counter easy hit

گورنر پنجاب کے استعفیٰ سے قبضہ گروپ کا خاتمہ یا حکومت تبدیلی ۔۔؟

Chaudhry Sarwar

Chaudhry Sarwar

تحریر:غلام مرتضیٰ باجوہ
چودھری سرور کے استعفیٰ کی منظوری سے بات ختم نہیں شروع ہوئی ہے۔ طاقتور لینڈ مافیا کی سرپرستی کون کرتا ہے حکومت کو اس کا جواب دینا پڑے گا۔کیونکہ جرائم اور حکمرانوں کی نااہلی پر عوامی تحریک کی طرف سے جاری ایک رپورٹ انکشاف کیا گیا ہے کہ جنوری میں بھوک اور فاقوں سے تنگ آئے 200شہریوں نے خودکشی کی۔لاہور میں حکومتی اداروں کے ظلم کا شکار انارکلی کے غریب مچھلی فروش ذیشان نے خود کو آگ لگا ئی۔ پنجاب میں 170 شہریوں کو تھانوں میں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا اوریکم جنوری سے 30 جنوری تک 3 لاکھ 7 ہزار سنگین جرائم ہوئے جن میں چوری، ڈکیتی، قتل، اقدام قتل ،موٹر سائیکل، کار، موبائل اور پرس چھیننے کی وارداتیں شامل ہیں۔

پولیس نے خودساختہ قانون کے تحت انکوائری کے بعد ایف آئی آر درج کرنے کا سلسلہ شروع کیا ، اس طریقہ کار کے تحت 80فیصدمقدمات درج ہونے سے رہ گئے ،اس طریقے کار کا واحد مقصد جرائم کی شرح کو کم سے کم ظاہر کرنا ہے۔ جنوری کا مہینہ بھی گزشتہ سال کی طرف بچوں اور بچیوں کیلئے افسوسناک واقعات سے بھرپور رہا، بچوں، بچیوں سے زیادتی، زیادتی کی کوشش اور انہیں قتل کرنے کے 300 سے زائد واقعات ہوئے۔ گوجرانوالہ میں 4 سالہ بچی، لاہور میں 6 اور 9سالہ بچی، فیصل آباد میں 10 سالہ بچی، حافظ آباد میں 7سالہ بچی، حجرہ شاہ مقیم میں 4 بچیوں کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے اور قتل کرنے کے افسوسناک واقعات شامل ہیں، پنجاب پولیس بچوں کو تحفظ دینے اور انکے قاتلوں کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی صرف 2 فیصد واقعات میں ملزم گرفتار ہو سکے۔ پنجاب میں بے روزگاری کا جن پوری طرح بوتل سے باہر آ چکا ہے۔

جنوری میں منصوبہ بندی کے تحت گیس، ایل پی جی اور پٹرول کے بحران پیدا کر کے صرف پنجاب کے شہریوں کی جیبوں پر 70 سے 80 ارب روپے کا ڈاکہ ڈالا گیا۔پٹرول بحران کے ذمہ دار وزیر نے قوم کو بھکاری کہہ کر ان کی توہین کی۔ جنوری میں بجلی کا 3 بار بریک ڈائون حکومت کی نااہلی سے ہوامگر یہ ذمہ داری دہشت گردوں پر ڈالنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ شوگر مافیا اب چینی کا بحران پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کرچکا ہے۔ جنوری کے مہینے میں سرگودھا میں ادویات اور سہولتیں دستیاب نہ ہونے پر 83 بچے جاں بحق ہوئے ہر ضلع کے سرکاری ہسپتالوں میں 100 سے 150 بچے موت کے منہ میں جارہے ہیں پنجاب حکومت اموات کی شرح کم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی ۔ یہ اعداد و شمار قومی، علاقائی اخبارات، الیکٹرانک میڈیا کی رپورٹس روزانہ کی بنیاد پر جمع کیے۔

نواز شریف کے ذاتی دوست کی حیثیت سے پنجاب کے گورنر کا عہدہ سنبھالنے والے چوہدری محمد سرور کو معتدل مزاج اور متوازن سیاسی رویہ رکھنے والے لیڈر کی شہرت بھی حاصل ہو رہی تھی۔ اگست میں طاہر القادری کی واپسی اور طیارے پر قبضہ کے بعد وہی ذاتی تعلقات کی بنا پر انہیں راضی کر کے ان کے گھر لے گئے تھے۔ پھر دھرنوں کے دوران بھی انہوں نے طاہر القادری اور عمران خان سے ملاقات کر کے کوئی بیچ کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس رول کی وجہ سے میڈیا اور سرکاری حلقوں میں ان کی پذیرائی بھی ہوئی تھی۔ انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا ہے۔ انہوں نے اس عہدہ پر فائز ہونے کے لئے نہ صرف برطانیہ کی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی تھی بلکہ برطانوی شہریت بھی ترک کر دی تھی۔ حالانکہ ان کا گھرانہ وہیں پر آباد ہے

