counter easy hit

حکومتی مفکروں کی پھرتیاں

Mumtaz Qadri

Mumtaz Qadri

تحریر : مبشر ڈاہر
نون لیگی نان نہاد مفکرین کی یہ پھرتیاں سمجھ نہیں آ رہی کہ ممتاز قادری کو پھانسی دینے میں اتنی غیر ضروری عجلت کا مظاہرہ کیوں کیا گیا ہے اور کون سے قانونی تقاضے پورے کیے گئے ہیں ممتاز قادری کے مقدمے کو مد نظر رکھتے ہوئے وطنِ عزیز میں اسی موجودہ نواز حکومت کے دور میں کتنے بڑے بڑے ہائی پروفائل کیسزز سامنے آئے تو ان میں کہیں بھی کوئی ”خصوصی ”پھرتی ملک و ملت کی بہتری کے لیے نظر نہیں آئی ہاں البتہ انہی مغربی آقاؤں جن کے نظریاتی تلوے چاٹ کریہ حکومتی ایوانوں تک پہنچتے ہیں انہی کے ایجنٹوں حفاظت کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کرتے ہیں۔ سلمان تاثیر سمیت تمام حکومتی مشینری اور وزارء حلف تو ارض پاکستانی کی نظریاتی حدود کی حفاظت کا حلف لیتے ہیں ۔ اور پھر عملی طور پر یہ نظریاتی اساسِ ملت لاالہ الا اللہ اور نظریاتی دستور پاکستان محمد الرسول اللہ کی مخالفت میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

ہمارے حکمرانوں کی اپنی عقل تو کام کرتی دکھائی نہیں دیتی ہاں البتہ ان کے کرائے کے دماغ جنہیں یہ اپنا تھینک ٹینک کہتے ہیں ان کے سر میں بھی بھوسہ بھرا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔ ملک پہلے ہی ہوشربا مسائل سے دوچار ہے اوراوپر سے اس نام نہاد تھینک ٹینک کی ”سیان پتی” نے ہر طرف سے راند ہِ درگاہ اور بکھری ہوئی مذہبی جماعتیں جو پہلے بھی وحدہ بہ وحدہ اس بوسیدہ، مغرب زدہ، مادیت پرست استثماری نظام سے نالاں ہیں، ان مریض دماغوں نے ان مذہبی جماعتوں کو بھی ممتاز قادری کو بے وقت پھانسی دلوا کرحکومت مخالفت میں یکجا کر د یا ہے۔

راتوں رات اپیل مسترد کرنا، رات کے اندھیروں میں پھانسی دینا ، میڈیا کوکوریج سے روکنا۔دفعہ 144 کونافذ کرنا، یہ اتنی ساری پھرتیاں کس لیے ۔ ۔ ۔ ؟ کیا یہی پھرتیاں ریمنڈ ڈیوس کیس میں دکھائی گئیں۔ ۔ ۔ ؟ کیا یہی پھرتیاں لاہور میں دن دیہاڑے سو لوگوں کولہومیں نہلانے کے بعد دکھائی گئیں۔ ۔ ۔ ؟ اسی روزلاہور چودہ معصوم شہریوں کو کسی بلڈ پریشر کے مریض کی انا کے بھینٹ چڑھایا گیا وہاں یہ پھرتیاں کیوں نہیں دکھائی گئیں ۔ ۔۔ ؟ کیا یہی پھرتیاں شاہ رخ جتوئی کیس میں دکھائی گئیں۔ ۔ ۔ ؟ قصور میں بچوں کے ساتھ بداخلاقی کے طویل واقعے پرپھرتیاں دکھائی گئیں ۔ ۔ ۔ ؟ کیا معصوم زین کے قاتل طاقت ور کانجو کو سزا دلوانے میں یہ پھرتیاں کہاں تھیں۔۔ ۔ ؟ تھر میں فاقوں مرنے والے بچوں کی سنچریاں پوری ہو رہی ہیں ادھر تو کوئی پھرتی نظر نہیں آتی۔

ممتاز قادری کے جنازے کے مناظر بھی پاکستان کی تاریخ کے ان چندا چھوتے لمحات میں سے ہے کہ جن میں کو ئی دیوبندی، سنی، اہلحدیث نظر نہیں آیا بلکہ سب کے سب مطفو ی غلامیۖ میں یکجا ہو کر صدائے سیدی مرشدی یانبی یانبی۔۔ ۔ اور صدائے حق ۔ ۔ ۔ لاالہ اللہ ۔ ۔ ۔ بلند کرتے نظر آتے ہیں۔خیر ان تمام نام نہاد نون لیگی مغرب کے فکری غلاموں اور لا ابالی طبع میں جوان ہونے والے ، ذرائع ابلاغ اور الیکٹرانک میڈیا کو تمام مذہبی جماعتوں نے بڑا واضح پیغام دیا ہے اور” عاشق کا جنازہ ”اس ”دھوم دھام ” سے نکالا ہے کہ ڈالر، پاؤنڈ مفکروں ، موم بتی مافیہ اور ان کے روحانی مادرپدروں اور پاکستانی حواریوں کے لیے ” فکرِ سلمان تاثیر” اور ”فکر ِممتاز قادری” سے بخوبی آگاہی ملی ہے ۔اور تفہیم الفکری کے حوالے سے ان کے چودہ طبق روشن بھی ہوئے ہیں۔ اوریہ ” فکرِسلمان تاثیر” کے وارثوں کو تا دمِ آخر یادبھی رہے گی۔ اور دوسری بات یہ کہ یکم مارچ یہ عظیم الشان منظردراصل ” فکرِممتازقادری” کے احیاء کا دن اور ”فکرِ سلمان تاثیر” کے جنازے کا دن بھی تھا۔جس کی دھوم دھام کی گونج باز گشت بن کر صدیوں تک آتی رہے گی۔اور اسی سوگ میں مقامی میڈیا نے اس جنازے کی کوریج بھی نہیں دی۔

