تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میںیہ لکھ کر دیا تھاکہ تین ماہ کے اندر اردو کا بطور قومی زبان نفاذکر دیاجائے گا۔ ہم بڑے خوش تھے کہ چلو 68 سال بعد ہی سہی ہماری حکومت نے کم ازکم ایک کام توایسا کرنے کاعہد کیا جس کااعلان بابائے قوم نے کیا تھا۔ہمیں یہ بھی یقین تھا کہ ہمارے حکمرانوں نے کہہ دیا سوکہہ دیا کیونکہ اُن کے وعدے آصف زرداری صاحب جیسے نہیں ہوتے۔
جب محترم چیف جسٹس(ر) جواد ایس خواجہ نے اسی حکومتی وعدے کا اعادہ کرتے ہوئے تین ماہ کے اندراُردوکے بطورقومی زبان نفاذکا حکم نامہ جاری کیا توہمارا خیال تھاکہ اِس کی ضرورت ہی نہیںتھی کیونکہ حکومت توپہلے ہی سپریم کورٹ میں اِس کاباقاعدہ اقرارکر چکی لیکن ”خواب تھا جوکچھ کہ دیکھا ، جو سُنا افسانہ تھا”۔ سپریم کورٹ کے حکم نامے کوبھی چار ماہ گزرچکے لیکن حکمرانوں کے کانوں پر”جُوں”سے بھی اگر کوئی چھوٹی شے ہے تووہ بھی رینگتی دکھائی نہیں دیتی۔
وزیرِاعظم صاحب پاکستان میںتو اُردومیں ہی تقریر کرتے ہیںلیکن بیرونِ ملک ”پرچیوں”پرہی گزارہ ۔ویسے بھی وزیرِاعظم صاحب پاکستان میںہوتے ہی کہاںہیں جواُن سے دست بستہ عرض کی جاسکے ۔ہماری تجویزہے کہ وزیرِاعظم صاحب کی پاکستان آمدپر پارلیمنٹ میں اُن کی”رونمائی” کی باقاعدہ تقریب منعقدکی جائے اورساتھ ہی قرردادمنظور کرکے پابندکیا جائے کہ وہ سال میںکم ازکم ایک ماہ پاکستان میںضرور گزاریںگے تاکہ ہم بھی دنیاکو کہہ سکیں کہ ہمارابھی ایک وزیرِاعظم ہوتا ہے۔
بات دوسری طرف نکل گئی، ہم کہہ رہے تھے کہ حکمران اپناعہد نبھائیں گے لیکن ہم غلط تھے کیونکہ
آصف زرداری صاحب کے ” لنگوٹیے”میاںنواز شریف صاحب نے بھی یہ ثابت کردیاکہ ”کند ہم جنس با ہم جنس پرواز ،کبوتر با کبوتر ، باز با باز ”۔ زرداری صاحب نے کہاتھاکہ” وعدے قرآن وحدیث نہیںہوتے” اور یہی ”ہتھ” میاں صاحب نے بھی سپریم کورٹ کے ساتھ کردیا ۔ لیکن وہ شاید بھول گئے کہ سپریم کورٹ اپنے احکامات پرعمل کروانا خوب جانتی ہے ۔کیا ہوا جو جسٹس خواجہ ریٹائرہو گئے ،اُن کاحکم تو بہرحال موجودہے اورحکم نامے کی عدم تکمیل پرتوہینِ عدالت لاگوہو سکتی ہے اورانجام یوسف رضاگیلانی جیسا بھی ۔اب حکمرانوںنے سپریم کورٹ میںدرخواست دائرکر دی ہے کہ اُردوکا نفاذ ممکن نہیں۔
حیرت ہے کہ پچھلے دنوںنفاذِ اُردو ہی کے سلسلے میںمنعقد کی گئی ایک تقریب میںوزیرِاطلاعات ونشریات پرویزرشید صاحب اوروزیرِریلوے خواجہ سعدرفیق حاضرینِ محفل کو یقین دلارہے تھے کہ حکومت نہ صرف نفاذِ اُردومیں سنجیدہ ہے بلکہ اِس پرتیزی سے کام بھی ہورہا ہے ۔اب کبھی یہ جواز گھڑاجا رہاہے کہ CSS کے امتحانات اُردومیں لیناممکن نہیںاورکبھی یہ کہ اُردوکا نفاذسرے سے ہی ناممکن ۔عرض ہے کہ ساری دنیامیں مقابلے کے امتحانات اُن کی قومی زبانوںمیں ہی ہوتے ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ وہ قومیںانگریزوں کی ذہنی غلام نہیں۔
