصل نکتہ ”انصاف کی حکومت” ہے نہ کہ قانون کی۔ یہ بالکل سادہ سی بات ہے۔ اگرکسی بھی ریاست کا قانونی نظام،انصاف کے اعلیٰ معیار پر پورا نہیں اُتر رہا، تو بحث ہونی چاہیے۔ کہ یہ نظام اپنے تشکیل شدہ مقصدمیں کیوں ناکام ہو رہا ہے۔
انتہائی سنجیدگی اور غیر جانبداری کے ساتھ پورے نظام کو جوہری طور پر تبدیل کرنے کی کوشش کرنی لازم ہے۔ کیونکہ اگرایک مختص نظام اپنے قیام کے بنیادی اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہے، تو متبادل معاملہ کو سوچنا ایک فطری بات ہے۔ دوبارہ عرض کرونگا۔ ہمیں قطعاً قانون کی حکومت نہیں چاہیے۔ ہمیں”انصاف کی حکومت” کا حامی بننا چاہیے۔
وائی سی نیواساہندوستان کاایک مستندقانون دان ہے۔قانون کی چوٹی کی ڈگریاں حاصل کر چکا ہے۔ 2012ء میں برصغیرمیں تقسیم سے پہلے کے نظامِ انصاف پر حیرت انگیزتحقیق کی ہے۔یہ ایک مقالہ کی صورت میں شایع کی گئی ہے۔وائی سی نیواسا بذات خودبھی ایک جج ہے۔یہ رپورٹ یامضمون انتہائی اہم ہے۔اس کی پیشانی پرلارڈمیکالے کا قول درج ہے۔” ہم برصغیرکوایک بہترحکومت دینے کی کوشش کررہے ہیںکیونکہ ہم انکوایک آزادحکومت نہیں دے سکتے”۔ اسی جملے سے ظاہرہوجاتاہے کہ تمام نظام ایک غلام قوم کوانگوٹھے کے نیچے رکھنے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا۔
انصاف کی حقیقی فراہمی سے اسکاواجبی ساتعلق تھا۔ واجبی بھی پوری طرح عکاسی نہیں کرتا۔قیام کے وقت رعایا کو انصاف کی فراہمی کاقطعاًکوئی مقصدنہیں تھا۔ رنجیت سنگھ کی وفات کے بیس برس بعدپوراہندوستان مکمل طورپربرطانوی گرفت میں آچکاتھا۔
برطانوی حاکموں کواندازہ تھاکہ برصغیرمیں مقامی نظامِ عدل صدیوں سے انتہائی سرعت اور پختگی سے انصاف فراہم کررہاہے۔مختلف مذاہب کے لوگ اپنے اپنے عقیدہ کے حساب سے قانون کے مطابق مقامی عدالتوں سے فیصلے لے رہے تھے۔کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں تھی۔مسلمانوں کے لیے قاضی مقرر تھے۔ نوے فیصدفیصلے پنچائتی نظام کے تحت سنائے جاتے تھے۔ ہندوؤں کے لیے ان کے قانون کے مطابق الگ مقامی عدالتیں تھیں۔
سلاطین دہلی سے لے کرمغلوں کی فعال مرکزی حکومتوں تک حصول انصاف کے معاملات درست طریقے سے طے ہورہے تھے۔ایسٹ انڈیا کمپنی کے عمائدین سمجھ چکے تھے کہ وہ اس قوم کواس وقت تک غلام نہیں بناسکتے جب تک انھیں ایک ایسے بے رحم نظام کے حوالے نہ کردیاجائے،جوان کی روایات،رسم ورواج اورمعاشرتی معاملات سے میل نہ رکھتا ہو۔انتہائی چالاکی سے ایک ایسانظام رائج کیا جو ان کے اپنے ملک یعنی برطانیہ تک میں موجودنہیں تھا۔ اسکوغلام ملک میں بغیرکسی تحقیق کے نافذ کر دیا گیا۔ آج کے عدالتی نظام کی بنیادملکہ برطانیہ کا وہ فرمان ہے جواس نے 1624ء میں ایسٹ انڈیاکمپنی کو دیا تھا۔
اس کے تحت کمپنی نے اپنی حدتک ایک عدالتی نظام قائم کیا تھا۔ مگریہ صرف اورصرف کمپنی کے فوجی اور سول ملازمین تک محدودتھا۔ 1652ء میں مدراس میں عوام کے لیے ایک ایسی عدالت قائم کی گئی جودیوانی معاملات میں معمولی قرض دہندگان کے متعلق فیصلے کرتی تھی۔اس کے علاوہ نقص امن کے معاملات بھی دیکھتی تھی۔مقصدبالکل صاف تھا۔ایسٹ انڈیاکمپنی کے مالی مفادات کویقینی بنانے کے لیے ایک نظام کی بنیادرکھی گئی تھی۔مدراس سے یہ غیرملکی نظام بمبئی میں لایا گیا اورپھرپورے بنگال میں نافذکردیا گیا۔
برصغیر میں ہائیکورٹ کاکوئی وجودنہیں تھا۔ 1861ء میں ہائیکورٹس وجودمیں آئیں اورپھریہ معاملہ پورے برصغیرمیں رائج ہو گیا۔ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ کیونکہ مقصدکسی کواُلجھانا نہیں۔ ناہی کسی ادارے کے متعلق منفی تاثرقائم کرناہے۔طالبعلم کے طورپرعرض کرناچاہتاہوں،کہ جس”رول آف لاء”کی تعریفیں کرتے کرتے ہم بے دم ہوئے جارہے ہیں، اس کا ہماری روایات، سماجی،معاشی اورخطے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔نکتہ بہت باریک ہے۔