حکومت اور اس کے نام نہاد” تھینک ٹینک ”کس مغربی سوچ کو پروان چڑھانے پہ درپے ہیں کیا وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ ان بوریا اور ٹاٹ پہ بیٹھے درویشوں کے دلوں میں جلنے والی شمعِ عشق محمدی ۖکو اپنی پھونکوں سے بجھاد یں گے ۔وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذراروحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو اور پھر تاریخ بھی ایسا نہیں کہتی ۔ پاکستانیوں کے لیے دو طرح کی لیڈر شپ ہے جس سے ان کی اخلاقی ،مذہبی، اور جذباتی وابستگی ہے پہلی قیادت کاتعلق ماضی قریب کے ساتھ ہے یعنی جن کے ہاتھوں قیام پاکستان ممکن ہوا اگر ان کے عمل کو دیکھا جائے تو 1929ئ میں قائد اعظم محمد علی جناح بمبئی سے لاہور غازی علم دین شھید کے مقدمے کی وکالت کے لیے تشریف لائے۔

اپنے وقت کے مہنگے ترین وکلاء میں شمار ہونے کے باوجود غازی علم دین شیدے کے مقدمے کو مفت توکیلی سہولیات فراہم کیں۔ اسی طرح مفکر پاکستان مرشدِ دوراں علامہ محمد اقبال نے غازی علم دین شہید کو زبر دست خراج عقیدت پیش کیا اور وہ تاریخی جملہ کہا ” اسی تے گلاں کردے رہ گئے تے لوہاراں دامنڈا بازی لے گیا”۔ اور غازی شہید سے جیل میں ملاقات بھی کی ۔ اور خراجِ تحسین کے طور پر غازی کے لیے یہ مشہور اشعاربھی کہے۔
ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ
قدر قیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر

اسی پس منظر سے تھوڑا اور پیچھے زمانہ نبوی ۖ میں چلیں جائے تو بیشتر ایسی مثالیں ملتی ہیں کے شاتم الرسول اور گستاخ رسول ۖ کو ماوارئے عدالت قتل بھی کیا گیا اور انہیں بیشتر تاریخ اور احادیث کی کتب میں مذکور ہے کہ کس طرح شاتم الرسول ۖ اور گستاخ رسولۖ کو ماورائے عدالت بغیر کوئی مقدمہ چلائے قتل بھی کیا گیا اور نبی کریم ۖ نے ان کے قتلوں پرنہ تو کسی قسم کے دکھ کا اظہار کیا اور نہ ہی ان کی دیت یا حد مقرر کی گئی بلکہ ان کا خون رائیگاں گیا۔کعب بن اشرف اس کی اولیں مثال ہے ،فتح مکہ کے موقع پر ابن خطل کوجو کہ کعبہ شریف کے ساتھ چمٹا تھا اس کا قتل اس کی دوسری مثال ہے ۔ایک صحابی نے ایک شاتمہ عورت کو قتل کر کے نبی ۖ کو اس کی خبر دی تو آپ نے اس پر بھی کسی دکھ کا اظہار نہیں فرمایا۔ اسی طرح سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کے زمانہ میں بھی ایک یہودی نے نبی اکرم ۖ کی شان میں گستاخی کی اور موقع پر موجود بچوں نے اسے مار دیا تو اس کا خون بھی رائیگاں گیا۔

ممتاز قادری کے مقدمے کا منظر نامہ بھی کچھ طرز کا دکھا یٔی دیتا ہے کہ جس میں مقتول سلمان تاثیر توہین رسالت ۖ کے مقدمے میں عدالت سے سزا یافتہ مجرمہ عاسیہ بی بی کی سزا کومعاف کروانے کے لیے اپنی گورنری کی طاقت کا استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔اور پھر میڈیا پر آکر برملا توہین رسالت سے متعلقہ قانون 295c کو کالا قانون قرار دیتا ہے اور اسے ختم کرنے کا بھی کہتا ہے اور مجرمہ کو اپنے سیاسی اثرو رسوخ کی بناء پر سزا کے ختم کروانے کی بھی نوید دے رہا ہے ۔ایسی صورتحال میں اگر ریاست کا کوئی قانون حرکت میں نہیں آتا تو وہ ایسے عوامل کو برملا دعوت دے رہاہے کہ پاکستان کی نظریاتی حدود کی حفاظت کا حلف اٹھا نے والے اپنے حلف کی پاسدادری تو کجا اس کی مخالفت کے پے درپے ہیں۔

دھرتی ماں غیرت کی طرح ہوتی ہے ۔ پھر غیرت ابال بھی کھاتی ہے اور ایسے میں پھر یہی ہوتا ہے جو ممتاز قادری نے کیا ۔ اگر اس وقت کوئی حکومتی ادارہ حرکت میں آگیا ہوتا اور سلمان تاثیر کے خلاف تادیبی کاروائی کر لیتا اور اسے جیل کے اندر میڈیا سمیت جاکر ایک توہین رسالت میں سزا یافتہ مجرمہ کی حمایت کے ساتھ ساتھ ملک پاکستان کے نافذ کردہ قانون کی اس طرح سے توہین اور مخالفت نہ کرتا تو کیوں کسی ممتاز قادری جیسے عام آدمی کو اپنی جان گنواناپڑتی۔

Mubashar

Mubashar

تحریر : مبشر ڈاہر