نواز حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کئی برسوں سے بہت کامیاب سیاست کرنے اور تیسری بار وزارت عظمیٰ حاصل کرنے کے باوجود اسے میڈیا کے ذریعے لوگوں تک اپنا کیس پہنچانا نہیں آیا۔ گزشتہ کئی مہینوں سے اسے عمران خان اور ان کی جماعت نے ویسے بھی پانامہ دستاویزات کے ذریعے اچھالے سکینڈل میں الجھا رکھا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی بھی حکمران کو اپنی تین نسلوں کی دولت کا سپریم کورٹ کے روبرو حساب دینا پڑرہا ہے۔ایک قطری شہزادے نے اس ضمن میں یکے بعد دیگرے دو خطوط بھی لکھ دئیے ہیں۔دستاویزات کے طومار ہیں جن کی چھان بین سے ہر کوئی اپنی اپنی پسند کے نتائج نکال سکتا ہے۔ شریف خاندان کی مالی ساکھ کو اخلاقی اور قانونی حوالوں سے صاف اور شفاف قرار دینے کی مشقت میں مبتلا اس حکومت کے پاس وقت ہی نہیں ہے کہ وہ خارجہ پالیسی اور ہماری قومی بقاء سے جڑے چند بنیادی حقائق مناسب انداز میں بیان کرسکے۔
جماعت الدعوۃ کے حافظ سعید صاحب کو پولیس کی بھاری نفری بھیج کر لاہور میں پیر کی رات نظر بند کردیا گیا ہے۔ دو کے ساتھ دو کو جوڑ کر ہمیشہ چار بنانے والوں نے فوراََ یہ طے کردیا کہ حکومت نے یہ فیصلہ ٹرمپ انتظامیہ کے حکم پر نہ سہی مگر اس کے ڈر سے ضرور کیا ہوگا۔ یہ خیال منطقی یوں بھی محسوس ہوتا ہے کہ سات مسلمان ممالک سے ویزا اور گرین کارڈ کے باوجود امریکہ میں داخلے کے خواہاں افراد پر پابندی لگادی گئی ہے۔ اس فیصلے کے بعد وائٹ ہائوس کے ایک اعلیٰ افسر نے عندیہ یہ بھی دیا کہ پاکستانی شہری بھی ایسی پابندیوں کا نشانہ بنائے جاسکتے ہیں۔ یہ تاثر پھیلانا لہذا بہت آسان ہوگیا کہ نواز حکومت اس عندیے کی وجہ سے ’’بکری‘‘ بن گئی ہوگی اور گھبرا کر حافظ سعید کو نظر بند کردیا۔ معاملہ مگر اتنا سادہ نہیں ہے۔
ٹی وی سکرینوں پر دفاعی امور کے ریاستی سرپرستی کی بدولت ’’ماہر‘‘ بنائے لوگ جو بھی کہتے رہیں،تلخ حقیقت مگر یہ ہے کہ 2008ء کے ممبئی حملے کے بعد سے حافظ سعید اور ان کی جماعت کو صرف بھارت اور امریکہ ہی نہیں کئی عالمی اداروں نے بھی اپنی توجہ کا مرکز بنارکھا ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنی ’’دہشت گردوں‘‘ کی فہرست میں ڈالا ہوا ہے۔ اس فہرست میں شامل افراد کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان کو عالمی اقتصادی پابندیوں کا نشانہ بھی بنایا جاسکتا ہے۔ بھارت پاکستان پر ایسی پابندیوں کے نفاذ کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہے۔ سلامتی کونسل کا مستقل اور ویٹو کی طاقت کا حامل چین جو ہمارا یار بھی ہے، ایسی کارروائی میں لیکن اصل رکاوٹ ہے۔
حافظ سعید کے دفاع میں کھڑے ہوجانے کے باوجود، چین ہمارے سفارت کاروں کو انتہائی خاموشی مگر تسلسل کے ساتھ کئی مہینوں سے یہ پیغام بھی دیتا رہا ہے کہ انہیں اور ان کی جماعت کو کم جھوٹ ہونے پر مائل کیا جائے۔ اپنے مخلص دوست کی طرف سے آیا یہ پیغام مگر میڈیا کے ذریعے لوگوں تک پہنچایا نہیںگیا۔