گورے کا مقصد قطعاً ہمیں انصاف دینا نہیں تھا۔وہ صرف یہ چاہتاتھاکہ ہمارے مقامی نظام کی توہین کی جائے اور ایک ایسا متبادل نظام کھڑا کر دیا جائے جس سے مقامی لوگوں کوانصاف کے نام پر دبایا جاسکے۔ساتھ ساتھ نئے عدالتی نظام کے مضبوط اسٹیک ہولڈرز پیدا کیے گئے، جنکے مالی مفاد اس نئے نظام کے برقرار رہنے میں پوشیدہ تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہر قصبے تک عدالتی نظام پہنچ گیا مگر اس میں سے انصاف غائب ہوگیا۔
تحقیق کی بنیادپرگزارش کررہاہوں کہ موجودہ نظامِ عدل کاہمارے خطے کی مٹی سے کوئی تعلق نہیں۔قطعاًیہ نہیں کہہ رہاکہ صدیوں پرانے انصاف کے ادارے بہت بہتر کام کررہے تھے۔مگرایک آزاد اور خودمختار ملک کے طور پر ہمیں غور و فکر کرنا چاہیے کہ ہمارا مقامی پنچائتی نظام اتنا مضبوط کیوں تھا۔ اس میں ناانصافی کیوں ناممکن تھی۔
اس میں سائل کے اخراجات حددرجہ کم کیوں تھے۔ ان کے فیصلے اتنے شفاف کیونکرتھے۔پاکستان کے ایک چوٹی کے وکیل کا فقرہ یادآرہاہے۔بارہاکہتاتھا”عدالت میں جھوٹ کے علاوہ کچھ بھی بولنا ناممکن ہے۔ اور پنچائیت میں صرف اور صرف سچ بولا جاسکتا ہے”۔کسی قبائلی یاجاہلانہ نظام کی طرفداری نہیں کر رہا۔ مگر کیا وجہ ہے کہ پورے نظام عدل میں عام لوگوں کی کوئی شمولیت نہیں ہے۔
امریکا کا جیوری سسٹم دیکھیے۔جیوری کے ممبران عام لوگ ہوتے ہیں۔ ان میں کوئی بھی قانون دان نہیں ہوتا۔ جیوری کے ممبران میں ڈرائیور، بینکر، اساتذہ، ڈاکٹر یا بغیر پڑھے لکھے لوگ تک شامل ہوتے ہیں۔ انھیں قانون کی پیچیدگیوں کا معمولی سابھی علم نہیں ہوتا۔ وکلاء کی بحث کوغور سے سنتے ہیں۔ اس کے بعد بند کمرے میں بیٹھ کر گھنٹوں بحث کرتے ہیں۔ شہادتوں کو پرکھتے ہیںاور ایک فیصلہ کر دیتے ہیں۔ عام شہریوں کا کیا گیا فیصلہ ہی عدالتی فیصلہ بن جاتاہے۔ سب کچھ معمولی جرائم تک محدود نہیں تھا۔ جیوری، قتل، اقدام قتل، ڈاکے، چوری، ریپ یعنی بھیانک ترین جرائم پر بھی فیصلہ صادر کرتی ہے۔ دیکھا جائے تو یہ ہمارے مقامی پنچائتی نظام کی ایک بہتر شکل ہے۔
سو مرتبہ گزارش کرون گا کہ مقصد موجودہ عدالتی نظام کے متعلق کوئی منفی تاثر قائم کرنا نہیں۔ تم نا صرف یہ ہے کہ پورے عدالتی نظام کو موثر بنایا جائے۔ اس کی ہیت میں بنیادی تبدیلیاں کی جائیں۔ انصاف کی فراہمی کو تیز رفتار بنایا جاسکے بلکہ برق رفتار بنایا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس پر بھی کڑی نظر رکھی جائے کہ فراہم کردہ عدل کا معیار کتنا بلند ہے۔ غیرمعیاری انصاف بھی بے انصافی کے زمرے میں آتا ہے۔ آج لاکھوں لوگ ہماری عدالتوں میں دھکے کھاتے نظر آتے ہیں۔
پولیس کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہوتے ہیں۔ جیلوں میں جا کر جرم کرنے پر عبور حاصل کر لیتے ہیں۔ انصاف لینا کم از کم ہمارے نظام میں تو ناممکن ہے۔ طوالت اس درجہ زیادہ ہے کہ مقدمہ کامقصدہی فوت ہوجاتا ہے۔ ہم دراصل عدالتی پراسس کو انصاف کا درجہ دے رہے ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ انگریز قطعاً بیوقوف نہیں تھا۔ وہ ہم پر حکومت کر رہا تھا۔ اگراسکا مقامی مروجہ کردہ نظام اس درجے اعلیٰ ہوتا تو یہ سب کچھ اپنے ملک میں رائج کیوں نہیں کیا۔ دراصل گورا بادشاہ ہمیں قانون کی کتابیں دے گیا اور انصاف اپنے ملک یعنی برطانیہ میں لے گیا۔ حقیقت میں ہمیں قانون کی نہیں بلکہ انصاف کی حکومت چاہیے!