حکمرانوںکے قول وفعل میںیہ تضاد سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک طرف توسپریم کورٹ میںددرخواست دائر اوردوسری طرف تازہ بہ تازہ بنائے گئے قومی تاریخ وادبی ورثہ کے وزیرکا تازہ بہ تازہ فرمان کہ ”اُردوکو سرکاری زبان بنانے کے لیے اب تیزی سے کام ہوگا۔اِس سلسلے میںمختلف اداروںکی کوششوںکو مربوط کیاجائے گا۔علمی وادبی اورتحقیقی اداروںکو نئے جذبے کے تحت اپنی توانائیوں کو بروئے کارلاناہو گا”۔ تازہ بنائے گئے وزیرِموصوف کی وزارت بھی عجیب کہ مختلف وزارتوںکے ”ٹوٹے” جوڑکر کر تشکیل دی گئی۔
ویسے وزارت کاحصول اُن کاحق تھا کہ عشروںسے وہ اپنے ممدوح کی مدح سرائی میںمشغول ۔اُن کے بارے میںمشہور ہے کہ اگرکوئی اُنہیںیہ کہے کہ میاںنواز شریف صاحب کو اُس نے اپنی آنکھوںسے (خُدانخواستہ) شراب کے جام لنڈھاتے دیکھاہے تووہ (وزیرِموصوف) جھٹ سے کہیںگے ”تم نے غورنہیں کیاوہ توشرابِ طہورہ تھی جوجنت کی حوریں اللہ تعالیٰ کے حکم پرمیاں صاحب کے لیے لے کرآسمانوں سے اُتری تھیں ”۔اب دیکھتے ہیںکہ انتہائی خوبصورت نثرلکھنے والے وزیرِموصوف اپنے کہے پہ کتناعمل کرتے اورکرواتے ہیں ۔ویسے جب وہ کالم نگارتھے تواپنے کالموںمیں سچائی کابہت ڈھنڈورا پیٹاکرتے تھے ،اب دیکھیں کہ وہ اپنے کہے پہ عمل کروانے میںکامیاب ہوتے ہیں یا نہیں ۔بہرحال کوئی کچھ بھی کہے اُردوہمیں دِل وجان سے زیادہ عزیزہے اورہم اِس کو قومی زبان کادرجہ دلوانے کے لیے اپنی قلمی کاوشوں سے حکمرانوںکو جھنجھوڑتے رہیں گے۔
سمجھ میںنہیں آتاکہ آخر ہمارے حکمرانوںکو نفاذِ اُردوسے اتنی ”چِڑ” کیوںہے ؟۔ بیوروکریسی کی توسمجھ آتی ہے کہ یہ ”کاٹھے انگریز” تواپنی اولادوںکو بھی پاکستان میںتعلیم دلوانا پسندنہیں کرتے وہ بھلا اُردوکا نفاذکیسے ہونے دیںگے لیکن حکمرانوںکو توہماری زبانیں”میڈ اِن پاکستان” کہتے کہتے تھک بلکہ ”ہَپھ” چکیں۔ اُن کی مادری زبان پنجابی ،جو اُردوسے قریب تر اورجماعت کانام ”مسلم لیگ” جو بابائے قوم کی جماعت اورجس کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کرتے ہوئے بابائے قوم نے زمین کایہ ٹکڑاحاصل کیا۔
یہ حضرتِ قائدِاعظم کاہی فرمان ہے کہ پاکستان کی قومی زبان اُردوہو گی توپھر اِس کے نفاذمیں اتنی جھجک اورآئیں بائیں شائیں کیوں؟۔ ایک اوربات کہ اگرہماری پارلیمنٹ کے معزز اراکین میںسے 10 فیصدبھی انگریزی میںتقریر کے قابل ہوںتو ہم نفاذِ اُردوکے مطالبے پرنظرِثانی کے لیے تیارہو جائیںگے ۔یہ کوئی بری بات نہیںکہ ہمارے پارلیمنٹیرین کی غالب اکثریت کوانگریزی سے واجبی سی واقفیت ہے اوریہ بہرحال بہت اچھی بات کہ سبھی اُردومیں اپنا مطمعٔ نظر بہت اچھی طرح بیان کرسکتے ہیں۔ پھرکیاقومی زبان کانفاذ صرف اِس لیے ناممکن کہ ہماری بیوروکریسی کے نزدیک یہ ناپسندیدہ زبان ہے؟۔
تحریر: پروفیسر رفعت مظہر