1971ء میں بھی ایسے ہی ہوا تھا۔ اس دوران ہمارے جتنے بھی سرکاری وفود چین گئے تھے انہیں چو این لائی جیسا مفکر اور دوراندیش شخص کھلے الفاظ میں بتاتا رہا کہ مجیب الرحمن اور عوامی لیگ سے سیاسی سمجھوتے کی راہ نکالی جائے۔ چین کے لئے ممکن ہی نہیں کہ ٹھوس فوجی مداخلت کے ذریعے پاکستان کے دفاع کو یقینی بناسکے۔ چو این لائی کی یہ بات مگر پاکستانی عوام تک پہنچائی نہیں گئی۔ ہم میں سے کئی لوگ بلکہ برسوں تک دل ہی دل میں یہ محسوس کرتے رہے کہ چین مشکل کی اس گھڑی میں ہمارے ساتھ کھڑا نہیں ہوا تھا۔
چین سے یہ شکوہ کرتے ہوئے ہم میں سے بہت کم لوگوں کو یہ حقیقت یاد رہی کہ 1970ء کا سال اس کے لئے اندرونی معاملات کے حوالے سے انتہائی مشکل سال تھا۔ چینی افواج کا سربراہ ان دنوں لین بیائو ہوا کرتا تھا۔ اسے مائوزے تنگ کا متوقع جانشین بھی تصور کیا جاتا تھا۔ عمر رسیدہ اور انتہائی بیمار ہوئے مائوزے تنگ ان دنوں روزمرہّ کے سرکاری معاملات سے قطعاََ بیگانہ ہوچکے تھے۔ اصل اختیار ان کی چہیتی بیوی نے اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا۔ وہ کسی زمانے میں بیلے کی مشہور گلوکارہ،رقاصہ اور اداکارہ رہی تھی۔انتہاء پسند نوجوانوں کا ایک گروہ اس کے اشارے پر کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجاتا۔
اس گروہ کو یقین تھا کہ مائوزے تنگ کے ساتھیوں کی اکثریت جنہوں نے کئی برسوں کی جدوجہد کے بعد انقلاب برپا کیا تھا،اب بوڑھی ہوکر نام نہاد پرانا نظام کی عادی اورحامی بن چکی ہے۔ اس گروہ نے ’’ثقافتی انقلاب‘‘کے نام پر بوڑھی قیادت کے خلاف بغاوت برپاکردی۔ اس گروہ کے قائدین چار تھے جنہیں ’’گینگ آف فور‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس گینگ کے پھیلائے انتشار وخلفشار پر چینی ریاست نے قابو پانے کی کوشش کی تو لین بیائو نے بغاوت کردی۔اسے گرفتار کرنے کی کوشش ہوئی تو وہ طیارہ لے کر منگولیا کی طرف فرار ہوگیا۔مناسب پیٹرول نہ ہونے کی وجہ سے مگر اس کا طیارہ زمین پر گرا اور تباہ ہوگیا۔
انتشارو خلفشار کے اس دور ہی میں چینی قیادت نے امریکہ سے تعلقات قائم کرکے اپنی قومی بقاء کو یقینی اور معیشت کو مستحکم اور خوش حال بنانے کا بندوبست کرنا چاہا۔پاکستان نے اس ضمن میں ٹھوس کردار یقینا ادا کیا۔ اس کردار کے عوض مگر چین ان دنوں اپنے اندرونی مسائل کی وجہ سے پاکستان کو ٹھوس فوجی تحفظ فراہم کرنے کے قابل ہی نہیں تھا۔
ہمارا میڈیا ان دنوں 1971ء جیسی پابندیوں کا شکار نہیں۔ ریاستی جبر سے آزاد ہوکر لیکن وہ اب ریٹنگز کا غلام ہوچکا ہے۔ ہماری ریاست کے دائمی اداروں میں آج بھی حقیقی اختیار ان لوگوں کے پاس ہے جو عوام کو حقائق سے آگاہ کرنے کو تیار نہیں۔ وہ ہمیں اس گمان میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں کہ ہماری بقائ، سلامتی اور معاشی بہتری اور خوش حالی کے لئے سی پیک امرت دھارا ثابت ہوگا۔ روس بھی دوبارہ طاقت پکڑ رہا ہے۔چین اور روس ہمارے ساتھ کھڑے ہوجائیں تو امریکہ اور بھارت باہم مل کر بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑسکتے۔