ان کا کاروبار بھی اسی ملک میں ہے۔ انہوں اپنے استعفیٰ کا اعلان کرتے ہوئے چوہدری محمد سرور نے بتایا ہے کہ وہ بطور گورنر عوام کی خدمت کا مشن پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس لئے وہ اس عہدے سے استعفیٰ دے رہے ہیں۔ لیکن چوہدری سرو ر اور شریف برادران کے درمیان دوریوں کی اطلاعات بہت دیر سے آ رہی تھیں۔ استعفیٰ کی وجہ امریکہ اور بھارت کے درمیان تعلقات کی پیش رفت کو پاکستانی سفارت کاری کی ناکامی قرار دیا جارہاہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر پاکستانی حکومت مستعدی سے امریکہ کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لئے کام کرتی تو صدر باراک اوباما بھارت کے ساتھ پاکستان کا بھی ضرور دورہ کرتے۔

Pakistan

Pakistan

یہ بیان پاکستانی حکومت کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھا۔ اسلام آباد کے سیاسی اور سفارتی حلقوں کی جانب سے کھل کر اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے کہ امریکی صدر نے نہ صرف بھارت کا دورہ کرتے ہوئے پاکستان کو نظر انداز کر دیا تھا بلکہ اس دورہ سے قبل اور دورہ بھارت کے دوران نہایت گرمجوشی کا مظاہرہ بھی کیا تھا۔ ملک کی سیاسی قیادت ابھی تک یہ باور کرنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ امریکہ سے ہٹ کر بھی عالمی سفارت کاری میں سرخروئی اور کامیابی حاصل کرنے کے امکانات موجود ہیں۔

مبصرین اور انٹرنیشنل میڈیا رپورٹ کے مطابق کہ چوہدری سرور کچھ عرصہ سے حکومت سے علیحدگی اختیار کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔ میاں برادران سے ان کے اختلافات کی خبریں آتی رہی ہیں۔ چوہدری سرور نے گورنری قبول کرتے ہوئے یہ توقع کی تھی کہ انہیں امور مملکت میں زیادہ مؤثر اور فعال رول دیا جائے گا۔ لیکن لاہور میں میاں شہباز شریف وزیراعلیٰ کے طور پر براجمان ہیں اور مرکز میں ان کے بھائی کی حکومت ہے۔ میاں نواز شریف کے بعد شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو امورِ مملکت میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ شہباز شریف پنجاب کے معاملات کے علاوہ وفاقی حکومت کے امور میں بھی مداخلت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اکثر و بیشتر غیر ملکی دورے بھی کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح وہ ڈی فیکٹو وزیر خارجہ ہونے کا تاثر دیتے رہے ہیں۔پنجاب کے موجودہ وزیراعلیٰ اپنے اختیارات پر کسی قسم کی قدغن برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

مسلم لیگ (ن) ایک غیر جمہوری ڈھانچے پر کھڑی ایک ایسی سیاسی جماعت ہے جس کے معاملات صرف شریف فیملی کی مرضی اور صوابدید سے طے ہو سکتے ہیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف کے قریب وہی لوگ آ سکتے ہیں جو خوشامد میں یدِ طولیٰ رکھتے ہوں۔ انہیں اس قسم کے درباری میسر بھی آ جاتے ہیں۔ چوہدری سرور ان درباریوں میں شامل نہیں ہو سکے۔

شاید ان کا مزاج بھی اس طریقِ سیاست سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے برطانیہ کے جمہوری معاشرے میں سیاسی تربیت حاصل کی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کا تیسرا دورِ حکومت شریف برادران کی توقعات کے برعکس ناکامیوں اور مسائل سے بھرپور رہا ہے۔ پہلے سے موجود مسائل کے علاوہ حکومت کو آئے دن ایک نئے بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نواز لیگ کے اندر اگرچہ ابھی تک نواز شریف کی قیادت کو چیلنج نہیں کیا گیا لیکن موجودہ صورتحال میں پارٹی میں وسیع سطح پر بے چینی ضرور موجود ہے۔

کچھ عرصہ پہلے تک نواز شریف کے دست راست غوث علی شاہ اور سردار ذوالفقار کھوسہ اب ان کے خلاف مہم چلانے کی باتیں کرتے ہیں۔ مبصرین بھی یہ نشاندہی کرتے رہتے ہیں کہ امور مملکت پر شریف خاندان کی اجارہ داری سے پارٹی میں مایوسی پھیل رہی ہے اور حکومت کی کارکردگی بھی متاثر ہو رہی ہے۔ ان حالات میں چوہدری سرور کا استعفیٰ مسلم لیگ (ن) میں توڑ پھوڑ کے سلسلہ میں بارش کا پہلا قطرہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔دوسری جانب ملک میں فسادات اور اندرونی لڑائی کے خطرات ہیں، سارے رہنما اور سیاسی جماعتیں سرگرم ہیںکہ دہشت گردی سمیت تمام بحرانوں کا خاتمہ کیا جائے۔لیکن قبضہ گروپ کی طاقت سے شروع ہونے والی کہانی چند دنوں تک حکومت کوتبدیل کرسکتی ہے۔جس سے بہت سی سیاسی تبدیلی آئے گی۔

Ghulam Murtaza Bajwa

Ghulam Murtaza Bajwa

تحریر:غلام مرتضیٰ باجوہ