تحریر : روہیل اکبر
شہریوں کے جان و مال کی حفاظت اور انہیں زندہ رہنے کے لیے سہولیات فراہم کرنا حکومت وقت کا کام ہوتا ہے مگر یہاں الٹ کام چل پڑا ہے عوام حکومت کو اپنے ٹیکسوں سے زندہ رکھ رہی ہے جبکہ حکومت اور حکومتی ادارے عوام کو خطرناک تباہی کی طرف دھکیل کر نہ جانے کس بات کا انتقام لے رہے ہیں ایک طرف اشرافیہ ہے تو دوسری طرف عوام ایک کا کام مزے کرنا ہے تو دوسری کا کام دنگے فساد اور مرنا مارنا بن چکا ہے ایک طرف غربت اور بے روزگاری نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں تو دوسری طرف کے لوگوں کے پاس پیسے خرچ کرنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے یہ ہمارے حکمرانوں کا کمال ہے کہ امیر ،پیسے والے اور حکمرانوں کے قریبی ہر جائز اور ناجائز فائدے بے دھڑک اٹھا رہے ہیں جبکہ غریب اور محنت کش افراد اخراجات کے بوجھ تلے دب کر اپنی موت آپ مر تے جارہے ہیں
آج کے اس دور میں جتنی ایک فرد تنخواہ لیتا ہے اس سے وہ اپنے بوڑھے والدین کے لیے ایک دن کی دوائی بھی نہیں خرید سکتا اور رہی زندگی کی عیاشیوں کی بات وہ غریب انسان کی اب سوچ سے بھی نکل چکی ہے اب تو صبح سے لیکر شام تک ایک عام شہری کو اپنی دال روٹی اور گھر کے اخراجات کی فکرہی کہیں اور جانے کی اجازت نہیں دیتی ہمارے ادارے کرپشن کی نظر ہو چکے ہیں سرکاری ہسپتالوں میں عام انسان کے لیے ذلت اور خواری کے سوا کچھ نہیں ہے جہاں انہیں اپنا معائنہ کروانے سے لیکر ادویات کے حصول تک اور پھر ٹیسٹوں کے لیے جو مشکلات پیش آتی ہیں وہ بھی انتہائی ہتک آمیز ہوتی ہیں اب تو ہسپتال میں ڈاکٹروں سے چیک اپ کروانے کے لیے بھی ایم ایس کی سفارش کی ضرورت پڑتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب مریض کو زرا دیہان سے چیک کرلیں یہی نظام ہمارے باقی کے اداروں کا ہے
پولیس نے تو ہر اس غیر قانونی کام کی سرپرستی کا ٹھیکہ لے لیا ہے جو معاشرے میں بگاڑ کا زریعہ بن رہا ہے حکومت نے ان سب برائیوں سے آنکھ بند کرکے غریب کو اسکے حال پر چھوڑدیا ہے ہمارے دیہات کے لوگ بدترین غربت کا شکار ہو چکے ہیں ایک وقت کی روٹی کے لیے سارا دن چوہدری کے ڈیرے کا طواف کرتے رہے ہیں لوگوں نے کئی کئی سال سے اپنی جوتیاں اور کپڑے تبدیل نہیں کیے بچوں کے پاس نیکر ہے تو شرٹ نہیں ادویات خریدنے کی سکت نہیں ہے علاج معالجہ کے لیے دم درود اور تعویزوں سے کام چلایا جارہا ہے
غربت ہے کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی اور کرپشن اتنی بڑھ چکی ہے کہ کوئی غریب اپنے کسی ذاتی کام کے لیے بھی کسی کے پاس چلا جائے تو سب سے پہلے وہ کام کروانے والا پوچھے گا کہ مجھے کیا دوگے سرکاری سکولوں کا معیار تعلیم ختم ہوتا جارہا ہے پرائیوٹ سکولوں میں بچوں کو پڑھانے والے اپنا پیٹ کاٹ کر انکی فیسیں ادا کررہے ہیں چور ،ڈاکو اور فراڈیے دندناتے پھر رہے ہیں جبکہ شریف اور حافظ قران افراد کو پولیس مشکوک سمجھ کر پکڑ رہی ہے اور بعد میں مظاہرین بے دردری سے تشدد کا نشانہ بنا کر انہیں آگ لگا دیتے ہیں اور ہمارے ریاستی ادارے ان مظاہرین کا منہ دیکھتے رہتے ہیں اور عوام کے ووٹوں سے برسراقتدار آنے والے عوام کے لیے ہی پریشانی کاباعث بن کر انہیں مشکلات سے دوچار کردیتے ہیں
ہم لوگ اپنے بچے کا رونا بھی برداشت نہیں کرتے اور ان ظالم لوگوں نے جیتے جاگتے انسانوں کو آگ لگا کر کتنی بڑی اذیت سے دوچار کیا ہوگا وہ تو شہادت کا رتبہ پاکر جنت میں چلے گئے ہونگے مگر انکے والدین کی ساری زندگی جہنم بن گئی جنہوں نے پیدا کرنے سے لیکر انکی جوانی تک کے سفر میں نہ جانے کتنی مشکلات کا سامنا کیا ہوگا اور اپنے بڑھاپے کا سہارا سمجھ کر نہ جانے کیا کیا منصوبے بنا رکھے ہونگے مگر ہمارے حکومتی اداروں کے ظلم کا شکار ہو کر تشدد کا شکار ہوگئے ہمارے پاس مثال کے لیے کوئی بھی ایسا ادارہ نہیں ہے جو کرپشن اور سفارش کے کلچر سے پاک ہو جہاں پاکستان اور پاکستانیوں کی فلاح وبہبود کے لیے کام کررہا ہو جہاں چور بازاری اور مک مکا کی سیاست نہ ہو پاکستان اس لیے بنایا گیا تھا کہ یہاں پر رہنے والے انسانوں کو انکے بنیادی حقوق انکی دہیلیز پر پہنچائے جائیں نہ کہ اس لیے بنا تھا کہ ایک عام انسان سے اسکے حقوق چھین کر اسے جیتے جی موت کے منہ میں دھکیل دیا جائے
اگر پاکستان کو آگے لیکر جانا ہے اور عوام کو خوشحالی کی زندگی دینا ہے تو پھر ہمیں اپنے بنائے ہوئے قانون پر عمل کرنے کے لیے چوربازاری کا راستہ روکنا ہوگا بکھری ہوئی قوم کو متحد کرنے کیلیے حکمران اپنے اندر انصاف کا نظام لائیں اپنے آپ کو ایک سچا ،مخلص اور ہمدرد پاکستانی ثابت کرنے کیلیے ملک میں عوام کو سہولیات فراہم کرنے کا جال بچھا دیں چوروں ،ڈاکوؤں اور کرپٹ افراد کو نشان عبرت بنا کرایک مثال قائم کردیں مگر یہ سب کچھ اس وقت ہی اچھا لگے گا جب کسی کو اپنی جائز ضرورت پوری کرنے کیلیئے کسی ناجائز طریقے کے استعمال کی ضرورت نہ پڑے اس لیے سب سے پہلے عوام کو سہولیات فراہم کی جائیں اسکے بعد احتساب کا نظام رائج کیا جائے۔
تحریر : روہیل اکبر
03004821200