ہمارے’’آزاد‘‘ میڈیا میں ’’ستے خیراں‘‘ والے اس بیانیے کے بارے میں دیانت دارانہ سوالات اٹھانے کی نہ تو پیشہ وارانہ صلاحیت ہے اور نہ ہی اخلاقی جرأت۔ ہماری ’’جی داری‘ثابت کرنے کو ویسے ہی پانامہ کیس موجود ہے۔ اس کی من پسند تعبیر سے نواز شریف ،ان کی حکومت اور وزراء کو للکارنے کی بے پناہ اسپیس بھی۔ پانامہ سے ہٹ کر کوئی بات کرو تو ریٹنگز نہیں آتیں۔ ریٹنگز کی آپ پرواہ نہ بھی کریں تو ’’ستے خیراں‘‘والے بیانیے پر سوالات اٹھانے والوں کو غدار اور دشمن دین بنادیا جاتا ہے۔ وہ خوف سے کسی کونے میں دبک کر بیٹھ جاتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جبر کے بارے میں خاموش رہنا کسی پاکستانی کے لئے ممکن ہی نہیں ۔ وہاں کئی برسوں سے جاری تحریک ِ آزادی کومحض بڑھکوں کے ذریعے مگر کامیاب نہیں بنایا جاسکتا۔آزادی کی ہر تحریک کے مختلف ادوار ہوتے ہیں۔ان میں سے ہر دور اپنے لئے ایک مخصوص حکمت عملی کا تقاضہ کرتا ہے۔
آج کی حقیقت یہ ہے کہ اگست 2016ء میں برہان وانی کی وحشیانہ ہلاکت کے بعد مقبوضہ کشمیر کی تحریکِ آزادی میں جو موڑ آیا وہ دنیا کو واضح انداز میں بتا رہا تھا کہ اپنے حقوق حاصل کرنے کی تڑپ گھروں میں بیٹھی عورتوں اور سکول جانے والے بچوں کو بھی چین نہیں لینے دے رہی۔آزادی کی موجودہ لہر خالصتاََ مقامی اور قطعاَ عدم تشدد ہے۔ ’’مذہبی دہشت گرد‘‘ گلیوں میں نعرے لگاتے اور فوجیوں پر سڑک سے اٹھائے پتھر نہیں پھینکا کرتے۔محض نعرے لگانے والی بچیوں اور بچوں کو مگر تاعمر اندھا کردینے والی گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ مودی حکومت کے پاس نہتے نوجوانوں کو اندھا کردینے والی گولیوں کو استعمال کرنے کا کوئی جواز موجود ہی نہیں تھا۔دریں اثناء پٹھان کوٹ اور اوڑی جیسے واقعات ہوگئے اور بھارتی سرکار نے ‘‘دہشت گردی ‘‘ کی دہائی مچاکر خود کو ’’مظلوم‘‘ثابت کرنے کا ڈھونگ رچانا شروع کردیا۔
حافظ سعید کی سیاست کے بارے میں بہت سارے تحفظات کے باوجود میرا اصرار ہے کہ ان کی جماعت کا مقبوضہ کشمیر پر حاوی آزادی کی موجودہ لہر سے ہرگز کوئی تعلق نہیں۔ ان کی جماعت اپنے ماضی کے حوالے سے مگر ایک برینڈ نام بن چکی ہے۔ بھارتی سرکار کے لئے اسے اپنے ہاں ہوئے ہر واقعے کا ذمہ دار ٹھہرانا اس برانڈ کی وجہ سے بہت آسان ہے۔ اس تناظر میں ضروری تھا کہ حافظ صاحب چین جیسے مخلص دوستوں کی خواہش پر جھوٹ کم ہوجاتے اور بڑی شدومد کے ساتھ فقط فلاحی کاموں میں مصروف نظر آتے۔ ایسا مگر ہونہیں پایا اور انہیں نظر بند کرنا پڑا۔ دیکھنا ہوگا کہ پانامہ میں الجھی نواز حکومت اس نظربندی کو ہضم کرپائے گی یا نہیں۔