تحریر : محمد یاسین صدیق
حکومت نے ایک مزدور کی ماہانہ 12000 تنخواہ مقرر کی ہے ۔اس پر عمل نہیں ہے اس بابت پہلے کالم میں لکھا جا چکا ہے”جائیں تو جائیں کہاں ” کے عنوان سے ،ہوٹل ،پرائیویٹ سکول، کارخانے ،ورکشاپس وغیرہ میں کسی بھی جگہ اس پر عمل نہیں ہے ۔اور مزدور اس سے آدھی تنخواہ پر کام کر رہا ہے کسی سے شکایت بھی نہیں ،حکومت سے بھی نہیں کیونکہ ایسا کرنے سے اسے ڈر ہے اس کا یہ روزگار بھی ختم ہو جائے گا کیونکہ انصاف پاکستان میں ملتا نہیں بکتا ہے. جس کو وہ نہیں خرید سکتا اور یہ بھی کہ اگر وہ کام چھوڑ دے تو اس سے کم تنخواہ پر کام کرنے والے کھڑے ہوتے ہیں .بے روزگاری کا عفریت ہے۔مزدورپیشہ ( پرائیویٹ اداروںمیں نوکری کرنے والے) افراد اللہ کا شکر کرتے رہتے ہیں یعنی اللہ سے بھی شکایت نہیں کرتے ۔اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ مزدور کو حکومت کی پالیسی کے مطابق تنخواہ نہیں مل رہی پھر بھی چلو مان لیا یا اس کو فرض کر لیتے ہیں کہ اس پر عمل بھی ہو رہا ہے
ہر مزدور کو 12000 ماہوار مل رہے ہیں ۔ اس حساب سے روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والوں کی یومیہ اجرت 400روپے بنتی ہے۔اگر وہ اتوار یا جمعہ کو بھی چھٹی نہ کرے تو۔ دوسری طرف اگرروزانہ کے اخراجات دیکھیں یہ اخراجات ایسی فیملی کے ہیں جس کے کل چھ افراد ہیں چار بچے ،میاں اور بیوی ۔ خاندان کے تین وقت کے کھانے سمیت ایک دن کے خرچ کا بجٹ بنایا جائے تو اعداد و شمار کچھ یوں بنتے ہیں.ایک عام پاکستانی کی کل آمدنی کا تقریبا 50 فیصد حصہ خوراک پر خرچ ہو جاتا ہے۔ یعنی 12000 ماہانہ کمانے والے کے 6000روپے ماہانہ راشن پر خرچ ہو جاتے ہیں۔ان میں آٹا،گھئی ،چینی ،دال ،سبزی،پیاز ،چائے،چاول ، صابن ،سرف ،وغیرہ شامل ہے 200روپے روزانہ۔اس کے علاوہ (اوسطاً) موبائل بیلنس 20روپے ماہانہ 600 بچوں کا جیب خرچ 30روپے (سکول جانے والے تین بچوں کے لئے ماہانہ 900)۔
بچوں کی کاپیاں ،پنسلیں وغیرہ 1500 ۔ بجلی کا بل500 سے 700 روپے گیس کا بل 400 روپے (اگر لکڑی کا چولہا ہو تو خرچہ چار گنا بڑھ جاتا ہے اور غریب کے گھر لکڑی کا چولہا ہی ہوتا ہے پھر بھی ہم چار سو ہی شمار کرتے ہیں ) دودھ ایک لیٹر روزانہ ، 1800۔اگر کوئی دور دراز کام پر جاتا ہے تو اسکے روزانہ کے خرچ میں ٹرانسپورٹ کے کرایہ40روپے روزانہ کے حساب سے 1200 ہوئے اس طرح کل ماہانہ خرچ 6000+1200+600+900+400+500++1500+1800 12900 اگر یہ خاندان کرایہ دار ہو تو ماہانہ کرایہ تقریباً 3000 روپے ٹوٹل 15900 روپے بنتے ہیں خیال رہے
اس تخمینے میں اشیاء کے نرخ انتہائی کم رکھے گئے ہیں۔ سستے بازاروں یا عام بازاروں میں ممکنہ طور پر دستیاب سستی سے سستی اشیاء ۔ دوسرے یا تیسرے درجے کی اشیاء کی قیمتیں شمار کی گئی ہیں۔اول درجے کی اشیاء غرباکے اول تو نصیب میں نہیں دوم بازار میں دستیاب بھی کم ہیںسوم اور اس قیمت پر تو ممکن ہی نہیں جو ہم نے لکھی ہے ۔اس بات کا خیال رہے کہ اس بجٹ میں، بیمار ہونے ک صورت میں علاج ومعالجہ ، میاں ،بیوی یا بچوں کے لیے نئے کپڑے،( نئے تو کیا لنڈے کے کپڑے بھی) ، جوتے ، کہیں جانے آنے کے سفری اخراجات ،اور نہ ہی قریبی عزیزوں کی شادی یا وفات وغیرہ میں ہونے والے اخراجات شامل نہیں ہیں۔اور نہ ایسے اخراجات شامل ہیں جو مرد خرچ کرتا ہے یعنی چائے یا سگریٹ وغیرہ یا خاتون کے لیے چوڑیاں یا دیگر نسوانی ضرورت کی اشیائ۔اب اگر اس مزدور کے گھر کوئی مہمان آ جاتا ہے،
یا کوئی بیمار ہو جاتا ہے یا اسے اچانک کسی کی عیادت یا تعزیت کے لیے جانا پڑجاتا ہے ،کوئی خاندان میں شادی آ جاتی ہے تو وہ کیسے یہ سب نبھا پاتا ہے۔ اگر اسے بچوںکی سکول فیس جمع کرانی ہو۔ نئی جماعت میں داخل ہونے والے بچوں کے لیے کاپیاں ، پنسیلیں یا امدادی کتب خریدنی ہوں۔یا سردیوں میںگرم کپڑے ،سویٹریا جرسی خریدنی ہو تو سکول کے یونیفارم ،اور جوتے اور خود میاں بیوی کے اپنے کپڑے ،جوتے ،یہ سب وہ کیسے پورے ہو سکتے ہیں۔
کیا حکومت کی اعلان کردہ ایک مزدور کے لیے 12000 تنخواہ اگر وہ بھی ایک مزدور کو مل رہی ہو یہ فرض کیاگیا ہے تویہ رقم انکی ان ضروریات کو پورا کر سکتی ہے ۔یہ بجٹ جو بنایا گیا ہے اسطرح ہے کہ اگر پورے ماہ کے دوران اسکے کام کا ناغہ نہ ہو، اس کے ہاں نہ کوئی مہمان آئے نہ کوئی بیمار ہو ، نہ اسے بچوں کی فرمائش پر گوشت پھل یا مٹھائی وغیرہ لانی پڑے ۔ ان سوالات کے ممکنہ جوابات حکومت اور تمام قارئین لیے دعوت فکر ہیں کہ وہ کیسے زندگی گزار رہا ہے اور ان ضرورتوں کو کیسے پورا کر رہا ہے ؟؟
تحریر : محمد یاسین صدیق